اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن ) نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے مہلک حادثات سے بچاو کیلئے ناکافی اقدامات پر مختلف کمپنیوں پر جرمانے کردیے۔
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق نیپرا نے ملتان، پشاور،حیدر آباد اور ٹرائبل ایریا الیکٹرک سپلائی کمپنیز پر جرمانے لگانے کا حکم جاری کردیا۔
حکم نامے کے مطابق نیپرا نے میپکو، پیسکو اور ٹیسکو پر بھی جرمانے عائد کئے ہیں جو کرنٹ سے بچاو  کے اقدامات پر عمل درآمد نہ کرنے پر کئے گئے ہیں۔
حکم نامے میں بتایا گیا ہے کہ میپکو، پیسکو اور ٹیسکو شوکاز کے جواب میں نیپرا کو مطمئن نہ کر سکے، نیپرا نے تینوں ڈسکوزپر فی کس ایک کروڑ روپے جرمانہ عائد کیا اور جرمانے کی رقم 15 روز میں جمع کرانے کا حکم دیا۔
حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ نیپرا قوانین پر تینوں ڈسکوز عمل درآمد کرانے میں ناکام رہیں، تینوں ڈسکوز اپنے انتظامی علاقوں میں100فیصد پولز کی ارتھنگ میں ناکام رہیں جس پر میپکو، پیسکو اور ٹیسکوکو 3 ماہ میں باقی ماندہ سٹیل سٹرکچر کی ارتھنگ کی ہدایت کی گئی ہے۔
حکم نامے کے مطابق نیپرا نے ہیلتھ، سیفٹی اور انوائرمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے قیام میں ناکامی پربھی کارروائی کی ہے۔
نیپرا کے مطابق حیدر آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی حیسکو پربھی ایک کروڑ روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔

پیکا ایکٹ میں ترامیم سپریم کورٹ میں چیلنج

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: نیپرا نے کے مطابق

پڑھیں:

حکومت کی جانب سے 6 نئی نہروں کے منصوبوں کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش

وفاقی حکومت نے 6 نئی نہروں کے منصوبوں کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کردیں۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیر برائے آبی وسائل معین وٹو نے 6 نئی نہروں سے متعلق تحریری تفصیلات ایوان میں پیش کیں۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پنجاب کے لیے چھوٹی چولستان نہر کے منصوبے کے لیےارسا نے جنوری 2024 میں این او سی جاری کیا، یہ منصوبہ حکومت پنجاب کی مالی معاونت سے مکمل کیا جا رہا ہے، جب کہ منصوبے کی کل لاگت 225 ارب 34 کروڑ روپے ہے جسے سی ڈی ڈبلیو پی نے ایکنک کو بھجوا دیا ہے، تاہم ایکنک نے تاحال اس کے پی سی ون پر غور نہیں کیا۔معین وٹو نے بتایا کہ حکومت سندھ نے 15 نومبر 2024 کو ارسا کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ منسوخ کرنے کی سمری ارسال کی جب کہ تھر کینال منصوبے کے لیے ارسا سے این او سی کی باضابطہ درخواست نہیں دی گئی۔ واپڈا نے اس منصوبے کے لیے 212 ارب روپے کا پی سی ون جمع کرایا ہے، منصوبہ فی الحال غیر منظور شدہ ہے۔

وزیر آبی وسائل کے مطابق گریٹر تھل کینال کے لیے ارسا نے مئی 2008 میں پانی کی دستیابی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا، اس منصوبے کا پہلا مرحلہ 10 ارب 17 کروڑ روپے کی لاگت سے 2010 میں مکمل ہو چکا ہے اور اسے پنجاب کے حوالے بھی کیا جاچکا ہے، دوسرے مرحلے کی منظوری ایکنک نے 2024 میں سی سی آئی سے مشروط کر کے دی ہے۔وزیر آبی وسائل نے بتایا کہ برساتی نہر منصوبے کے لیے ارسا نے ستمبر 2002 میں سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔ فیز ون 17 ارب 88 کروڑ 60 لاکھ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا اور اسے حکومت سندھ کے حوالے کر دیا گیا، فیز ٹو کی تجویز کو جی او سی مشاورتی اجلاس میں مسترد کر دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے لیے شروع کیے گئے نہری منصوبے کا این او سی ارسا نے اکتوبر 2003 میں جاری کیا، اس کا فیز ون 2017 میں مکمل ہوا، تاہم 2022 کے سیلاب میں اسے نقصان پہنچا، واپڈا نے متاثرہ حصوں کی مرمت جزوی طور پر کر دی ہے، رواں مالی سال مارچ تک اس منصوبے کے لیے 22 ارب 92 کروڑ روپے مختص کیے گئے جب کہ فیز ٹو کے لیے 70 ارب روپے کا پی سی ون تیار کر لیا گیا ہے جس کی منظوری کا انتظار ہے۔معین وٹو کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کے لیے سی بی آر سی نہر کو ارسا نے اپریل 2004 میں این او سی دیا جب کہ ایکنک نے 2022 میں 189 ارب 61 کروڑ روپے کا پی سی ون منظور کیا، یہ منصوبہ فی الحال ایوارڈ کے عمل سے گزر رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت کی جانب سے 6 نئی نہروں کے منصوبوں کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش
  • پانی کی تقسیم پر پنجاب کا ارسا کو مراسلہ، سندھ کو زیادہ پانی دینے پر سخت موقف
  • وزیراعظم سیکرٹریٹ، پارلیمنٹ لاجز، چیئرمین سینیٹ آفس سمیت اربوں روپے کے بجلی بل نادہندگان میں شامل
  • وزیراعظم سیکریٹریٹ، پارلیمنٹ لاجز، چیئرمین سینیٹ آفس سمیت اربوں روپے کے بجلی بل نادہندگان میں شامل
  • اسلام آباد، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی ٹرانسفر فیس میں بڑا اضافہ ،الیکٹرک گاڑیوں پر بھی ٹرانسفر فیس عائد
  • حکومت نے گاڑیوں کی ٹرانسفر فیس میں اضافہ کردیا
  • لاکھوں روپے ریویو فیس ادا نہ کرنے پر کراچی کے صارف کی درخواست مسترد، نیپرا ممبر کا فیصلے کیخلاف اختلافی نوٹ
  • اسلام آباد میں گاڑیوں کی ٹرانسفر فیس میں ہزاروں روپے کا اضافہ
  • وفاقی دارلحکومت میں گاڑیوں کی ٹرانسفر فیس میں اضافہ ،اطلاق آج سے شروع
  • بجلی کی فی یونٹ قیمت میں کمی، فری لانسرز اور صنعتی صارفین کو کتنا فائدہ ہوگا؟