بڑی پیشرفت، پشاور کے ارباب نیاز اسٹیڈیم میں 20 سال بعد میچ کروانے کی تیاریاں
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم پشاور میں قریباً 20 برس بعد میچز کروانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے اپریل میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے 2 میچز پشاور میں کروانے پر غور کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے نمائندے نے ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم کا دورہ کیا، جہاں پولیس حکام نے انہیں سیکیورٹی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دی۔
مزید پڑھیں: قذافی اسٹیڈیم میں تیاریاں مکمل، وزیراعظم 7 فروری کو افتتاح کریں گے، محسن نقوی
پولیس حکام کے مطابق، غیر ملکی کھلاڑیوں کے لیے گراؤنڈ، پویلین ایریا، ہوٹل روٹ اور اسٹیڈیم کے اطراف میں سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لیا گیا۔ عوام کی سہولت کے لیے شٹل سروس، ڈرون کیمروں سے مانیٹرنگ اور اسٹیڈیم کے قریب ہیلی پیڈ بنانے کی تجویز بھی زیر غور آئی۔
پولیس حکام نے یقین دہانی کرائی ہے کہ غیر ملکی کھلاڑیوں کے لیے سیکیورٹی کے تسلی بخش انتظامات کیے جائیں گے۔ ارباب نیاز اسٹیڈیم میں آخری بین الاقوامی میچ 2006 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلا گیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئی سی سی ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم انٹرنیشنل کرکٹ کونسل پاکستان سپر لیگ پاکستان کرکٹ بورڈ پشاور پی سی بی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم انٹرنیشنل کرکٹ کونسل پاکستان سپر لیگ پاکستان کرکٹ بورڈ پشاور پی سی بی ارباب نیاز کے لیے
پڑھیں:
چمکتا دمکتا قذافی اسٹیڈیم
خاتون اینکر بھارتی اداکار اکشے کمار کا انٹرویو کر رہی تھیں کہ اچانک وہ 7 کا پہاڑا پڑھنے لگے، سیون ون زا سیون، سیون ٹو زا فورٹین، ایٹ تک انھوں نے درست پڑھا اور سب خاموشی سے سنتے رہے، جیسے ہی انھوں نے سیون نائن زا سکٹی فائیو کہا تو اینکر نے فورا ٹوکتے ہوئے کہا کہ 65 نہیں سکسٹی تھری، یہ سنتے ہی اکشے نے چٹکی بجائی اور کہا کہ یہی میں بتانا چاہتا تھا، جب تک میں صحیح ٹیبل پڑھ رہا تھا آپ نے کچھ نہ کہا صرف ایک غلطی پر فورا ٹوک دیا،زندگی میں ایسا ہی ہوتا ہے، یہ سن کر وہ اینکر شرمندہ ہو گئیں۔
واقعی یہ حقیقت بھی ہے،کوئی کتنا بھی اچھا کام کر لے ہم اس کی بالکل تعریف نہیں کرتے، ہم پاکستانی تو تعریف کے معاملے میں حد سے زیادہ کنجوس ہیں، البتہ کوئی معمولی سی غلطی کر دے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں.
پاکستان میں کرکٹ اسٹیڈیمز کی حالت بہت خراب تھی، لوگ اسٹیڈیم میچ دیکھنے جاتے تھے اور ایک دوسرے سے پوچھتے ہی رہتے کہ کون بیٹنگ کر رہا ہے، وہ تو بھلا ہو اسکرین اور اسکور بورڈ کا ورنہ کسی کو کچھ پتا ہی نہیں چلتا، جنگلے اتنے بڑے لگے تھے جیسے کسی چڑیا گھر میں آپ شیر کو دیکھنے گئے ہوں اور جنگلہ نہ ہو تو وہ کچا چبا جائے گا.
پی سی بی کے پاس پیسے کی کمی نہیں، اس میں ملازمت کرنے والے بعض لوگ بھی کروڑ پتی بن گئے، زیادہ تنخواہ نہ ہونے کے باوجود کئی نے فارم ہاؤس تک بنوا لیے، دیگر ممالک کے ورک پرمٹ اور وہاں بینک اکاؤنٹس بھی موجود ہیں، جب محسن نقوی چیئرمین بنے تو انھوں نے سب سے پہلے یہی کہا کہ بورڈ کا پیسہ بینک میں نہیں رکھے رہنے دیں گے بلکہ کرکٹ پر خرچ کریں گے.
گو کہ پی سی بی حکومت سے امداد نہیں لیتا لیکن وزارت بین الصوبائی امور کی جانب سے اکثر ٹاپ آفیشلز کو بلوا کر بازپرس کی جاتی تھی کیونکہ ہیڈ لائنز کرکٹ سے ہی بنتی ہیں چھوٹے کھیلوں کو میڈیا اہمیت نہیں دیتا، محسن نقوی نے منسٹری سے بورڈ کا تعلق ختم کیا.
انھوں نے اسٹیڈیمز کی اپ گریڈیشن کا فیصلہ کیا جس پر ابتدائی طورپر 12 ارب سے زائد روپے خرچ ہونے کا اندازہ لگایا گیا، چیمپئنز ٹرافی چند ماہ کے فاصلے پر تھی سب نے یہی کہا کہ یہ فیصلہ غلط ہے بروقت اسٹیڈیمز تیار نہ ہونے پر پورے ایونٹ کو ہی دبئی منتقل کرنا پڑ جائے گا.
بھارتی تو خیر پاکستان کے کسی کام سے خوش نہیں ہوتے اپنے بھی تنقید کے نشتر برساتے رہے کہ یہ کوئی فلائی اوور نہیں جو جلدی بن جائے کرکٹ اسٹیڈیمز بنانے میں برسوں لگ جاتے ہیں، صرف ایک شخص محسن نقوی ہی تھے جو مسکرا کر یہی کہتے کہ ’’ ایونٹ سے پہلے سب کام ہو جائے گا‘‘.
اب قذافی اسٹیڈیم تیار ہونے کے بعد جب نئی شیپ میں آیا تو انھوں نے باؤنڈری کے پار بیٹھ کر پریس کانفرنس کی اور چہرہ کسی فاتح کپتان کی طرح ہی نظر آیا،اب اسٹیڈیم کا ویو بہت بہتر ہو چکا اور شائقین کو میچ زیادہ بہتر نظر آئے گا، نئی لائٹس اور اسکرینز بھی لطف بڑھا دیں گی، قذافی اسٹیڈیم میں خندق بنا دی گئی ہے، کسی منچلے نے میدان میں گھسنے کی کوشش کی تو وہیں گر جائے گا، اب شائقین کو روکنے کیلیے بڑے بڑے جنگلے موجود نہیں ہیں، اس پر محسن نقوی کی تعریف بنتی ہے.
لیکن چونکہ وہ وزیر داخلہ بھی ہیں لہذا سیاسی اختلافات کی وجہ سے بھی لوگ کنجوسی سے کام لیتے ہیں، اگر دیکھا جائے تو نجم سیٹھی کو نواز شریف، احسان مانی اور رمیز راجہ کو عمران خان جبکہ ذکا اشرف کو آصف علی زرداری کی قربت نے چیئرمین بنایا.
پی سی بی میں ایسا ہی ہوتا ہے ارباب اختیار ہی اپنی من پسند شخصیت کو عہدہ سونپتے ہیں،اب بھی ایسا ہی ہوا البتہ یہ حقیقت ہے کہ شاید ہی بورڈ کو اتنا طاقتور اور بااختیار سربراہ ملا ہو، اگر وہ کرکٹ کے معاملات ٹھیک نہیں کر سکے تو شاید کوئی نہیں کر سکے گا، اسٹیڈیمز کی تزئین وآرائش بڑا کام ہے.
اس سے قبل انھوں نے پلیئرز پاور ختم کی، پہلی بار پی سی بی نے بھارتی بورڈ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر برابری کی سطح پر بات کی، ان تمام اقدامات پر تعریف بنتی ہے،البتہ کرکٹ کے معاملات سے انھوں نے خود کو تھوڑا دور رکھتے ہوئے سابق کرکٹرز کو ہی ذمہ داریاں سونپی ہیں.
اس کا بعض لوگ ناجائز فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں، پہلے وہاب ریاض نے ورلڈکپ کے وقت سنگین غلطیاں کیں، اب چیمپئنز ٹرافی سے پہلے عاقب جاوید ایسا ہی کر رہے ہیں، ٹیم سلیکشن پر اعتراضات غلط نہیں ہیں، نقوی صاحب سابق کھلاڑیوں کے مشوروں پر زیادہ عمل نہ کیا کریں،12 ہزار ڈالر یا 50 لاکھ روپے ماہانہ لینے والے کا دماغ خراب ہوا ہے کہ وہ کوئی ایسی بات کرے جو آپ کو پسند نہ آئے.
ویسے بھی پاکستان میں سابق کرکٹرز صرف اس وقت تک سچ بولتے ہیں جب تک انھیں بورڈ میں نوکری نہ مل جائے، اس کے بعد ان کی سوچ میں تھری سکسٹی ڈگری تبدیلی آ جاتی ہے، صرف چند ہی ایسا نہیں کرتے.
نقوی صاحب کو وسیم اکرم جیسے سابق اسٹارز سے مشورے لینے چاہیئں جو کبھی ملازمت نہیں مانگیں گے، ان کی اپنی ٹیم میں عامر میر اور رفیع اللہ جیسے باصلاحیت افراد موجود ہیں.
اسی طرح کرکٹرز بھی ایسے ہی لائیں، میدان سے باہر تو پی سی بی اپنا کام بہتر کر رہا ہے لیکن فیلڈ میں کھلاڑیوں کو کھیلنا پڑتا ہے،ان کی کارکردگی میں تسلسل نہیں نظر آتا، ویسٹ انڈیز سے ٹیسٹ میں کسی صورت نہیں ہارنا چاہیے تھا.
چیمپئنز ٹرافی ہوم گراؤنڈ پر ہو رہی ہے اس میں اچھی کارکردگی ضروری ہوگی، نقوی صاحب مکمل اختیارات عاقب جاوید وغیرہ کو نہ سونپیں ان سے خصوصا سلیکشن پر سوالات کریں، اگر ٹیم ہوم گراؤنڈ پر چیمپئنز ٹرافی جیت گئی تو چیئرمین کو بھی لوگ برسوں یاد رکھیں گے کہ محسن نقوی پاکستان کرکٹ کے محسن ثابت ہوئے انھوں نے نہ صرف اسٹیڈیمز بنائے بلکہ ٹیم کو بھی چیمپئن بنوانے میں اہم کردار ادا کیا، اس وقت مخالفین بھی تعریف پر مجبور ہو جائیں گے،ابھی وقت ہے ایسا کر کے تو دیکھیں نقوی صاحب۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)