اسلام آباد ہائیکورٹ میں تین نئے ججز کے آنے کے بعد انتظامی طور مزید بڑی تبدیلیاں
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
اسلام آباد ہائیکورٹ میں تین نئے ججز کے آنے کے بعد انتظامی طور مزید بڑی تبدیلیاں WhatsAppFacebookTwitter 0 4 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز)اسلام آباد ہائیکورٹ میں تین نئے ججز کے آنے کے بعد انتظامی طور مزید بڑی تبدیلیاں، جسٹس محسن اختر کیانی کو ہٹا کر جسٹس سرفراز ڈوگر اے ٹی سی اور احتساب عدالتوں کے انتظامی جج تعینات کر دیا گیا،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی جگہ جسٹس اعظم خان کو ڈسٹرکٹ کورٹس ویسٹ کا انتظامی جج تعینات کیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ،3 نئے ججز کے آنے کے بعد انتظامی طور مزید بڑی تبدیلیاں جسٹس محسن اختر کیانی کو ہٹا کر جسٹس سرفراز ڈوگر اے ٹی سی اور احتساب عدالتوں کے انتظامی جج تعینات جسٹس محسن اختر کیانی اس سے قبل اے ٹی سی احتساب عدالتوں کے انتظامی جج تھےجسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی جگہ جسٹس اعظم خان کو ڈسٹرکٹ کورٹس ویسٹ کا انتظامی جج تعینات کر دیا گیا
چیف جسٹس عامر فاروق کی منظوری سے آفس آرڈر جاریجسٹس ارباب محمد طاہر ایف آئی اے کورٹس کے انتظامی جج تعینات ، آفس آرڈرجسٹس ثمن رفعت امتیاز بنکنگ کورٹس کی انتظامی جج تعینات کردیا گیا۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائیکورٹ انتظامی جج تعینات کے انتظامی جج
پڑھیں:
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے آئینی اختیار میں رہ کر کام کیا، سپریم کورٹ
اسلام آباد:سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ ایگزیکٹو ایجنسیوں کی مداخلت کے خلاف عدالتی افسر کی کسی بھی شکایت کے جواب میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی طرف سے کوئی بھی کارروائی نہ کرنا آئین کے آرٹیکل 203 کے تحت اس کی آئینی ذمہ داریوں کے منافی ہوگا۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پہلے تو آرٹیکل 203 کے تحت انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سمیت ماتحت عدالتوں کی کارروائیوں کی نگرانی کے لیے اپنے آئینی اختیار میں رہ کر کام کیا ۔
مزید پڑھیں: 9 مئی مقدمات، چیف جسٹس فریقین میں توازن کیلیے پرعزم
دوسرا ایڈمنسٹریٹو جج کی جانب سے پریذائیڈنگ جج کے خلاف ریفرنس ناکافی بنیادوں پر خارج کرنے کی روشنی میں چیف جسٹس نے تبادلے کی درخواست پر مزید کارروائی نہ کرنے میں مکمل جواز پیش کیا کیونکہ اس درخواست میں میرٹ کا فقدان تھا اور وہ صرف ایک ایسے حوالے پر مبنی تھی جس میں ثبوت کی کمی تھی۔
چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی طرف سے تحریر کردہ 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ پنجاب پراسیکشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست کی گئی۔
ریاست کی جانب سے انسداد دہشتگردی کی عدالت کے ایک پریذائیڈنگ جج کے دوسرے سے تبادلے کی درخواست کی سماعت میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے جج کیخلاف ریفرنس پر حکومت کو پیغام دینا تھا دے دیا، چیف جسٹس
ہم اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہیں کہ کسی صوبے میں ہائی کورٹ کا چیف جسٹس اس صوبے کے اندر عدلیہ کی سربراہ ہوتا ہے۔ لہٰذا عدالتی افسر کی ایسی کسی شکایت کے جواب میں چیف جسٹس کی جانب سے کوئی بھی کارروائی نہ کرنا آئین کے آرٹیکل 203 کے تحت اس کی آئینی ذمہ داریوں کے منافی ہو گا۔
ریاست کی نمائندگی کرنے والے سپیشل پراسیکیوٹر کا بنیادی زور یہ تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے پیرا 8 اور 9 میں درج نتائج نہ صرف غیر ضروری تھے بلکہ چیف جسٹس کے اختیار کے مینڈیٹ سے بھی باہر تھے۔
واضح رہے لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے اے ٹی سی ججز کے معاملات میں ایگزیکٹو ایجنسیوں کی مداخلت کے خلاف موقف اختیار کیا تھا۔ انہوں نے اے ٹی سی جج راولپنڈی کے تبادلے کی پنجاب حکومت کی درخواست پر سخت استثنیٰ لیا تھا۔