پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل ہونے کے امکانات کیسے بڑھ گئے؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
ملکی معیشت پر بڑا بوجھ بننے والی قومی ایئرلائن پی آئی اے کی نجکاری کی باتیں 2014 سے کی جا رہی ہیں تاہم یہ عمل اب تک مکمل نہیں ہوسکا ہے، حکومت نے جلد نجکاری کے لیے پی آئی اے قرض کا بوجھ کم کرنے کے لیے 80 فیصد سے زائد قرض ایک دوسری کمپنی کو منتقل کرتے ہوئے پی آئی اے سی ایل کے نام سے ایک الگ کمپنی تشکیل دی جس پر قرض کا بوجھ کم رہ گیا۔
گزشتہ سال 31 اکتوبر کو ایک مرتبہ پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بولی کا بھی انعقاد کیا گیا تاہم خریداری میں دلچسپی لینے والی صرف ایک کمپنی نے اس میں حصہ لیا اور وہ بھی صرف 10 ارب روپے کی بولی لگائی۔
یہ بھی پڑھیں:پی آئی اے کی نجکاری: بلیو ورلڈ سٹی کی 10ارب روپے کی بولی مسترد
نجکاری کمیشن نے چونکہ پی آئی اے کی ریزرو قیمت 85 ارب 3 کروڑ روپے رکھی تھی اس لیے بلیو ورلڈ کنسورشیم کی 10 ارب روپے کی بولی مسترد کر دی گئی اور اب تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل نہیں ہو سکا ہے۔
وفاقی وزیر نجکاری عبد العلیم خان کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری مکمل نہ ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں جس میں سرفہرست نجکاری کے لیے ایف بی آر کی جانب سے درکار تعاون کا نہ ملنا تھا۔
مزید پڑھیں:نواز شریف 50 سال سے سیاست میں ہیں انہیں پی آئی اے نجکاری کی بنیادی بات سمجھ نہیں آرہی، فواد چوہدری
وزیر نجکاری علیم خان نے بتایا تھا کہ طیاروں کی لیز پر 18 فیصد جی ایس ٹی نہ لینے کا ایف بی آر سے مطالبہ بھی کیا گیا تھا تاہم ایف بی آر نے بالکل لچک نہیں دکھائی۔
رواں سال کے آغاز سے پی آئی اے کو ایک بڑی کامیابی حاصل ہوئی اور یورپی روٹس کی بحالی کے بعد پی آئی اے کی یورپ کے لیے پہلی پرواز 10 جنوری کو پیرس پہنچ گئی۔
اس کے علاوہ برطانیہ کے محکمہ ٹرانسپورٹ اور پاکستانی سول ایوی ایشن کے حکام 6 فروری تک پی آئی اے سمیت پاکستان کی بین الاقوامی ایئرلائنز کی جانب سے پروازوں کی بحالی کے لیے کیے گئے اقدامات کا آڈٹ کرے گی۔
مزید پڑھیں:پی آئی اے کو چلانا نہیں بیچنا میری ذمہ داری، لیکن اونے پونے فروخت نہیں کرسکتے، وزیر نجکاری عبدالعلیم خان
امکان ظاہرکیا جارہا ہے کہ اب برطانوی روٹ بھی بحال ہوجائے گا اور یہ روٹ پاکستان کے لیے زرمبادلہ کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتا ہے، لندن، برمنگھم اور مانچسٹر جیسے روٹس پر پاکستان کے پاس ایک ہفتے میں 3 پروازیں ہوا کرتی تھیں۔
روٹس کی بحالی کے علاوہ اب پی آئی اے اور دیگر ایئرلائنز کو نئے فلیٹس کی خریداری کے لیے سیلز ٹیکس میں چھوٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، سیکریٹری نجکاری کمیشن نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ ہوائی جہازوں کے نئے فلیٹس کی خریداری کے لیے تمام ایئرلائنز کو 60 سے 70 ارب روپے تک ٹیکس چھوٹ حاصل ہو گی۔
مزید پڑھیں:پی آئی اے کی نجکاری نہ ہونے کی صورت میں ملک کو مزید کتنا نقصان ہوگا؟
پی آئی اے کو بھی 15 سے 20 فلیٹس خریدنا ہوں گے، نجکاری کے لیے پی آئی اے کی منفی ایکیویٹی بھی ختم کر دی گئی ہے، 16 ہزار پینشنرز کے واجبات بھی حکومت ادا کرے گی، پی آئی اے نے اب 26 ارب ایف بی آر جبکہ 10 ارب روپے سول ایوی ایشن کو ادا کرنا ہیں۔
سیکرٹری نجکاری کمیشن نے بتایا کہ پی آئی اے کی نجکاری اب بھی حکومت کی اولین ترجیح ہے، نجکاری میں دلچسپی کا اظہار کرنے والوں کے لیے ایکسپریشن آف انٹرسٹ رواں ماہ ہی جاری کیا جائے گا، پی آئی اے کی نجکاری میں اس وقت اتحاد اور قطر ایئرلائنز دلچسپی نہیں رکھتی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بولی پی آئی اے نجکاری.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بولی پی ا ئی اے نجکاری پی آئی اے کی نجکاری ئی اے کی نجکاری نجکاری کے لیے پی ا ئی اے ارب روپے ایف بی
پڑھیں:
ایک جرم فوجی کرے اور وہی جرم عام آدمی کرے تو ٹرائل الگ جگہ کیسے ہوسکتا ہے؟. جسٹس امین الدین خان
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔04 فروری ۔2025 )سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت میں ریمارکس دیے ہیں کہ قانون کو اس کے غلط استعمال پر کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا اگر ایک جرم فوجی کرے اور وہی جرم عام آدمی کرے تو ٹرائل الگ جگہ کیسے ہوسکتا ہے؟سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متلعق انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی.(جاری ہے)
دوران سماعت سزا یافتہ ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایف بی علی کیس میں انیس سو باسٹھ کے آئین کے مطابق فیصلہ ہوا جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا آرمی ایکٹ کے مطابق فوجی عدالتوں کے کیا اختیارات ہیں؟ کوئی شخص جو فوج کا حصہ نہ ہو، صرف جرم کی بنیاد پر فوجی عدالت کے زمرے میں آسکتا ہے؟ سلمان اکرم راجہ نے موقف اپنایا کہ ایف بی علی کیس میں بھی کہا گیا ہے کہ سویلنز کا ٹرائل بنیادی حقوق پورے کرنے کی بنیاد پر ہی ممکن ہے. جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا ایف بی علی خود بھی ایک سویلین ہی تھے ان کا کورٹ مارشل کیسے ہوا؟ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ عدالت نے قرار دیا تھا کہ بنیادی حقوق کی فراہمی ضروری ہے ٹرائل میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی ایف بی علی کیس میں آرمی ایکٹ کی شق ٹو ڈی ون پر بات ہوئی ایف بی علی کیس میں کہا گیا صدارتی آرڈیننس کے ذریعے لایا گیا آرمی ایکٹ درست ہے یہ بھی کہا گیاکہ بنیادی حقوق کے تحت نظرثانی کی جاسکتی ہے. جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ ایف بی علی کیس میں نیکسز کی کیا تعریف کی گئی؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا آرمڈ فورسز کو اکسانا اور جرم کا تعلق ڈیفنس آف پاکستان سے ہونے کو نیکسز کہا گیا ہے یہاں ایف بی علی کیس کو ایسے پڑھا گیا جس سے الگ عدالت قائم کرنے کی اجازت دینے کا تاثر قائم ہوا. اس موقع پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ آپ مرکزی فیصلے کے خلاف دلائل دے رہے ہیں، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جسٹس عائشہ ملک کا بھی فیصلہ موجود ہے جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا آرمی ایکٹ کی شقوں کو کالعدم کیوں قرار دیا گیا؟سلمان اکرم راجہ نے موقف اپنایا اپیل ڈگری کے خلاف دائر کی جاتی ہے وجوہات کے خلاف اپیل دائر نہیں ہوتی عدالت آپریٹو پارٹ برقرار رکھتے ہوئے وجوہات تبدیل کر سکتی ہے عدالت ایسا آئے روز کرتی رہتی ہے جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ 1968 میں آرڈیننس آیا آرڈیننس کے تحت بلوچستان کے تحصیلدار کو عدالت کے اختیارات دیے گئے عزیز اللہ میمن کیس میں معاملہ چیلنج ہوا تو عدالت عظمیٰ نے اسے ختم کیا1973 کے آئین کے بعد بھی 14 سال تک سلسلہ چلتا رہا. سلمان اکرم راجہ نے موقف اختیار کیا 1987 میں جب آرٹیکل 175 کی شق 3 آئی تو قانون بدل گیا اگر عدالت جسٹس عائشہ ملک کا آرٹیکل 10 اے کا فیصلہ برقرار رکھتی ہے تو ہماری جیت ہے اگر یہ کہا جاتا ہے کہ آرٹیکل 175 کی شق 3 سے باہر عدالت قائم نہیں ہو سکتی تب بھی ہماری جیت ہے عجیب بات ہے بریگیڈیئر ریٹائرڈ ایف بی علی کو ضیاالحق نے ملٹری عدالت سے سزا دی پھر وہی ضیاالحق جب آرمی چیف بنے تو ایف بی علی کی سزا ختم کردی. جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے ہو سکتا ہے ضیاالحق نے بعد سوچا ہو پہلے وہ غلط تھا جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ کہیں ایسا تو نہیں ضیاالحق نے بعد میں ایف بی علی سے معافی مانگی ہو کیا 1962 کا آئین درست تھا؟ سلمان اکرم راجہ نے موقف اپنایا کہ 1962 کا آئین تو شروع ہی یہاں سے ہوتا ہے کہ میں فیلڈ مارشل ایوب خان خود کو اختیارات سونپ رہا ہوں اس دور میں آرٹیکل چھپوائے گئے، فتوے دیے گئے کہ اسلام میں بنیادی حقوق نہیں ہیں. جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ فتوے دینے والے وہیں رہتے ہیں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں ہمارے آرمی ایکٹ جیسی سیکشن ٹو ڈی کیا دنیا میں کہیں ہے؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں نے بہت تحقیق کی ایسی کوئی سیکشن دنیا میں نہیں ہمارا آئین کا آرٹیکل 175(3) آزاد ٹرائل کو یقینی بناتا ہے بھارت میں ہمارے آئین کے آرٹیکل 175(3) جیسی کوئی چیز شامل نہیں بھارت میں اس کے باجود محض اصول کی بنیاد پر عدالتوں نے ٹرائل کی آزادی کو یقینی بنایا ہے ہمارا تو آرٹیکل 175(3) آزاد ٹرائل کا مکمل مینڈیٹ دیتا ہے آزاد ٹرائل کسی آزاد ٹریبونل میں ہی ممکن ہے فوجی عدالتوں میں نہیں. جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب سویلین آرمڈ پرسنل کو اکسانے کی کوشش کرے کیا آرٹیکل 10اے صرف سویلین کی حد تک ہے یا اسکا اطلاق ملٹری پرسنل پر بھی ہوتا ہے؟جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ آپ صرف اپنے کیس تک محدود رہیں ہم باقی سوالات کسی اور کیس میں جب آئے گا تو دیکھ لیں گے سلمان اکرم راجہ نے موقف اپنایا آرٹیکل 175(3)کا فائدہ سویلین اور آرمڈ فورسز دونوں کو دینا ہوگا. جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ بعض اوقات ملک دشمن ایجنسیاں سویلین کو استعمال کرتی ہیں آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی ون اور ٹو ون ڈی ٹو کو کالعدم قرار دیا گیا ہے ایسے میں تو ملک دشمن ایجنسیوں کے لیے کام کرنے والوں کا بھی ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکے گا سلمان اکرم راجہ نے موقف اپنایا کہ میں بھارتی آرمی ایکٹ اور پاکستان کے آرمی ایکٹ کا تقابلی جائزہ پیش کرنا چاہتا ہوں ایسا نہیں ہو سکتا ایک ایس ایچ او خود عدالت لگا لے اپیل ایس پی سنے اور توثیق آئی جی کرے بھارت میں ملٹری ٹرائل کے خلاف اپیل ٹربیونل میں جاتی ہے ٹربیونل اپیل میں ضمانت بھی دے سکتا ہے شفاف ٹرائل کا حق ہوتا ہے. جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کیا بھارت کے آرمی ایکٹ میں ون ڈی ون اور ٹو ون ڈی ٹو ہے؟ سلمان اکرم راجہ نے موقف اپنایا کہ یہ شقیں بھارت میں نہیں ہیں جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ شقیں ہی نہیں ہیں تو آپ تقابلی جائزہ کیسے لے سکتے ہیں؟ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہمارا قانون الگ ہے بھارت کا قانون الگ ہے جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ سویلین اور ملٹری پرسنلز دونوں پاکستان کے شہری ہیں سلمان اکرم راجہ نے موقف اپنایا کہا جاتا ہے آرمی ایکٹ میں سویلین سے متعلق دفعات دہشت گردوں کے لیے ہیں دراصل یہ دفعات حکومت اپنے مخالفین پر لگا رہی ہے مجھ پر بھی ایف آئی آر ہے کہ 26 نومبر کو 3 رینجر اہلکاروں کو قتل کیا الزام لگایا گیا ہے کہ میں نے ہی قتل کا منصوبہ بنایا تھا. سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مجھے کہا جا رہا ہے عدالتوں میں اور ٹی وی پر بولنابند کر دو مجھے کہا جا رہا ہے کہ تمہیں رینجر اہلکاروں کے قتل پر ملٹری کورٹس لے جائیں گے ہو سکتا ہے مجھے 7 فروری کو اسی کیس میں گرفتار کر لیا جائے عدالت ان دفعات کو بحال کرتی ہے تو ان کا ایسا ہی استعمال ہو گا جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کیا دہشت گردی جیسے سنگین جرم پر بھی کسی کا فوجی عدالت میں ٹرائل ہوسکتا ہے؟ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل کسی صورت ممکن نہیں. جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ قانون کو اس کے غلط استعمال پر کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا توہین رسالت قانون کا غلط استعمال شروع ہوگیا تھا غلط استعمال روکنے کے لیے ایس پی لیول کے افسر کو تفتیش سونپی گئی اگر ایک جرم فوجی کرے اور وہی جرم عام آدمی کرے تو ٹرائل الگ جگہ کیسے ہوسکتا ہے؟سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جن لوگوں نے فوج جوائن کرکے بنیادی حقوق سرنڈر کیے ان کو دوسروں سے نہیں ملایا جا سکتا مجھ پر الزام ہے کہ کسی کو بھیج کر رینجرز کو گاڑی کے نیچے کچلنے کا حکم دیا الزام کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو ٹرائل آزاد فورم پر ہی ہو سکتا ہے. انہوں نے کہاکہ میرے موکل ارزم کو فوجی عدالت سے 6 سال قید کی سزا دی گئی میرا موکل لاہور کا فرسٹ کلاس کرکٹر ہے فوجی تحویل میں میرے موکل کےساتھ غیرانسانی سلوک کیا گیا تفصیلات کھلی عدالت میں بتائیں تو لگے گا ڈراماٹائز کر رہا ہوں سلمان اکرم راجہ فوجی عدالت میں اپیل آرمی چیف کے پاس جاتی ہے جس کے حکم پر ہی کورٹ مارشل کیا جاتا ہے سیشن جج کے حکم پر تو فوجی عدالت میں وکالت نامہ دستخط کروایا گیا بعدازاں، عدالت نے ملٹری کورٹس کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی سلمان اکرم راجہ پیر کے روز بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے.