Daily Ausaf:
2025-02-04@10:48:28 GMT

پرویزمشرف سے ڈونلڈ ٹرمپ تک!

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

تحریکِ انصاف جس بے تابی کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آئی تھی، اُسی شتابی کے ساتھ رُخصت ہوگئی۔ 23 دسمبر کو شروع ہونے والا سلسلۂِ مذاکرات، تین نشتوں کے بعد 23 جنوری کو ختم ہوگیا۔ کبھی کرکٹ کے ایک بے ہُنر کھلاڑی کے بارے میں لطیفہ نما سی حکایت سُنا کرتے تھے۔ وہ اپنی باری آنے پر بلّا اٹھائے میدان میں اُترنے لگتا تو سُلگتا ہوا سگریٹ منہ سے نکال کر کسی دوسرے کھلاڑی کو تھماتے ہوئے کہتا ’’ذرا پکڑ، میں ابھی آیا۔‘‘ بالعموم وہ پہلی یا دوسری گینڈ پر آئوٹ ہوکر پویلین کو لوٹتا اور دوست سے اپنا اَدھ جَلا سگریٹ واپس لے کر کش لگانے لگتا۔ پی۔ٹی۔آئی کا بھی پارلیمنٹ کے ’’کانسٹی ٹیوشن روم‘‘ میں مذاکرات کی میز پر آنے اور جانے کا عالم کچھ ایسا ہی تھا۔
بلاشبہ پی۔ٹی۔آئی کے لئے برسوں پر محیط اپنے بیانیے سے انحراف کرتے ہوئے ’’چوروں، ڈاکوئوں، لٹیروں اور ناپاک‘‘ لوگوں سے ہاتھ ملانا اور سلام دُعا کرنا کوئی آسان مرحلہ نہ تھا۔ وہ یہ کڑوا گھونٹ پینے پہ کیوں مجبور ہوئی؟ عمران خان نے دِل پر بھاری پتھر رکھ کر کوچۂِ رقیب میں سَر کے بل جانے کا فیصلہ کیوں کیا؟ یہ بات کوئی معمّہ نہیں رہی۔ مارچ 2022ء میں امریکی سائفر لہرانے سے، نومبر2024ء میں اسلام آباد پر لشکر کشی کی’’ فائنل کال‘‘ تک، پونے تین برس پر محیط بے سمت مہم جُوئی کا نتیجہ صرف یہ نکلا کہ پی۔ٹی۔آئی مشکلات کی دلدل میں دھنستی چلی گئی اور اُسے درپیش مسائل کا جنگل گھنا ہوتا گیا۔
’’فائنل کال‘‘ کی شرمناک ہزیمت کے بعد، بے حکمتی، بے تدبیری اور بے ہنری کی بے ثمری سے جنم لیتی اعصاب زَدگی کے کسی اذیت ناک لمحے میں عمران خان نے اڈیالہ جیل سے حکم جاری کیاکہ ’’جائو، حکومت سے مذاکرات کرکے کوئی دروازہ کھولنے کی کوشش کرو۔‘‘ زبان وبیان کے ہُنر میں طاق پی۔ٹی۔آئی راہنمائوں میں سے کسی نے نہ کہا کہ ’’سَر! اِس سے ساتھ تو ہمارا چوتھائی صدی پر محیط بیانیہ فنا ہوجائے گا۔ ہم کہیں کے نہ رہیں گے۔‘‘دست بستہ مریدانِ خاص نے لب بَستگی شعار کی اور گردنیں جھکا دیں۔ اڈیالہ جیل سے جاری اعلان کے مطابق ایک مذاکراتی کمیٹی تشکیل پاگئی۔ کمیٹی نے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے پے درپے رابطے کئے۔ سپیکر نے وزیراعظم سے بات کی۔ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں پر مشتمل 10 رُکنی کمیٹی تشکیل پا گئی۔ پی۔ ٹی۔ آئی نے صرف صاحبزادہ حامد رضا اور علامہ ناصر عباس کو اپنی کمیٹی کی زینت بنایا ۔اپوزیشن کی دیگر تمام چھوٹی بڑی جماعتوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ یہ وہی جماعتیں ہیں ، پی۔ٹی۔آئی جن کی دہلیز پر کھڑی ’’کوئی ہے؟‘‘ کی آوازیں لگا رہی ہے۔ مذاکرات کی پہلی نشست 23 دسمبر کو ہوئی جس میں طے پایا کہ پی۔ ٹی۔ آئی اپنے تحریری مطالبات اگلی نشست میں پیش کر دے گی۔2 جنوری کو ہونے والی دوسری نشست میں یہ وعدہ وفا نہ ہوا۔ 16 جنوری کو، تیسری نشست میں(آغازِ مذاکرات سے 24 دن بعد) فردِ مطالبات حکومتی کمیٹی کے سامنے رکھی گئی۔ طے پایا کہ سات ایّامِ کار (Seven Working Days) میں ’’چارٹر آف ڈیمانڈز ‘‘کا باضابطہ تحریری جواب دیا جائے گا۔ حکومتی کمیٹی نے سنجیدگی سے کام شروع کیا۔ تین اجلاس کیے۔ وکلاء سے مشاورت کی ۔ اپنے موقف کے خد و خال تراشے۔ ’سات ایام کار‘ میں ابھی پانچ دن باقی تھے کہ 23 جنوری کو اڈیالہ جیل کے پھاٹک سے باہر آتے ہوئے قائم مقام چیئرمین پی۔ ٹی۔ آئی بیرسٹر علی گوہر نے فرمانِ امروز جاری کردیا کہ ’’بانی نے مذاکرات کا سلسلہ ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔آج سے مذاکرات ختم۔‘‘
کسی مجبوری کے سبب مذاکراتی میز پر آ بیٹھنے کے باوجود عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک جاری رکھی ۔اُن کی بہن علیمہ خان تواتر کے ساتھ یہ پیغام دہراتی اور سمندر پار پاکستانیوں کو اپنی رقوم پاکستان نہ بھیجنے پر اُکساتی رہیں۔ عمران خان کا’ ایکس ‘اکاؤنٹ بدستور بارود پاشی کرتا رہا۔ ایک ٹویٹ میں وزیراعظم کو منہ بھر کے گالی دی۔اکتیس روزہ مذاکرات کے دوران میں نا تراشیدہ ، اَن گڑھ اور زہر ناک ٹویٹس کا سلسلہ مسلسل جاری رہا۔ حکومتی کمیٹی ایک بار بھی کوئی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائی ۔صرف اس لیے کہ کوئی بات پی۔ ٹی۔ آئی کی نازک مزاجی پر گراں نہ گزرے اور اس جمہوری مشق کو کوئی نقصان نہ پہنچے لیکن پی۔ ٹی۔ آئی پادَرر کاب ہی رہی۔ جسے پنجابی میں ’’پبّاں بھار‘‘ کہتے ہیں۔ سو بانی کا حکم آتے ہی اِس برق رفتاری کے ساتھ مذاکراتی کمرے سے نکلی جیسے اُس کا دم گھٹنے لگا ہو۔ اب جب کہ’’ سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے ،‘‘ کوئی کمیٹی رہے نہ رہے، کھیل ختم ہو چکا ہے۔ پی۔ ٹی۔ آئی مکالمے ،مباحثے، مذاکرے اور افہام و تفہیم کے بازیچۂِ بے آب ورنگ سے الجہاد ،الجہاد، مارو یا مر جاؤ، آتشیں اسلحہ ،غلیلوں ، کیلوں والے ڈنڈوں اور پٹرول بموں والے’’ ہوم گراؤنڈ‘‘ کی طرف واپس جا رہی ہے۔’ پانی پت‘ کے تمام معرکوں میں ناکام رہنے والے علی امین گنڈاپور سے ’’عَلَمِ جہاد‘‘ چھین کر جنید اکبر کے حوالے کر دیا گیا ہے جنہوں نے ’’ہومیوپیتھک ‘‘حکمت کار کو مسترد کرتے ہوئے ’’ہر چہ بادا باد‘‘ کے جنگی منشور کا اعلان کر دیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اکتیس روزہ مذاکراتی وقفہ صرف نئی صف بندی کے لیے تھا یعنی ’’آگے چلیں گے دَم لے کر ۔‘‘
پی۔ ٹی۔ آئی دو خصوصیات کے حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ پہلی خصوصیت یہ کہ وہ دنیا بھر کی روایتی سیاسی جماعتوں کے برعکس مذاکرات ،مکالمے اور سنجیدہ گفتاری کے لیے بنی ہی نہیں۔ بحث و تمحیص، افہام و تفہیم اور جمہوری اقدار و روایات جیسے اجزائے ترکیبی سرے سے اُس کے مادۂِ تولید اور جوہر تخلیق (GENES/DNA) میں ہیں ہی نہیں۔ وہ پارلیمنٹ میں بیٹھتی ہے تو بھی یوں جیسے انگاروں پر لوٹ رہی ہو۔ لگی بندھی مذاکراتی کمرے میں آتی ہے تو اِس قدر ہراساں جیسے کسی عقوبت خانے میں دھکیل دی گئی ہو۔ ہنگامہ وپیکار اور فتنہ وفساد اُس کا خصوصی ہُنر ہے۔ وہ اسی جو لاں گاہ میں آسودہ رہتی ہے چاہے نتائج کچھ بھی ہوں۔
پی۔ ٹی۔ آئی کی دوسری منفرد خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے’’ نظریے‘‘ یا’’ عوامی مقبولیت‘‘ کے بجائے تکمیلِ آرزو کے لئے ہمیشہ کسی مقتدر شخصیت کی طرف دیکھتی اور اُس کے دست ِشفقت کی محتاج رہتی ہے۔ یہ کہانی 26 برس قبل پرویز مشرف سے شروع ہوئی ۔شجا ع پاشا،ظہیر الاسلام، فیض حمید، قمر جاوید باجوہ، آصف سعید کھوسہ اور ثاقب نثار سے ہوتی ہوئی عمر عطا بندیال پہ آ ٹھہری۔ وردی اُتر جانے کے باوجود فیض حمید کا فیضان جاری رہا یہاں تک کہ وہ خود اپنے کارہائے نمایاں کے آہنی جال میں پھنس گئے۔ پھر اپنے پیروکاروں اور خود اپنے لیے یہ سراب تخلیق کیا گیا کہ جلد جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس بننے جا رہے ہیں۔ اُس کے فوراً بعد یہ’’ جعلی نظام‘‘ تحلیل ہو جائے گا اور عمران خان اڈیالہ جیل سے براہ راست وزیراعظم ہاؤس آ بیٹھیں گے۔ ایسا نہ ہوا۔ پبلک ریلیشننگ کی کمپنی چلانے والے ایک بے سروپا امریکی اہلکار، رچرڈ گرینل نے جانے کس ترنگ میں ا ٓکر دو تین ٹویٹ کیے تو پی۔ ٹی۔ آئی کا چہرہ نئی نویلی دلہن کی طرح دمکنے لگا۔ وہ آس تو ٹوٹ گئی لیکن طاقِ آرزو میں آج بھی ’ڈونلڈ ٹرمپ‘ نامی ایک چراغ ٹمٹا رہا ہے۔
مشرف سے ٹرمپ تک، ہمیشہ کسی ایمپائر کی اُنگلی کی متلاشی پی۔ ٹی۔ آئی پر کسی بیوہ جیسی بے سروسامانی کا ایسا بے برگ و بار موسم اُس کی چھبیس سالہ زندگی میں کبھی نہ آیا تھا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اڈیالہ جیل پی ٹی ا ئی جنوری کو کے ساتھ

پڑھیں:

پی ٹی آئی مذاکرات کا مقصد بانی کی رہائی، پیکا ایکٹ میں ترمیم ہو سکتی ہے: عرفان صدیقی 

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) حکومتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کا مذاکرات کرنے کا مقصد دراصل عمران خان کی رہائی ہے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے مذاکرات کے دوران اپنے اسیر رہنماؤں کا نام لے کر ان کی رہائی کے لیے حکومت کو سہولت کاری کرنے کا کہا تھا۔ پی ٹی آئی نے مذاکرات کے دوران شاہ محمود قریشی، یاسمین راشد، اعجاز چوہدری، محمود رشید، سرفراز چیمہ کا نام لیا۔ ان کے نام لے کر بولا کہ ان کو رہا ہونا چاہیے اور یہ ان کی ڈیمانڈز کے اندر بھی کہیں نہ کہیں شامل ہے۔ انہوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ وزیراعظم کو کوئی ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ان کو رہا کر دیں لیکن وہ یہی کہتے تھے کہ سہولت دیں، عدالتی عمل کے ذریعے یا پھر کسی بھی طریقے سے ممکن ہو۔ دونوں کمیٹیاں سپیکر قومی اسمبلی نے نہیں بنائیں، حکومتی کمیٹی وزیراعظم شہباز شریف اور اپوزیشن کمیٹی بانی چیئرمین عمران خان نے بنائی، وہ ایک سہولت کار کا کردار ضرور ادا کر رہے ہیں۔ حکومت نے متنازع پیکا ایکٹ میں ترمیم کرنے کا عندیہ دے دیا۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے مسلم لیگ  ن کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ آئین میں 26 ویں ترمیم ہو سکتی ہے تو پیکا ایکٹ بھی کوئی آسمانی صحیفہ نہیں۔ پیکا ترمیمی بل کی درستی کیلئے ترمیم کرنے کو تیار ہیں، وزیراعظم سے اس حوالے سے بات کی ہے درست کرنے کی کوشش کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • ڈونلڈ ٹرمپ کا جنوبی افریقا کو امداد بند کرنے کا اعلان
  • امریکا اور میکسیکو کے درمیان محصولات میں ایک ماہ کی توسیع کا معاہدہ طے پا گیا
  • اس حکومت سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں یہ بے اختیار ہے، عمر ایوب
  • ٹرمپ انتظامیہ کا نیویارک ٹائمز سمیت 4 میڈیا اداروں کو پینٹاگون سے اپنے دفاتر خالی کرنے کا حکم
  • پی ٹی آئی مذاکرات کا مقصد بانی کی رہائی، پیکا ایکٹ میں ترمیم ہو سکتی ہے: عرفان صدیقی 
  • پی ٹی آئی نے مذاکرات میں لیڈرشپ کی رہائی کے لیے حکومت کو سہولت کاری کرنے کا کہا تھا، عرفان صدیقی
  • پی ٹی آئی کا مذاکرات کرنے کا مقصد عمران خان کی رہائی ہے: عرفان صدیقی
  • عمران خان کی رہائی ،عرفان صدیقی نے بڑے راز سےپردہ اٹھادیا
  • اسپیکر قومی اسمبلی کا مذاکراتی کمیٹی برقرار رکھنے کا فیصلہ