بھارت میں جنونی مذہبی ایجنڈااوراس کا عالمی اثر
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
برطانوی حکومت کی جاری کردہ ایک لیک رپورٹ کاتجزیہ کیاگیاہے،جس میں انتہاپسندی کی بڑھتی ہوئی لہرکے اثرات نے مختلف سیاسی،سماجی اورثقافتی گروپوں کومتاثرکیاہے اور نسوانی دشمنی، ہندو قوم پرستی اور’’مینوسفیر‘‘کوانتہاپسندی کے نئے ذرائع کے طور پر شناخت کیاگیاہے۔یہ رپورٹ گزشتہ موسم گرمامیں ہونے والے فسادات کے بعدتیارکی گئی تھی اوراس میں ان عوامل کاذکر کیاگیاہے جومعاشرتی عدم استحکام اورانتہا پسندی کی طرف لوگوں کومائل کرتے ہیں۔
گزشتہ موسم گرما کے فسادات کے بعد ’’یوویٹ کوپر‘‘کی طرف سے افشا رپورٹ میں ہندو قوم پرستی، بدعنوانی اور ’’مینوسفیئر‘‘کوانتہاپسندی کی افزائش کی بنیادوں کے طورپرشناخت کیاگیاہے۔ ’’یوویٹ کو پر ‘‘ ایک برطانوی سیاست دان ہے۔ لیبرپارٹی کے رکن، کوپر 1997ء سے پونٹیفریکٹ ، کیسل فورڈ اور ناٹنگلی، اس سے قبل نارمنٹن، پونٹیفریکٹ اور کیسل فورڈ کے لئے پارلیمنٹ (ایم پی) کے رکن رہے ہیں اور جولائی 2024ء سے ہوم سیکرٹری کے طورپربھی خدمات انجام دیں ہیں۔ ہوم سیکرٹری کے ’’تیز تجزیاتی اسپرنٹ‘‘نے’’درجہ دوم کی پولیسنگ‘‘کے دعوؤں کو بھی ’’دائیں بازوکے انتہاپسند بیانیہ‘‘کے طورپر مستردکردیاہے۔اس کے استدلال کے مطابق حکام کو بنیادی طورپر’’تشویش کے نظریات‘‘ پر وسائل کو مرکوز کرنے کی بجائے انتہا پسندی پر قابوپانے کے لئے ‘‘ رویے پرمبنی اور نظریاتی طورپر’’حقیقی اپروچ‘‘اپنانی چاہیے۔
دائیں طرف جھکائو رکھنے والے تھنک ٹینک پالیسی ایکسچینج کی طرف سے یہ لیک رپورٹ انتہا پسندی کے بارے میں حکومت کے نقطہ نظرکی گہری جانچ پڑتال کے درمیان سامنے آئی ہے کہ انسداد دہشتگردی کے افسران کویقین نہیں تھاکہ ساتھ پورٹ کے قاتل ایکسل روڈاکوباناکے ’’بنیادپرستی کے خطرے‘‘کا سامنا ہے۔ کو پر نے اگست میں تیزی سے جائزہ لیتے ہوئے پہلی باراس نے 2022ء میں لیسٹر میں بدامنی کے بعدہندوقوم پرست انتہا پسندی،اورہندوتواکوتشویش کے نظریات کے طورپر شناخت کیاتھا۔انہوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’’ہندوقوم پرست انتہاپسندی ایک ایساانتہا پسند نظریہ ہے جوہندوبالادستی کی وکالت کرتا ہے اور ہندوستان کوایک نسلی مذہبی ہندو ریاست میں تبدیل کرناچاہتاہے‘‘۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ہندوتوا ہندوازم سے الگ ایک سیاسی تحریک ہے جو ہندوستانی ہندوں کی بالادستی اور ہندوستان میں یک سنگی’’ہندوراشٹر‘‘یاریاست کے قیام کی وکالت کرتی ہے۔برطانیہ میں ہندواور مسلم کمیونٹیزکے درمیان کشیدگی اب بھی واضح ہے اور لیسٹر کے واقعات یہ ظاہرکرتے ہیں کہ کس طرح غلط معلومات آف لائن کارروائی میں کرداراداکر سکتی ہیں۔یادرہے کہ گارڈین نے پانچ ماہ قبل بھی ایسی ہی رپورٹ شائع کی تھی جس میں انتہاپسندی کی وجوہات اوراس کے پیچھے ایسے ہی عوامل کی نشاندہی کی تھی۔
معاملے کی سنگینی کایہ عالم ہے کہ ایک مرتبہ پھررپورٹ میں انتہاپسندی کے روایتی تصورکوچیلنج کیا گیا ہے۔حکومت کے مطابق،اب انتہاپسندی کوصرف نظریاتی سطح پرنہیں دیکھا جاناچاہیے بلکہ اس کے ساتھ لوگوں کے رویوں اورسرگرمیوں پرتوجہ دی جانی چاہیے۔حکومت کا موقف ہے کہ انتہاپسندی کی روک تھام کیلئے’’آئیڈیالوجی کی بجائے رویے اور سرگرمیوں‘‘کو ہدف بنایا جائے۔ اس سے مرادیہ ہے کہ انتہا پسندی کی تشخیص صرف کسی خاص نظرئیے یاآئیڈیالوجی پرمبنی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان سرگرمیوں کوبھی زیرغورلایاجائے جو عوامی سطح پرنقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں۔
رپورٹ میں نسوانی دشمنی کوانتہاپسندی کے ایک اہم عنصرکے طورپرشناخت کیاگیاہے۔’ ’مینوسفیئر‘‘ ایک آن لائن سب کلچرہے جس میں نسوانی دشمنی پرمبنی موادکی بھرمارہے۔اس سب کلچرمیں مختلف کمیونٹیز شامل ہیں، جیسے کہ مردوں کے حقوق کے کارکن، پِک اپ آرٹسٹس ’’مرد جو اپنے راستے پرچلتے ہیں‘‘اور انسیلز ( غیر اختیاری عزلت پسند)۔یہ تمام گروہ نسوانیت کے خلاف انتہائی نظریات پیش کرتے ہیں اوربعض اوقات دائیں بازوکی انتہا پسند آئیڈیالوجی کوبھی شامل کرتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق،ان گروپوں میں نسلی تفاوت اورعالمی نوعیت کی نظریات کی مخالفت کی جاتی ہے۔’’مینوسفیئر‘‘ میں ایسے بیانیے پائے جاتے ہیں جوافرادکوعزلت میں ڈالنے، معاشرتی تعلقات کے بارے میں منفی رویے اپنانے اور خواتین کے حقوق کے خلاف متشددخیالات کوفروغ دیتے ہیں۔خاص طورپر ’’انسیلز‘‘ کی جانب سے ایک قسم کی معاشرتی تنہائی اورخواتین سے متعلق منفی خیالات کا پرچار کیاجاتا ہے۔
رپورٹ میں ہندوقوم پرستی اورہندوتواکوبھی انتہا پسندی کے خطرات کے طورپر ذکر کیا گیا ہے۔ 2022ء میں لیسٹرکے فسادات کے بعد ہندوقوم پرستی کوایک نیانظریہ قراردیاگیاجوبھارت میں ہندو ریاست کے قیام کی حمایت کرتاہے۔ ہندوتواکی تحریک ایک ایسی سیاسی متشددتحریک ہے جوہندوں کے غلبے اور بھارت میں ایک یکساں ہندو ریاست کے قیام کا پرچار کرتی ہے۔رپورٹ میں واضح طورپر کہاگیا ہے کہ ہندوقوم پرستی کی شدت پسندی برطانیہ میں مسلمانوں کے ساتھ تناکوبڑھارہی ہے اوریہ فرقہ وارانہ تشویش کاباعث بن سکتی ہے۔اس کے علاوہ، رپورٹ میں اس بات کابھی ذکرکیاگیا ہے کہ ’’دائیں بازوکی انتہاپسندبیانیے‘‘کے پیچھے عالمی نوعیت کی تحریکوں جیسے کہ عالمی کاری اور کثیرالثقافتیت کونشانہ بنایاجاتاہے۔
رپورٹ میں حکومتی پالیسی میں تبدیلی کی تجویز دی گئی ہے تاکہ انتہاپسندی کی روک تھام کے لئے زیادہ جامع اورمثرحکمت عملی اپنائی جاسکے۔حکومت کامؤقف ہے کہ انتہاپسندی کی نشاندہی ’’صرف مخصوص آئیڈیالوجیز‘‘پرنہیں بلکہ ’’رویوں‘‘اور ’’عملوں‘‘کی بنیادپرکی جانی چاہیے۔اس سے مرادیہ ہے کہ معاشرتی سطح پرموجودتشویش کے ذرائع کو نظراندازنہ کیا جائے۔رپورٹ میں ایک اوراہم تجویز پیش کی گئی ہے جس کے تحت ’’نیشنل سینٹرآف ایکسیلنس‘‘قائم کرنے کی ضرورت پرزور دیا گیا ہے ، جس کامقصد احتجاج اورکم سطح کی انتہا پسندی کی سرگرمیوں کی نگرانی اوران کاتدارک کرناہوگا۔اس تجویزمیں حکام کو’’احتجاج اورکم سطح کی انتہاپسندی کی تحقیقات کیلئے ایک مرکزی تحقیقاتی مرکز‘‘قائم کرنے کی ضرورت پرزوردیاگیاہے تاکہ مختلف نوعیت کی انتہا پسندی کی سرگرمیوں کو جلدازجلد روکا جاسکے۔
مجموعی طورپر،یہ رپورٹ برطانیہ میں انتہاپسندی کے بڑھتے ہوئے خطرات کی نشاندہی کرتی ہے اوران نئے ذرائع کی جانب توجہ دلاتی ہے جو معاشرتی استحکام کو نقصان پہنچاسکتے ہیں ۔نسوانی دشمنی ،ہندوقوم پرستی اور مینوسفیئرجیسے عوامل برطانیہ کے معاشرتی تانے بانے کومتاثرکررہے ہیں اور انتہاپسندی کے نئے راستے کھول رہے ہیں۔ حکومتی سطح پرپالیسی میں تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ ان مسائل پرمؤثرطریقے سے قابوپایاجاسکے اور معاشرتی ہم آہنگی کوفروغ دیاجاسکے۔دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کادعوی کرنے والے بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہونے والے حملے ایک سنگین مسئلہ بن چکے ہیں۔بی جے پی کی ہندو قوم پرست حکومت کے تحت اقلیتوں کومسلسل دباؤ اورتشددکاسامناہے۔ مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں اور دیگراقلیتوں کونہ صرف سماجی اور اقتصادی سطح پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ان پرمتعددمنظم حملے اب بھی جاری ہیں۔
اس تحقیقی تجزیے میں بھارت میں مذہبی جنونیت اورانتہا پسندی کی تاریخ ایک دردناک حقیقت ہے،جس میں اقلیتی گروپوں کو مسلسل تشدداورمظالم کاسامنا کرنا پڑ رہاہے۔گجرات کے فسادات میں مسلمانوں کے قتل عام،کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی،بابری مسجدکی منہدمی،کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور سکھوں کے خلاف آپریشن بلیواسٹارمیں سکھوں کی نسل کشی جیسے واقعات بھارت کی مذہبی جنونیت کی تاریخ کوعیاں کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: انتہا پسندی کی ہندوقوم پرستی نسوانی دشمنی رپورٹ میں بھارت میں کرتے ہیں کے طورپر کی انتہا پسندی کے کے خلاف گیا ہے ہے اور
پڑھیں:
حادثہ سے بڑا سانحہ
ٹرمپ اور مودی ایک ہی تھیلی کے چٹّے بٹّے ہیں۔ دونوں نے دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب دونوں کوئی نہ کوئی شوشہ نہ چھوڑتے ہوں۔ دونوں کے سروں پر بھوت سوار ہے۔ ٹرمپ پوری دنیا پر امریکا کا سکہ جمانا چاہتا ہے تو ادھر مودی بھی اس سے پیچھے نہیں ہے۔مودی نے بھارت کے وِشو گُرو ہونے کا دعویٰ اور اعلان کیا ہے۔
وشو کے معنی دنیا ہے اور گرو کے معنی ہیں استاد۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب ہے پوری دنیا پر بھارت کی بالادستی۔مودی جس سیاسی جماعت کا سرغنہ ہے، اس کی ذہنیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یہ بھارت کی انتہا پسند جماعتوں ہندو مہا سبھا کی پیداوار ہیں اور ان کا واحد مقصد مسلمانوں اور اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا ہے۔
آئیے! ذرا ماضی کی طرف لوٹتے ہیں۔ 1925 میں بھارت کے شہر ناگپور میں انتہا پسند ہندوؤں کے زہریلے ناگوں کا ایک اہم اجلاس ہوا تھا، جس کی صدارت گُرو گول والکر نے کی تھی۔ اس اجلاس میں ہندوستان کے مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی اورکسی بھی طرح ہندوستان پر اقتدار حاصل کرنا تھا۔اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایسا ممکن ہوسکتا ہے۔
جوں جوں وقت گزرتا رہا انتہا پسند ہندوؤں کے اس گروہ کی سازش پنپتی رہی۔ اس وقت اس کی دو تنظیمیں تھیں، ایک کا نام تھا ہندو مہاسبھا اور دوسری تھی، راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ۔ اس کے بعد اس کی دو شاخیں وجود میں آئیں جو جَن سنگ اور بھارتیہ جنتا پارٹی نامی بی جے پی کہلائیں۔شروع شروع میں بی جے پی کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور بھارت کی سب سے بڑی سیکولر پارٹی انڈین نیشنل کانگریس پارٹی کے آگے اس کا چراغ نہیں جل سکا۔کانگریس وہ سیاسی جماعت تھی جس نے ہندوستان کی آزادی کے حصول کے لیے فرنگی راج کے خلاف جنگ لڑی۔ اس کے سرکردہ رہنما موہن داس کَرم چند گاندھی اور جواہر لال نہرو تھے جو سیکولر مزاج رکھتے تھے، اس لیے سیکولر ازم بھارت کے آئین کی روح ہے۔
بھارت کی آئین ساز کمیٹی کے سربراہ بابا صاحب امبیڈکر ایک ماہر آئین ساز تھے۔ دنیا کے مختلف آئین کا ان کا وسیع مطالعہ تھا لیکن ان کا تعلق اس طبقہ سے تھا جسے اعلیٰ ذات کے ہندو اچھوت کہتے ہیں جن کا مودی اور اُن کے پیروکاروں سے تعلق ہے۔بھارت کے آئین میں اس ملک کا ہر شہری برابر کے حقوق رکھتا ہے جس میں مذہب اور فرقہ کا کوئی بھید بھاؤ نہیں ہے اور سب کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔
مودی اور اس کی جماعت کو مسلمانوں کا وجود بُری طرح کھٹکتا ہے اور اُن کا بس نہیں چلتا کہ انھیں تہہ تیغ کردیا جائے۔ دیگر اقلیتوں کا بھی کم و بیش یہی حال ہے جس میں خالصتان کی تحریک چلانے والے سِکھ بھی شامل ہیں۔ جب سے مودی اور اس کے حواری برسرِ اقتدار آئے ہیں، انھوں نے بھارت کے مسلمانوں کی نسل کُشی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ مسلمانوں کی املاک کو بُلڈوز کیا جا رہا ہے اور ان کی معیشت کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ مختلف حیلوں بہانوں سے ان کا دائرہ حیات تنگ سے تنگ تر کیا جا رہا ہے جس کی تازہ ترین مثال وقف بورڈ ترمیمی بِل ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جن سے مسلمان عاجز ہو جائیں۔
مسلمان حکمرانوں کو ظالم اور جابر قرار دیا جا رہا ہے لیکن سچ سچ اور جھوٹ جھوٹ ہوتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہندوستان پر مغل حکمرانوں نے دس بیس سال نہیں بلکہ آٹھ سو سال تک حکمرانی کی تھی، اگر وہ ہندو دھرم کے خلاف ہوتے تو نہ تو ہندو دھرم باقی رہتا اور نہ کسی ہندو کا وجود ہوتا۔ مسلم حکمرانوں نے ہندوؤں کے ساتھ انتہائی رواداری کا سلوک کیا۔
انھیں اپنے دربار میں بڑی عزت اور وقعت دی اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیا جس کی ناقابلِ تردید مثال اکبر اعظم کی ہے جس کے دورِ حکومت میں بیربل اور ٹوڈرمل جیسے اہم ہندو درباری نہایت احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔شہنشاہ اورنگزیب جیسے پاکباز مسلمان حکمراںکے بارے میں سب کو معلوم ہے کہ اس کی نماز کبھی قضا نہ ہوئی تھی حتیٰ کہ اس نے گھوڑے کی پیٹھ پر بھی نماز ادا کی۔ اُس پر یہ جھوٹے الزامات لگائے جا رہے ہیں کہ اس نے مندروں کو تڑوا کر مساجد تعمیر کرائیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اُس نے بعض مندروں کی مرمت بھی کرائی اور ازراہِ ہمدردی ہندو بیواؤں کی مالی اعانت بھی کی۔ علاوہ ازیں اورنگزیب کی حکومت میں مختلف اہم عہدوں پر کئی ہندو اہلکار فائز تھے۔
تصویرکا دوسرا اور انتہائی مکروہ رخ یہ ہے کہ انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور آتے ہی بابری مسجد کا ناٹک رچایا گیا اور بابر کی تعمیر کرائی گئی اس مسجد کو شہید کرکے وہاں رام مندر تعمیر کردیا گیا جب کہ خود ہندوستان کے ماہرین آثارِ قدیمہ نے انتہائی تحقیق کے بعد یہ بات ثابت کردی تھی کہ یہاں کسی مندر کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ دنیا کے تمام مسلم ممالک نے اس عظیم سانحہ پر چپ سادھے رکھی۔
حادثہ سے بڑا حادثہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر