قرآن کریم پڑھنے کے سات مقاصد
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
قرآن کریم ہم پڑھتے بھی ہیں سنتے بھی ہیں اور کچھ نہ کچھ یاد بھی کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ہم قرآن کریم کو کس غرض اور مقصد کے لیے پڑھتے ہیں اور اسے اصل میں کس مقصد کے لیے پڑھنا چاہیے؟ اس کا اپنا مقصد اور ایجنڈا کیا ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ کے اس پاک کلام کو پڑھنے اور سننے کی ضرورت ہے۔ ہم عام طور پر قرآن کریم کو چند مقاصد کے لیے پڑھتے ہیں جن کا تذکرہ اس وقت مناسب سمجھتا ہوں، مثلاً:
قرآن کریم پڑھنے سے ہمارا ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ نماز ہم پر فرض ہے اور نماز میں قرآن کریم پڑھنا ضروری ہے اس لیے ہم تھوڑا بہت قرآن کریم یاد کرتے ہیں تاکہ نمازوں میں پڑھ سکیں اور ہماری نمازیں صحیح طور پر ادا ہو جائیں، ہر مسلمان چند سورتیں یاد کرنے کی ضرور کوشش کرتا ہے تاکہ وہ انہیں نمازوں میں پڑھ سکے۔ اس مسئلہ میں ایک پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ پانچ وقت کی نمازیں فرائض و واجبات اور مؤکدہ سنتیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ادا ہو جائیں اس کے لیے کم از کم کتنا قرآن کریم یاد کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے؟ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ چند سورتیں یاد کر لی جاتی ہیں اور انہی کو بار بار ہر نماز اور ہر رکعت میں دہرایا جاتا ہے، اس سے نماز ہو تو جاتی ہے لیکن سنت کے مطابق نہیں ہوتی۔ جناب نبی اکرمؐ کی سنت مبارکہ یہ ہے کہ مختلف نمازوں اور رکعتوں میں مختلف سورتیں پڑھی جائیں اور ایک ہی سورت کو بار بار نہ دہرایا جائے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے میرا اندازہ ہے کہ ہر مسلمان مرد اور عورت کو قرآن کریم کا کم از کم نصف آخری پارہ ضرور یاد کرنا چاہیے، اس کے بغیر پانچ نمازیں سنت نبویؐ کے مطابق ادا کرنا میرے خیال میں مشکل ہے۔ بہرحال ہمارا قرآن کریم پڑھنے سے ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ کچھ سورتیں یاد کر لیں تاکہ انہیں نمازوں میں پٖڑھ سکیں اور ہماری نمازیں صحیح طور پر ادا ہو جائیں۔
قرآن کریم پڑھنے اور سننے سے ہمارا دوسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ثواب حاصل کریں اور ہمیں زیادہ سے زیادہ اجر ملے، اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کریم پڑھنے اور سننے سے اجر ملتا ہے، ثواب حاصل ہوتا ہے اور ہمارے کھاتے میں نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ پڑھنے پر بھی ہر حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں اور سننے پر بھی ہر حرف پر دس نیکیاں حاصل ہوتی ہیں۔ اور دس کا یہ عدد متعین نہیں ہے بلکہ یہ کم از کم کی حد ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا ومن جاء بالسیئۃ فلا یجزٰی الا مثلھا‘‘ (سورہ الانعام ۱۶۰) جس نے نیکی کا کوئی کام کیا اس کے لیے دس گناہ اجر ہے اور جس نے گناہ کا ارتکاب کیا اسے اس کے برابر بدلہ ملے گا۔ نیکی کے ہر کام پر اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس کا اجر و ثواب دس گنا سے شروع ہوتا ہے یہ کم از کم کی حد ہے، ثواب میں زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے، وہ کام کرنے والے کے خلوص و توجہ اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی پر موقوف ہے۔ یہ سینکڑوں میں بھی ہو سکتا ہے، ہزاروں میں بھی ہو سکتا ہے اور لاکھوں کروڑوں اور اربوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ کسی سطح پر بھی کوئی اشکال نہیں ہے اس لیے کہ اشکال وہاں ہوتا ہے جہاں دینے والے کو کوئی بجٹ پرابلم ہو کہ اس مد میں اتنی رقم موجود بھی ہے یا نہیں، اللہ تعالیٰ کی کوئی بجٹ پرابلم نہیں ہے اس لیے اس نے کسی نیکی میں زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب کی کوئی حد مقرر نہیں کی۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ یہ آپ کے کنکشن کی پاور پر منحصر ہے کہ وہ کتنے وولٹیج کھینچ سکتا ہے، اُدھر سے کوئی کمی نہیں ہے۔
یہاں ایک بات اور بھی قابل توجہ ہے کہ نیکی اور ثواب کسے کہتے ہیں اور یہ جو دس، بیس، سو، ہزار نیکیاں ملنے کی بات کی جاتی ہے، ان میں عملاً ملتا کیا ہے؟ ایک صاحب نے یہی سوال کیا تو میں نے عرض کیا کہ یہ آخرت کی کرنسی ہے، ۱س لیے کہ جس طرح دنیا میں ہمارے معاملات اور لین دین ڈالر، یورو، پونڈ، ریال، درہم اور روپے کے ذریعے طے پاتے ہیں اور ہم ان کرنسیوں کے تبادلے سے اپنے معاملات نمٹاتے ہیں، اسی طرح آخرت میں ہمارے معاملات، نیکیوں اور گناہوں کے تبادلے سے طے پائیں گے۔ وہاں ڈالر، ریال اور روپیہ نہیں چلے گا بلکہ کسی بھی شخص کے ساتھ لین دین نمٹانے کے لیے یا نیکیاں دینا پڑیں گی اور یا اس کے گناہ اپنے سر لینے پڑیں گے۔ اس لیے نیکی اور گناہ دونوں آخرت کی کرنسیاں ہیں۔ ایک پازیٹو ہے اور دوسری نیگیٹو ہے اور انہی کے ذریعے ہمارے آخرت کے معاملات نمٹائے جائیں گے۔ ہم دنیا کے کسی ملک میں جاتے ہیں تو جانے سے پہلے وہاں کی کرنسی کا انتظام کرتے ہیں تاکہ وہاں صحیح طور پر وقت گزار سکیں، اسی طرح آخرت کے دور میں داخل ہونے سے پہلے ہمیں وہاں کی زیادہ سے زیادہ کرنسی کا بندوبست کر لینا چاہیے تاکہ وہاں کی زندگی بہتر ہو سکے۔ چنانچہ ہم قرآن کریم اس نیت سے بھی پڑھتے ہیں کہ ثواب حاصل ہو گا۔
تیسرے نمبر پر ہم قرآن کریم کی تلاوت برکت کے لیے کرتے ہیں۔ نیا مکان بنائیں، کاروبار شروع کریں، یا دفتر کھولیں تو برکت کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کرتے ہیں۔ ویسے بھی باذوق حضرات اپنے گھروں دکانوں، دفاتر، کھیتوں اور کاروباری مراکز میں قرآن کریم کی تلاوت اور ذکر و افکار کا معمول رکھتے ہیں اور قرآن کریم سے ہمیں یہ فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ یہ بات ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ جہاں قرآن کریم کی تلاوت ہوتی ہے وہاں رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے گھروں میں برکت و رحمت کا ماحول نہیں رہا کیونکہ قرآن کریم کی تلاوت نہیں ہوتی، نماز کا ماحول نہیں ہے، ذکر و اذکار کا معمول نہیں ہے اور درود شریف پڑھنے کا ذوق نہیں ہے۔ ہمیں اکثر شکایت رہتی ہے کہ گھروں میں برکت نہیں رہی، باہمی اعتماد کی فضا نہیں رہی، کاروبار میں رکاوٹ رہتی ہے، رشتوں میں جوڑ نہیں ہے اور بے سکونی کی فضا ہے، یہ ماحول جب بڑھتا ہے تو ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ کسی نے کچھ کر دیا ہے اور ہم علماء کرام کے پاس اور عاملوں کے پاس جاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ہمارے گھر میں کسی نے کچھ کر دیا ہے آپ بھی کچھ کریں، وہ غریب کچھ نہ کچھ کرتے بھی ہیں، مجھے اس سے انکار نہیں ہے کہ کرنے والے کرتے ہیں، ان کے اثرات بھی ہوتے ہیں اور علاج کرنے والوں کا علاج بھی مؤثر ہوتا ہے، لیکن کیا ہمارے گھروں میں سب کچھ یہی ہو رہا ہے؟ مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے، ہماری گھروں میں برکت نہ رہنے اور نحوست و بے برکتی کے پھیلنے کا اصل سبب کچھ اور ہے جس پر ہمیں ضرور غور کرنا چاہیے اور میں پڑھے لکھے دوستوں کو اس پہلو پر غور کی دعوت دینا چاہتا ہوں۔
( جاری ہے )
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: قرا ن کریم کی تلاوت قرا ن کریم پڑھنے زیادہ سے زیادہ اللہ تعالی گھروں میں ہے اس لیے کرتے ہیں اور سننے ہیں اور سکتا ہے حاصل ہو نہیں ہے کچھ کر ہے اور یاد کر کے لیے اور ہم ہیں کہ بھی ہو
پڑھیں:
کریم آباد کا نامکمل انڈر پاس تاجر وں کیلیے زحمت کا باعث، کاروبار ٹھپ
کراچی:سندھ حکومت کی عدم توجہ کے باعث کریم آباد انڈر پاس کی تعمیر دکانداروں کے لیے وبال جان بن گئی ہے، انڈر پاس کی تعمیرات کے باعث رمضان المبارک کے دوران تاجراور دکاندار اپنا کاروبار مکمل طور پر نہیں چلاسکیں گے دکانداروں کو اپنی دکان کا کرایہ اور سیلز مین کی ماہانہ تنخواہ نکالنا مشکل ہو گیا۔
دوکانداروں اور سیلز مینوں کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے کریم آباد مارکیٹ کے تاجر شدید پریشان ہیں کہ یہ انڈر پاس کب مکمل ہوگا؟ کریم آباد کے اطراف میں موجود مارکیٹوں کے تاجر اور رہائشی ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔
کریم اباد مارکیٹ کے ایک دکاندار نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہماری دکان میں 6 سیلزمین تھے جس میں سے چار سیلز مین کو دوکان سے فارغ کر دیا ہے ہمیں اپنی دوکان کا کرایہ نکالنا مشکل ہوگیا ہے۔دکانوں کے کرائے 80 ہزار روپے تک ہیں جب ہمارے پاس کسٹمر نہیں آئے گے تو ہماری دوکانداری کیسے چلے گی؟ دوکانوں کا کرایہ سیلزمین بجلی کا بل اور دیگر اخراجات کیسے پورا کریں گے؟ کریم آباد انڈر پاس کی تعمیرات کے باعث ہمارا کاروبار مکمل طور پر ٹھپ ہوگیا ہے، ہمارے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے۔
انہوں کہا کہ کریم آباد انڈر پاس کے اطراف میں 35 سے زائد صرف اسپورٹس کی دکانیں ہیں، اس کے علاوہ مینا بازار فوٹو اسٹیٹ کی مشینیں فیصل بازار اور اس طرح کے دیگردکانیں اور بازار موجود ہیں سب کا کاروبار تباہ ہو گیا ہے، جس سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کریم آباد انڈر پاس کی کوئی ضرورت نہیں تھی بلا وجہ انڈر پاس کے نام پر سڑک کو کھود کر چھوڑ دیا گیا ہے تاجروں کا کہنا ہے کہ جب سندھ کا وزیر اعلی پیپلز پارٹی کا ہے پاکستان کا صدر پیپلز پارٹی کا ہے وزیر بلدیات پیپلز پارٹی کا ہے اور میئر کراچی بھی پیپلز پارٹی کا ہے تو اب کسی فنڈز کا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے جب جناح ایونیو اسلام آباد کا انڈر پاس 42 دنوں میں مکمل ہوسکتا ہے تو کیوں کراچی کا کریم آباد انٹر پاس ڈیڑھ سال بعد بھی نا مکمل ہے؟
انہوں نے کہا کہ ہم دکاندار بے روزگاری کے آخری نہج پر آچکے ہیں ہمارا گزارا مشکل ہو گیا ہے، ہمارا معاشی قتل عام بن کیا جائے اور ہمیں اپنی دکانوں میں آسانی کے ساتھ دوکانداری کرنے دی جائے، جتنی جلدی ہو سکے سندھ حکومت کے ڈی اے اس منصوبے کو مکمل کریں ۔
دوکاندار نے کہا کہ میئر کراچی بھی کریم آباد انڈر پاس چورنگی پر تشریف لائے تھے اور فوٹو سیشن کر کے چلے گئے پیپلز پارٹی کا المیہ ہے کہ یہ پارٹی خود کوئی کام نہ کرتی ہے اور نہ کسی اور کو کرنے دیتی ہے، ہم اپنی مدد اپ کے تحت سڑکوں کو ٹھیک کرنے کے لیے ملبے ڈال رہے ہیں میری بلاول زرداری سے گزارش ہے کہ وہ یہاں آئیں اور دیکھیں کہ دکاندار کتنے پریشان ہیں رمضان المبارک کی امد امد ہے اور ہمارا کاروبار مکمل طور پر ٹھپ ہے ہمیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنا مشکل ہو گیا ہے روزی روٹی کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں ہمارے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کریم آباد کراچی کی مشہور مارکیٹ ہے لیکن انڈر پاس کی تعمیرات میں تاخیر اور سڑکوں پر پڑے گڑھوں کے باعث لوگوں نے کریم آباد مارکیٹ کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے۔واضح رہے کہ کریم اباد چورنگی پر عثمان میموریل اسپتال سے ضیاء الدین اسپتال جانے اور انے والے دونوں ٹریک کے لیے تقریبا ایک کلومیٹر طویل انڈر پاس بنایا جا رہا ہے کریم اباد چورنگی پر زیر تعمیر انڈر پاس کی تاخیر کے باعث لاگت میں تین گنا اضافہ ہو گیا ہے منصوبہ شروع ہوتے وقت اصل تخمینہ ایک ارب 35 کروڑ روپے تھا جو بڑھ کر 4 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
کریم آباد انڈر پاس منصوبہ کے لیے فنڈ محکمہ لوکل گورنمنٹ سندھ فراہم کر رہی ہے اور کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈی اے انڈر پاس کی تعمیر کر رہی ہے جبکہ کام کا اغاز اپریل 2023 میں ہوا تھا اور اپریل 2025 پہ مکمل کیا جانا ہے تاہم 22 ماہ بعد بھی اب تک 35 فیصد کام مکمل ہوا ہے اورابھی تک انڈر پاس کی کھدائی کا کام بھی مکمل نہیں ہوا سکا ہےتقریبا ایک کلومیٹر طویل انڈر پاس کو 24 ماہ میں مکمل کرنے کا دعوی کیا گیا تھا جو تاحال نامکمل ہے اس حوالے سے روزنامہ جسارت نے کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ترجمان سے انڈر پاس کے حوالے سے موقف جاننے کی کوشش کی تاہم انہوں نے فون کال اٹینڈ نہیں کی
TagsImportant News from Al Qamar