رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کو خاموشی سے جڑواں شہروں سے بےدخل کرنے کا فیصلہ WhatsAppFacebookTwitter 0 4 February, 2025 سب نیوز

اسلام آباد:رجسٹرڈ شدہ افغان پناہ گزینوں کو خاموشی سے جڑواں شہروں سے بے دخل کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے جبکہ انہیں آہستہ آہستہ افغانستان منتقل کرنے کا منصوبہ بھی تیار کرلیا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق اس معاملے سے حکومت نے رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو اسلام آباد اور راولپنڈی سے باہر منتقل کرنے اور آہستہ آہستہ انہیں ان کے ملک واپس بھیجنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔
حکام کو یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس حوالے سے کوئی عوامی اعلان کیے بغیر اس منصوبے پر عمل درآمد کریں۔
گزشتہ ہفتے وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے متعدد اجلاسوں میں اس منصوبے کو حتمی شکل دی گئی تھی، وزیراعظم آفس کے ذرائع نے تصدیق کی کہ ایک ملاقات میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے بھی شرکت کی۔
منتقلی کے منصوبے کے پہلے مرحلے کے تحت افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) رکھنے والے افغان شہریوں کو فوری طور پر اسلام آباد اور راولپنڈی سے باہر منتقل کیا جائے گا، اس کے بعد انہیں غیر قانونی اور غیر دستاویزی پناہ گزینوں کے ساتھ واپس افغانستان بھیج دیا جائے گا، اے سی سی نادرا کی جانب سے رجسٹرڈ افغان شہریوں کو جاری کردہ شناختی دستاویز ہے۔
اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کے مطابق اے سی سی پاکستان میں قیام کے دوران افغانوں کو عارضی قانونی حیثیت دیتا ہے، تاہم وفاقی حکومت اس مدت کے بارے میں فیصلہ کرتی ہے کہ اے سی سی کس مدت کے لیے کارآمد رہے گا۔
قانونی طور پر پاکستان میں کہیں بھی رہنے کی اجازت کے حامل پروف آف رجسٹریشن کارڈ (پی او آر) رکھنے والے افغان شہریوں کو منصوبے کے دوسرے مرحلے میں وطن واپس بھیجا جائے گا۔
انہیں اسلام آباد اور راولپنڈی سے باہر منتقل کیا جائے گا لیکن انہیں فوری طور پر ملک بدر نہیں کیا جائے گا، کابینہ نے پی او آر رکھنے والے افغانوں کو جون تک ملک میں رہنے کی اجازت دی ہے۔
پی او آر اور اے سی سی کے ساتھ پاکستان میں مقیم افغانوں کی مجموعی تعداد کا تخمینہ بالترتیب 13 لاکھ اور 7 لاکھ ہے۔
دریں اثنا، تیسرے ممالک میں آباد کاری کے منتظر افغانوں کو 31 مارچ تک اسلام آباد اور راولپنڈی سے باہر منتقل کر دیا جائے گا۔

وزارت خارجہ سفارت خانوں اور دیگر عالمی تنظیموں کے ساتھ رابطے میں رہے گی تاکہ بازآبادکاری کے عمل کو تیز کیا جا سکے، جو افغان کسی تیسرے ملک میں آباد نہیں ہو سکے انہیں بھی واپس افغانستان بھیج دیا جائے گا۔
دوبارہ آبادکاری اور سابق فوجیوں کے سرکردہ گروپ AfghanEvac# کے بانی شان وان ڈیور کے مطابق 10 سے 15 ہزار افغان باشندے پاکستان میں ویزے یا امریکا میں دوبارہ آبادکاری کے منتظر ہیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ ان افغانوں کی کتنی تعداد اسلام آباد اور راولپنڈی میں رہتی ہے، تاہم انہیں جڑواں شہروں سے باہر منتقل کرنے کے فیصلے سے پناہ گزینوں کے لیے لاجسٹک مسائل پیدا ہونے کی توقع ہے، جن میں سے بہت سوں کو اسلام آباد میں غیر ملکی مشنوں اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کے دفاتر کا دورہ کرنا پڑتا ہے۔
کسی تیسرے ملک میں آباد کاری کے منتظر افغان شہریوں میں سے بہت سے وفاقی دارالحکومت میں لینگویج سینٹرز میں بھی رجسٹرڈ ہیں۔
وزارت داخلہ منتقلی اور ملک بدری کے منصوبوں کی قیادت کرے گی اور انٹیلی جنس ایجنسیاں آئی بی اور آئی ایس آئی ان پر عمل درآمد کی نگرانی کریں گی۔
پاکستان نے 2023 میں لاکھوں افغانوں کو ملک بدر کرنے کے لیے ملک گیر کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا، جن کے بارے میں حکومت کا کہنا تھا کہ وہ ملک میں غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔
آئی او ایم کے مطابق 15 ستمبر 2023 سے اب تک 8 لاکھ 5 ہزار 991 افغان اپنے ملک واپس جا چکے ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور سول سوسائٹی کے ارکان نے افغانوں کی جبری وطن واپسی پر تنقید کی ہے اور سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کررکھی ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے درخواست کی آخری سماعت 7 جنوری کو کی تھی۔
سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے عدالت کو یقین دلایا تھا کہ تمام رجسٹرڈ افغان مہاجرین بشمول پی او آر یا اے سی سی رکھنے والوں کو مکمل قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا اور انہیں گرفتار یا ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔
تاہم گزشتہ ماہ ایک رپورٹ میں آئی او ایم نے کہا تھا کہ دسمبر کے آخری دو ہفتوں میں اسلام آباد میں سیکڑوں افغان شہریوں کو گرفتار اور حراست میں لیا گیا۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: جڑواں شہروں سے رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں

پڑھیں:

گنڈا پور فارغ، جارحانہ اننگز، آخری فیصلہ

کیا ہونے جا رہا ہے؟ بہت کچھ ہونے جا رہا ہے۔ خان نے مایوسی اور غصہ کے عالم میں ایک بار پھر ملک بھر میں مظاہروں، دھرنوں اور جلسے جلوسوں کی جارحانہ اننگز کا اعلان کردیا ہے۔ دوسری طرف سے ملیا میٹ پروگرام کا آخری فیصلہ ’’وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں‘‘ تقرریاں، تبادلے، ادھر کے جج ادھر، ادھر کے پریشان۔ ان کے خط آنے لگے گویا کہ خط آنے لگے۔ 8 فروری سے قبل بہت کچھ ہو جائے گا۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا تہیہ 24 سے 27 نومبر جو کوتاہیاں ہوئیں وہ دہرائی نہیں جائیں گی۔ ادھر پی ٹی آئی کے ہارڈ لائنرز کا اعلان 8 فروری اور اس کے بعد کے دنوں میں ملک بھر دمادم مست قلندر ہو گا۔ انحصار صوابی کے جلسہ پر ہے۔ لاکھوں لوگ آگئے تو اسلام آباد کی طرف مارچ ہوگا۔ بد قسمتی، عدم استحکام اس وقت پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جب 12 اور 13 فروری کو ترکی کے صدر طیب اردوان اپنے ساتھ 65 رکنی سرمایہ کاروں کا وفد لے کر اسلام آباد آئیں گے۔ 19 فروری سے چیمپئنز ٹرافی کے میچز شروع ہوں گے۔ ہنگاموں کی گونج دنیا بھر میں سنائی دے گی۔ کیا پیغام جائے گا؟ خان کو اس کی پروا نہیں، ان کا مقصد صرف اپنی رہائی اور دوبارہ اقتدار میں آنا ہے، مذاکرات سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم جس جوش سے آئی تھی کچھ حاصل نہ ہونے پر بھاگ گئی۔ حکومتی ارکان آوازیں دیتے رہ گئے۔ وزیر اعظم نے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی بھی پیشکش کی جو بیرسٹر گوہر نے مسترد کردی۔ مذاکرات سے پہلے ہی نتائج کا علم تھا۔ ’’ہاں مگر اتنا ہوا یہ لوگ پہچانے گئے‘‘ اس دوران حکومتی ارکان سے مل کر ماہانہ تنخواہ 5 لاکھ 19 ہزار کرا لی۔ کارکردگی گیڈروں جیسی آوازیں، نعرے بازی اور بائیکاٹ ایک کہانی ختم دوسری شروع۔ 27 نومبر گنڈا پور کو لے ڈوبا۔ بی بی سخت ناراض پشاور میں قیام کے دوران ہی سوچ لیا تھا کہ ’’جیل جا کر شکایت لاواں گی‘‘ شومئی قسمت 190 ملین پائونڈ کیس میں انہیں بھی 7 سال قید کی سزا ہوگئی۔ جیل پہنچتے ہی میاں کے کان بھرے، گنڈا پور ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔ ادھر بھی ہے ادھر بھی، کرپشن میں ملوث ارکان کی خریداری میں ماہر ہے۔ ’’ہمیں سزا کرانے میں اسی کا ہاتھ ہے‘‘پیارے خان صاحب غصہ سے تمتما اور تنتنا اٹھے گنڈاپور کو صوبہ کی صدارت سے فارغ کردیا اور ان کے مخالف جنید اکبر کو صدر بنا دیا با خبر ذرائع کے مطابق گنڈا پور نے تھوڑی سی غیرت دکھائی، جیب سے استعفیٰ نکالا اور خان کے حوالے کردیا۔ خان نے استعفیٰ جیب میں رکھ لیا۔ لوگوں نے کہا صدارت گئی تھی ’’وزارت اعلیٰ بھی گئی تیمور کے گھر سے‘‘ وزارت اعلیٰ کے لیے رابطے ہونے لگے۔ عاطف خان کو 35 ارکان کی حمایت حاصل مگر گنڈا پور کا گروپ بھی خاصا مضبوط ہے۔ فی الحال خطرہ نہیں بندہ خطرناک ہے۔ چھیڑ خانی کرنے والوں کو نہیں چھوڑے گا۔ خان مجبوراً پھر سے جارحیت پر اتر آئے۔ 9 مئی کے بعد 8 فروری مگر اب تو ان کے اپنے صوبہ کے عوام مایوس ہیں۔ خان اپنی کمپرومائز قیادت سے پریشان ہیں۔ گنڈا پور کے بعد بیرسٹر گوہر کی خبریں بھی زیر گردش ہیں وہ ہارڈ لائنرز کو آگے لا رہے ہیں۔ جنید اکبر کی لاٹری نکل آئی وہ صوبائی صدر کے علاوہ قومی اسمبلی میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین بن گئے۔ عالیہ حمزہ پنجاب کی صدر قرار پائیں، سب نامزدگیاں، پارٹی میں ڈکٹیٹر شپ ہو تو ایسی ڈکٹیٹریاں ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ خان صاحب ذہین فطین جیل میں بیٹھ کر پارٹی چلا رہے ہیں۔ بیرسٹر گوہر کی دو منٹ کی ملاقات اور اسے دو ڈھائی گھنٹے کے مذاکرات ظاہر کرنے کے شوق نے لاکھوں کا ساون تباہ کردیا۔ خان نے اوپر والوں سمیت کسی سے رابطہ نہ رکھنے کا حکم دے کر اپنے سارے راستے بند کرلیے۔ تنظیمی تبدیلیوں سے پارٹی کی گرتی ساکھ رک سکے گی۔ جواب نفی میں ہے تاہم انہوں نے طاقتوروں کو بھی آخری فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کردیا۔ آخری فیصلہ اسٹیبلشمنٹ مستقبل میں بھی خاموش رہے گی۔ رابطے نہ مذاکرات بلکہ حکومت سے بھی کہا جائے گا کہ وہ ابلتے جمہوری جذبات کو ٹھنڈا رکھیں اور کوئی رابطہ نہ کریں۔ سوشل میڈیا پر اوٹ پٹانگ پروپیگنڈے کا توڑ بھی کرلیا گیا۔ خان کے دور اقتدار میں آرڈی ننس کے ذریعے پیکا ایکٹ لانے کی ناکام کوشش کی گئی۔ صحافیوں پر گولیاں تک چلائی گئیں، اشتہارات کے کروڑوں روپے روک لیے گئے جس سے پورا میڈیا بحران کا شکار ہوا۔ سیکڑوں صحافی بیروزگار ہوئے۔ اپوزیشن پر قید و بند کی سختی بڑھ گئیں۔ موجودہ حکومت نے اسی پیکا ایکٹ میں فیک نیوز اور ملک دشمنی پروپیگنڈے کی روک تھام کیلئے 3 سال قید کا مرچ مسالا ڈال کر باقاعدہ قانون بنا دیا۔ بلا شبہ قانون سازی کرنے والوں سے معمولی غلطی ہوئی۔ بل ایوانوں میں لانے سے پہلے مسودہ قانون پر صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں اور اخباری مالکان کی ملک گیر تنظیم سے مشاورت کرلی جاتی اور ان کی تجاویز بھی شامل کرلی جاتیں تو صحافیوں کو سڑکوں پر آنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ پیکا ایکٹ بلا شبہ باہر اور اندر بیٹھے نام نہاد صحافیوں اور ڈالر خور اہل یوتھ کی ملک دشمن سرگرمیوں کی روک تھام کیلئے از بس ضروری ہے۔ صحافیوں کو احساس ہے کہ ملک کے ایک بڑے لیڈر کے انتقال اور تدفین جیسی خبریں دینے والے ان کے ہمراہی نہیں ہوسکتے۔ کون لوگ ہیں انہیں حکومت اور ادارے بخوبی جانتے ہیں لیکن بلا مشاورت پیکا ایکٹ سے خواہ مخواہ کے شکوک و شبہات نے جنم لیا ہے۔ نعرے لگنے لگے ہیں کہ صحافیوں سے غیر ضروری پنگا ہرگز نہیں چنگا، بہتر ہوگا کہ وفاقی وزیر قانون، وزیر اطلاعات اور دھیمی گفتگو کرنے والے رانا ثناء اللہ صحافیوں کو بلا کر ان سے مشاورت کریں اگر پیکا ایکٹ میں قابل اعتراض شقوں کی نشاندہی کی جائے تو انہیں ترامیم کے ذریعہ ختم کردیا جائے۔ صحافیوں کی اکثریت محب وطن ہے۔ فیک نیوز کی مخالف ہے۔ انہیں ایک ہی پلڑے میں نہ تولا جائے۔ انہیں اعتماد میں لینے سے صحافیوں کے دل اور حکومت کے دن بڑھ جائیں گے۔ 8 فروری کے موقع پر صحافتی تنظیموں کے مظاہرے نیک شگون نہیں۔ جہاں تک موجودہ حالات کا تعلق ہے کپتان، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں بنیادی اختلاف موجودہ سسٹم ہے۔ گود میں لے کر ملک تباہ کرنے کے دن گزر گئے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا لیکن خان نے ابھی تک سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے سسٹم اور حقائق کو تسلیم نہیں کیا بلکہ ایک بار پھر عوام کو سڑکوں پر لانے کی غلطی دہرا رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ اس بار ان کے آخری قلعہ خیبر پختونخوا میں بھی دراڑیں پڑنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ اپوزیشن میں رہ کر بھی حق اور سچ کا پرچار کیا جاسکتا ہے۔ کاش سلمان اکرم راجہ خان کو یہ بات سمجھا سکیں، ایسا نہ ہو سکا تو کہانی ختم سختیاں بڑھیں گی۔ بقول فیصل وائوڈا خان 8 فروری کے بعد نو دس مہینے جیل میں ہی عیش کریں گے۔ تاہم حفیظ اللہ نیازی کو دور افق پر امید کی کرن نظر آرہی ہے ان کا کہنا ہے کہ چند ماہ بعد خان کو چیک لسٹ پیش کی جائے گی خان نے شرائط قبول کرلیں تو باہر ہوں گے سرنڈر پر نجات ورنہ غیب کا علم اللہ کو ہے تیاریاں مکمل ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • دہشتگردوں کے ساتھ مارے گئے ڈپٹی گورنر کے بیٹے کی لاش آج افغان حکومت کے حوالے کی جائے گی
  • سعودی عرب: مکہ اور مدینہ کے ناموں کا تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ممنوع
  • اسرائیل کا مقبوضہ مغربی کنارے میں فوجی آپریشن ،پناہ گزین کیمپ میں دھماکوں سے مکانات تباہ
  •  پنجاب میں شیروں کی بڑھتی آبادی کو کنٹرول کرنے کیلیے نس بندی کرنے کا فیصلہ
  • امریکی خاتون کا مذاق نہ اڑائیں انہیں احترام کیساتھ ملک بدر کریں: نادیہ حسین کی حکومت سے اپیل
  • گنڈا پور فارغ، جارحانہ اننگز، آخری فیصلہ
  • حکومت کا بجلی ٹیرف کم کرنے کیلئے گردشی قرضے کو سرکاری قرض میں بدلنے پر کام
  • افغانستان کی جلاوطن خواتین کرکٹرز کو فنڈز دینے کا اعلان
  • دار الحکومت میں اعلی سطح مشاورتی اجلاس :اسلام آباد ہائیکورٹ میں تین ہائیکورٹس سے ایک، ایک جج ٹرانسفر کرنے کا فیصلہ