امریکا غیر قانونی طریقے سے آنے والے 205 بھارتی ملک بدر
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
امریکا میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے والے سیکڑوں بھارتیوں کو بے دخل کر دیا گیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق 205 بھارتیوں کو امریکا سے ڈی پورٹ کیا گیا ہے، ان تمام افراد کے بھارتی شہری ہونے کی تصدیق بھی کی گئی ہے۔
امریکا سے ڈی پورٹ کیے گئے افراد کے حوالے سے کی گئی کارروائی کے تمام مرحلے میں بھارت بھی شامل رہا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ان 205 بھارتیوں کو لے کر امریکی فوجی طیارہ امریکی ریاست ٹیکساس سے آج روانہ ہوا ہے۔
یہ ممکنہ طور پر ایسی کئی پروازوں میں سے پہلی پرواز ہے جو امریکا میں غیر قانونی ہندوستانی تارکینِ وطن کو واپس لے جائے گی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر قانونی تارکینِ وطن کی ملک بدری کی پالیسی کے مطابق ان بھارتیوں کو ملک بدر کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران غیر قانونی نقل مکانی کے خلاف کریک ڈاؤن کا وعدہ کیا تھا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے مطابق
پڑھیں:
عالمی تجارتی جنگ اور ٹرمپ کی پالیسیاں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدام پر ردعمل میں کینیڈا نے بھی امریکی درآمدات پر 25 فی صد ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کردیا جب کہ چین نے امریکا کی جانب سے ٹیرف عائد کیے جانے پر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شکایت درج کرانے کا اعلان کردیا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکی کینیڈا، میکسیکو اور چین کے خلاف ٹیرف کی وجہ سے ابھرتی ہوئی تجارتی جنگ سے ’’ کچھ درد‘‘ محسوس کرسکتے ہیں، کینیڈا کو ہماری 51 ویں ریاست بننا چاہیے۔
درحقیقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک نئی عالمی تجارتی جنگ شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے، جس کے نتیجے میں غالباً امریکی شرح نمو میں کمی آئے گی اور صارفین کے زیر استعمال اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ چین، میکسیکو اور کینیڈا کا شمار امریکا کے سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں میں ہوتا ہے۔
ٹرمپ نے باور کرایا ہے کہ یورپی مصنوعات بھی بہت جلد کسٹم ڈیوٹیوں کا ہدف ہوں گی۔ یہ عالمی سطح پر ٹرمپ کا سب سے زیادہ انتشار پیدا کرنے والا اقدام ہے۔ اس اقدام نے تجارتی جنگ میں شدت کے خدشے کو جنم دیا ہے جس سے عالمی معیشت شدید عدم استحکام سے دوچار ہو سکتی ہے۔
کینیڈین حکومت امریکی کسٹم ڈیوٹی کے خلاف عالمی ادارہ تجارت WTO میں مقدمہ دائر کرے گی۔ اس کا مقصد کینیڈا، میکسیکو اور امریکا کے درمیان آزاد تجارت کے معاہدے کی رو سی زر تلافی حاصل کرنا ہے۔ ٹرمپ نے خود اس معاہدے پر 2018 میں دستخط کیے تھے۔
کینیڈا کے مستعفی وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک امریکی سامان پر 25% کی شرح سے ٹیکس عائد کرے گا، جس کی مالیت 155 ارب کینیڈین ڈالر (106.6 ارب امریکی ڈالر) بنتی ہے۔ دوسری جانب میکسیکو کی خاتون صدرکلوڈیا شینباؤم نے تصدیق کی ہے کہ انھوں نے وزیر معیشت کو پلان B نافذ کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔
اس پلان میں ٹیکس عائد کرنے سمیت غیر معینہ تدابیر شامل ہیں۔ امریکی صدر کے اقدام سے تجارتی جنگ شروع ہوگئی ہے، امریکا کے دو بڑے تجارتی شراکت داروں میکسیکو اور کینیڈا نے فوری طور پر جوابی محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا ہے، چین اور کینیڈا نے کہا ہے کہ وہ ٹرمپ کے اقدام کو عالمی تجارتی تنظیم ( ڈبلیو ٹی او) میں چیلنج کرنے کے ساتھ دیگر جوابی اقدامات کریں گے۔
معاشی ماہرین کے مطابق بھاری امریکی محصولات اور جوابی اقدامات کینیڈا اور میکسیکو کی معیشتوں کو کساد بازاری کی جانب دھکیل دیں گے۔ امریکا کو بھی کسی حد تک بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دراصل ٹیرف واضح پیغام ہوتا ہے جو تجارت کو جغرافیائی سیاسی ٹول کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ٹرمپ کے امریکا فرسٹ موقف کو تقویت دیتا ہے۔
سب سے بڑی تشویشناک بات یہ ہے کہ صورتحال طویل اور وسیع تر تصادم کی جانب بڑھ سکتی ہے۔ یورپی یونین نے ٹرمپ کی جانب سے بڑے امریکی تجارتی شراکت داروں پر درآمدی محصولات لگانے کے فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔
مزید برآں ایک ایکسٹرنل ریونیو سروس قائم کرنے کے ان کے منصوبے اس غلط فہمی کو ظاہر کرتے ہیں کہ صرف دوسرے ممالک ہی بڑھتے ہوئے ٹیرف سے متاثر ہوں گے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی صارفین بھی اس اقدام کے نتیجے میں زیادہ مہنگائی کی صورت میں متاثر ہوں گے۔
عالمی سطح پر بھی ٹرمپ کے کچھ بیانات اور خارجہ پالیسی کے منصوبے انتشارکا باعث بن سکتے ہیں۔ انھوں نے بعض بیانات میں توسیع پسندانہ عزائم کا اشارہ دیا، جو 19ویں صدی کی امریکی سامراجیت کی یاد دلاتے ہیں۔
ٹرمپ نے پاناما نہر اور گرین لینڈ پر قبضے کا عندیہ دیا۔ اس مقصد کے لیے فوجی طاقت کا استعمال بھی شامل ہے۔ انھوں نے کینیڈا کو امریکا کی 51ویں ریاست بنانے کی دھمکی دی اور خلیج میکسیکو کا نام بدل کر خلیج امریکا رکھنے کا ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیا۔
ٹرمپ کی ’’ امریکا پہلے‘‘ پالیسی کے تحت، ایک اور ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے امریکا کو پیرس ماحولیاتی معاہدے سے علیحدگی اور اس معاہدے سے متعلق پالیسیوں کو منسوخ کرنے کی ہدایت کی گئی۔ یہ بین الاقوامی کوششوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے جوگرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے اور عالمی درجہ حرارت سے نمٹنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔
ٹرمپ نے یہ اقدام 2017 میں اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران بھی کیا، لیکن صدر جوبائیڈن کے دور میں 2021 میں امریکا دوبارہ اس معاہدے میں شامل ہوگیا۔ اس بار، اس فیصلے کے ساتھ ٹرمپ نے فوسل فیولز (تیل، گیس اور کوئلہ) کو فروغ دینے کا فیصلہ بھی کیا، جس میں تیل اور گیس کی ڈرلنگ میں اضافہ اور قابل تجدید توانائی کے منصوبوں اور الیکٹرک گاڑیوں کے لیے مراعات سمیت ماحولیاتی پالیسیوں کو ختم کرنا شامل ہے۔
گرین انفرا اسٹرکچر منصوبوں کے لیے اربوں ڈالر کی فنڈنگ معطل کر دی گئی۔ ٹرمپ نے ایک بے بنیاد اعلان میں کہا کہ ’’ماحولیاتی انتہا پسندی نے مہنگائی بڑھا دی اور کاروباروں پر ضوابط کا بوجھ ڈال دیا ہے۔‘‘ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) سے علیحدگی کا حکم بھی ٹرمپ کے اقدامات میں شامل ہے۔
اس فیصلے کی بنیاد بھی گمراہ کن دلائل پر مبنی تھی، جن میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ کووڈ 19کی وبا اور عالمی صحت کے دیگر بحرانوں سے نمٹنے میں ادارہ ناکام رہا اور اس میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔اس کے جواب میں عالمی ادارہ صحت نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے یاد دلایا کہ یہ ادارہ ’’ لاتعداد جانیں بچا چکا ہے اور امریکی شہریوں سمیت تمام لوگوں کو صحت کے خطرات سے محفوظ رکھا ہے۔‘‘
بیان میں یہ بھی ذکر کیا گیا کہ حالیہ برسوں میں ڈبلیو ایچ او نے اپنی تاریخ کی ’’سب سے بڑی اصلاحات کا عمل مکمل کیا۔‘‘یہ اقدامات کثیرجہتی کے لیے ایک اور دھچکا ثابت ہوئے، جو پہلے ہی گزشتہ دہائی کے دوران امریکا اور دیگر بڑی یا علاقائی طاقتوں کے یکطرفہ اقدامات کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہے۔
ٹرمپ نے کثیر جہتی اداروں کے معاملے میں صبر سے کام نہیں لیا اور ان کی ’’امریکا پہلے‘‘ پالیسی کثیر جہتی پر یقین رکھنے کے اصولوں کے بالکل برعکس ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیوں سے اقوام متحدہ، عالمی تجارتی تنظیم اور نیٹو جیسے اہم بین الاقوامی ادارے کمزور ہو سکتے ہیں، جو کئی دہائیوں سے عالمی تعاون اور اس کی مضبوطی کی بنیاد رہے ہیں۔
ان کا کثیر الجہتی معاہدات اور عالمی معاہدوں کے بارے میں شکوک و شبہات اور دوطرفہ مذاکرات کو ترجیح دینے سے ایک ایسا تناؤ پیدا ہوگا، جہاں دیرینہ اتحاد اور تعاونی ڈھانچے میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ ماہر ناقدین کا استدلال ہے کہ یہ نقط نظر بین الاقوامی اصولوں کے ٹوٹنے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا کو خود اس کے اپنے بنائے گئے لبرل نظام سے پیچھے ہٹا سکتا ہے۔
تاہم، کچھ افراد ٹرمپ کے بین الاقوامی اداروں کے بارے میں شکوک و شبہات میں ممکنہ فوائد دیکھتے ہیں۔ حامیوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا نقطہ نظر دوسرے ممالک کو اپنی سیکیورٹی اور اقتصادی مفادات کی زیادہ ذمے داری لینے پر مجبور کرتا ہے، جس سے ممکنہ طور پر امریکا کا عالمی بوجھ کم ہو سکتا ہے۔
منصفانہ تجارتی معاہدوں کو فروغ دینے اور اتحادیوں کو دفاعی اخراجات کے لیے خود ذمے دار بنانے کی کوششوں کے ذریعہ، ٹرمپ قلیل مدت میں امریکا کے لیے زیادہ منصفانہ معاہدوں کی وکالت کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کا یک طرفہ نقطہ نظر امریکا کو کثیر الجہتی مذاکرات کی پابندیوں کے بغیر کام کرنے کی زیادہ آزادی اور لچک فراہم سکتا ہے، جو جغرافیائی سیاسی حالات میں بے حد فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ یوکرین کی جنگ بند کرانے میں سرگرم کردار ادا کرنے کی ضرور کوشش کریں گے ۔یہ جنگ یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے تنازع پر شروع ہوئی تھی جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ امریکا کو نیٹو اتحاد سے نکل جانا چاہیے۔
امریکا کے نیٹو اتحاد سے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ نیٹو کا خاتمہ اور جب نیٹو تنظیم موجود ہی نہیں ہو گی یا مکمل غیر فعال ہو جائے گی تو اس کو وسعت دینے کی بنیاد پر شروع ہونے والی جنگ کے جاری رہنے کا بھی کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ ان سب کے باوجود روس کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کا امکان برقرار ہے، خاص طور پر اگر روس کی جارحانہ خارجہ پالیسی کے ساتھ ٹرمپ کی لین دین کی سفارت کاری کا تصادم جاری رہا۔چین، روس اور دیگر طاقتوں کے عالمی امور میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے طاقت کا ایک ایسا خلا پیدا ہو سکتا ہے جس میں امریکا اب وہ غالب پوزیشن نہیں رکھتا جو وہ کبھی رکھتا تھا۔
ٹرمپ کی حالیہ صدارت عالمی و ملکی سطح پر کئی پہلوؤں سے اثر انداز ہو سکتی ہے۔ امیگریشن، نسل پرستی اور معاشی عدم مساوات پر ان کی پالیسیوں سے امریکی معاشرتی تقسیم اور داخلی اختلافات مزید گہرے ہو سکتے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں ٹرمپ کی پالیسی سے ہندوستان کو ترجیح اور افغانستان میں انخلا پر نئی شرائط ممکن ہیں، جو پاکستان کے لیے چیلنجز بڑھا سکتے ہیں۔ فلسطین کے خلاف مزید سخت اقدامات سے فلسطینی مزاحمت میں شدت آ سکتی ہے، جس کا اثر عالمی سطح پر اور خطے کے امریکی اتحادیوں پر بھی ہوگا۔
ان کی صدارت کے نتائج ملکی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر آنے والے برسوں میں جب ظاہر ہوں گے، تب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ان کی ’’America first‘‘ والی اپروچ دنیا کے لیے کس قدر مفید ہوگی اور امریکا کی ساکھ مزید مضبوط ہوگی یا انتشار و خلفشار کا شکار ہوکر دنیا کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردے گی۔