Nai Baat:
2025-02-04@08:34:33 GMT

دنیا بھر میں آج کینسر سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جا رہا ہے

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

دنیا بھر میں آج کینسر سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جا رہا ہے

لاہور : آج دنیا بھر میں کینسر سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، جس کا مقصد اس بیماری کے بارے میں لوگوں میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔ کینسر ایک پیچیدہ اور موذی مرض ہے جو مختلف وجوہات کی بنا پر ہو سکتا ہے، جیسے تمباکو نوشی، شراب نوشی، موٹاپا اور فضائی آلودگی۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، کینسر دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا  موذی مرض بن چکا ہے۔

 

پاکستان میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ 90 ہزار افراد کینسر میں مبتلا ہوتے ہیں، اور ان میں سے زیادہ تر افراد بروقت علاج نہ ملنے کی وجہ سے جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ مردوں میں منہ، جگر، بڑی آنت، پھیپھڑوں اور پروسٹیٹ کینسر عام ہیں، جبکہ خواتین میں چھاتی کا کینسر سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔ بچوں میں خون کے کینسر اور نوعمر بچوں میں ہڈیوں کے کینسر کے کیسز بھی دیکھے جا رہے ہیں۔

 

ماہرین کے مطابق، کینسر کی بروقت تشخیص اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال پاکستان میں ایک لاکھ 20 ہزار افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

 

پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے کینسر کے خلاف کوششیں جاری رکھنے کا عہد کیا ہے، جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ کینسر کے علاج اور تحقیق میں پاکستان نے نمایاں ترقی کی ہے اور بروقت تشخیص اور مؤثر علاج اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ کینسر کے خلاف آگاہی کے لیے ایک ساتھ قدم بڑھائیں اور اس بیماری سے بچاؤ کے لیے فعال اقدامات اٹھائیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کینسر کے

پڑھیں:

ہیپاٹائٹس، بیرون ملک ملازمت کے خواہشمند پاکستانیوں کے لیے ایک خاموش رکاوٹ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 فروری 2025ء) ماہرین کے خیال میں ہیپاٹائٹس ایک تیزی سے پھیلنے والا مرض ہے۔ مؤثر اسکریننگ اور علاج کے اقدامات نہ کیے گئے تو ہیپاٹائٹس نہ صرف پھیلتا رہے گا بلکہ بیرونِ ممالک روزگار کی تلاش کے لیے جانے والے افراد مالی مشکلات کا شکار رہیں گے۔ یوں خدشہ ہے کہ ملک زر مبادلہ کی کمی اور بڑھتے ہوئے صحت کے مسائل سے بھی دوچار ہو سکتا ہے۔

’ہم خوش تھے کہ ہمارے دن بدل جائیں گے‘

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے 36 سالہ الیکٹریشن نواز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور سعودی عرب میں ملازمت کے لیے مہینوں تیاری کرتے رہے، لیکن میڈیکل ٹیسٹ کے دوران ہیپاٹائٹس سی کی تشخیص ہوئی۔

انہوں نے بتایا، ''ہم خوش تھے کہ اب ہمارے دن بدل جائیں گے، لیکن ہیپاٹائٹس سی کا پتا چلنے کے بعد ہماری خوشی ماند پڑ گئی۔

(جاری ہے)

مجھے کوئی علامات نہیں تھیں اور نہ ہی کبھی سوچا تھا کہ مجھے یہ بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔ اچانک میرے خواب اور تمام جمع پونجی برباد ہو گئی۔‘‘

پاکستان میں نواز جیسے نوجوانوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جو اپنی زندگی اور اپنے خاندان کے لیے بہتر مستقبل کی تلاش میں بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ان میں ایک بڑی تعداد ہیپاٹائٹس جیسی بیماریوں کی وجہ سے اپنی منزل تک نہیں پہنچ پاتی۔

افرادی قوت بھیجنے کے ہدف میں ناکامی

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق سن 2024 میں پاکستان نے تقریباً دس لاکھ ورکرز کے بیرون ملک بھیجنے کے ہدف کے مقابلے میں صرف سات لاکھ 27 ہزار افراد بھیجے۔ یہ نہ صرف مقررہ ہدف سے کم تعداد تھی بلکہ سن 2023 کے مقابلے میں بھی ایک لاکھ کی کمی تھی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ملک گیر سطح پر مؤثر اسکریننگ اور علاج کے لیے ضروری اقدامات نہ کیے گئے تو سن 2030 تک ہیپاٹائٹس کے خاتمے کے ہدف کا حصول مشکل ہو جائے گا۔

ڈبلیو ایچ او کے ریکارڈ کے مطابق دنیا بھر میں 60 ملین افراد ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا ہیں، جن میں سے 10 ملین پاکستان میں ہیں۔

یعنی عالمی ہیپاٹائٹس کے 16 فیصد سے زائد مریض پاکستان میں موجود ہیں۔

اس پر بات کرنے کے لیے ڈی ڈبلیو نے وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال سے رابطہ کیا، جنہوں نے جواب دینے کی رضامندی ظاہر کی۔ تاہم اس رپورٹ کی اشاعت تک ان کا جواب موصول نہیں ہو سکا۔

تیزی سے پھیلتا ہوا مرض

صحت عامہ کے ماہر ڈاکٹر عابد شاہ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں ہر دسویں شخص کو ہیپاٹائٹس بی کا سامنا ہے اور یہ بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے۔ انہوں نے ایک حالیہ سروے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی، دونوں کو کنٹرول کرنا مشکل ہو چکا ہے۔

ڈاکٹر شاہ نے کہا کہ کئی علاقوں میں ہیپاٹائٹس کے ٹیسٹ نہیں کیے جاتے جس کی وجہ سے لوگوں کو اس بیماری کا پتا نہیں چلتا۔

اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں جہاں لوگوں کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں وہاں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریض سامنے آتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ بیرون ملک جانے کے خواہش مند افراد کے لیے 'فیٹی لیور‘ کا مرض ایک عام مسئلہ بن چکا ہے، جو تقریباً ہر دوسرے پاکستانی کو لاحق ہے لیکن اسے بیماری نہیں سمجھا جاتا۔

تاہم دیگر ممالک کی سخت پالیسیوں کی وجہ سے یہ مرض ایک بڑی رکاوٹ بن رہا ہے۔

ہیپاٹائٹس کیسے پھیلتا ہے؟

ڈاکٹر عابد شاہ کا کہنا ہے کہ ہیپاٹائٹس اے اور ای آلودہ پانی کے ذریعے پھیلتے ہیں، جبکہ ہیپاٹائٹس بی اور سی خون اور اس سے متعلقہ مصنوعات کے ذریعے منتقل ہوتے ہیں۔

ہیپاٹائٹس بی اور سی زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ یہ دائمی ہیپاٹائٹس کا سبب بنتے ہیں اور ان کی علامات اس وقت تک ظاہر نہیں ہوتیں جب تک بیماری شدت اختیار نہ کر لے اور جگر کو نقصان نہ پہنچے۔

اس کے نتیجے میں کئی پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں، جیسے قے میں خون آنا، کالے رنگ کا پاخانہ، جلودر اور شعور کی سطح میں تبدیلی۔ یہ بیماری جگر کے ٹیومر کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

ناقص انتظامات مرض کے پھیلنے کی وجہ

آغا خان یونیورسٹی کے پروفیسر سعید حامد نے ایک موقع پر انکشاف کیا کہ پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ سے تین لاکھ پچاس ہزار نئے ہیپاٹائٹس سی کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔

اس کی بنیادی وجوہات میں انفیکشن پر قابو پانے کے ناقص انتظامات، غیر ضروری انجیکشنز کا زیادہ استعمال، اور عوام اور صحت سے متعلق دیکھ بھال فراہم کرنے والوں میں شعور کی کمی شامل ہیں۔

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی کے پھیلاؤ کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے، جو جگر کی دائمی بیماری، سروسس، اور جگر کے کینسر کا سبب بنتی ہے۔

اس کے نتیجے میں ہر سال ہزاروں افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ پاکستان میں صحت عامہ کا بڑا چیلنج

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً ایک ڈیڑھ لاکھ ہیپاٹائٹس کے نئے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ اس وقت ملک میں تقریباً 12 لاکھ افراد ہیپاٹائٹس بی یا سی کا شکار ہیں۔

بیشتر افراد صحت کی سہولتوں میں کمی اور لاعلمی کی وجہ سے اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اس وقت پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو ہیپاٹائٹس سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔

ہیپاٹائٹس کو 'خاموش قاتل‘ کہا جاتا ہے کیونکہ یہ بیماری کئی سال تک تشخیص اور علاج سے محروم رہنے کے باوجود پیچیدگیوں اور موت کا سبب بن سکتی ہے۔

سن 2015 میں عالمی سطح پر وائرل ہیپاٹائٹس کے باعث تقریباً 13 لاکھ 40 ہزار اموات واقع ہوئیں، جو ایچ آئی وی اور تپ دق سے ہونے والی اموات کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔

کیا ہیپاٹائٹس سے بچاؤ ممکن ہے؟

ڈاکٹر عابد شاہ نے بتایا کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس کی روک تھام کے لیے پانی کے معیار کو چیک کرنا بہت ضروری ہے، خاص طور پر انسانی استعمال کے لیے۔

انہوں نے کہا، ''آلودہ پانی اور جراثیم بیماری کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ ہیں اور مختلف واٹر برانڈز کا معیار عوامی صحت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

‘‘

عوامی آگاہی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو ہیپاٹائٹس کے پھیلاؤ کے طریقوں اور اس سے بچاؤ کے بارے میں آگاہ کرنا اور بنیادی صحت کے مراکز میں معلومات فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔

علاوہ ازیں ڈاکٹر شاہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہت سے لوگ غیر محفوظ اوزار استعمال کرنے اور 'نان ڈاکٹر پریکٹس‘ کے سبب بھی اس مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

انہوں نے ان سب عوامل کو کنٹرول کرنے کے لیے مناسب اقدامات کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

ہیپاٹائٹس سے بچاؤ کی تدابیر کے بارے میں ڈاکٹر عابد شاہ کا کہنا تھا، ''لوگ غیر ضروری انجیکشنز، ڈرپس اور ٹیٹوز سے بچیں، اور دانتوں اور جراحی کے تمام طریقہ کار صرف مستند طبی سہولیاتی مراکز سے کرائیں، جہاں آلات کی مناسب صفائی کی جاتی ہو۔ حجاموں سے نئے بلیڈ استعمال کرنے کی درخواست کی جائے اور خون کی منتقلی کے دوران اس کی درست اسکریننگ کو یقینی بنایا جائے۔

‘‘ ہیپاٹائٹس سی کے خاتمے کا عزم

پنجاب ہیلتھ فوکل پرسن ڈاکٹر جواد نے کہا کہ پاکستان نے 2030 تک ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مرض کو ختم کرنے کے لیے ایک منصوبہ شروع کیا ہے، جس کا مقصد 140 ملین افراد کی اسکریننگ اور متاثرہ افراد کے علاج میں اضافہ کرنا ہے۔

ڈاکٹر جواد نے مزید کہا کہ ملک میں ہیپاٹائٹس کا بوجھ زیادہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو 'ہیپاٹائٹس ایویلیوایشن ٹو ایمپلیفائی ٹیسٹنگ‘ منصوبے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔

مقامی سطح پر ہیپاٹائٹس کی روک تھام کا پروگرام سن 2000 میں راولپنڈی سے شروع کیا گیا، جس کے تحت گھر گھر اسکریننگ، علاج اور ویکسینیشن فراہم کی جا رہی ہے۔

وزیر اعظم کے ہیپاٹائٹس سی کے خاتمے کے پروگرام کے تحت اس بیماری کو 2030 تک مکمل طور پر ختم کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ اس منصوبے کے لیے تین سال کی مدت میں قریب 68 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جن میں قریب 34 ارب وفاقی حکومت، جب کہ 33.6 ارب صوبائی حکومتیں فراہم کر رہی ہیں۔

یہ منصوبے عوامی صحت کے مسائل کو حل کرنے اور بیرون ملک ملازمت کے مواقع کو محفوظ بنانے کے لیے اہم قدم ثابت ہو سکتے ہیں۔

تاہم ایک سینیئر اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ وفاقی حکومت کے اعلان کردہ بڑے پروگرام پر ابھی تک کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔

متعلقہ مضامین

  • کینسر سے بچا ئوکے عالمی دن پر وزیرِ اعظم شہباز شریف کا پیغام
  • وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کینسر کا سستا علاج یقینی بنانے کا اعادہ
  • دنیا بھر میں آج کینسر سے بچاؤ کا دن منایا جا رہا ہے
  • کینسر قابل علاج مرض، مناسب احتیاط سے بچاؤ ممکن ہے: مریم نواز
  • وزیرِ اعظم کا کینسر کا سستا علاج یقینی بنانے کا اعادہ
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج کینسر سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جا رہا ہے
  • کینسر سے بچاؤ کا عالمی دن؛ صدر و وزیر اعظم  کاموذی مرض کے خلاف آگہی پیدا کرنے اور کینسر سے لڑنے کا عزم
  • چین پر محصولات عائد کرنے سے “امریکی بیماری” کا علاج نہیں ہوگا، چینی میڈیا
  • ہیپاٹائٹس، بیرون ملک ملازمت کے خواہشمند پاکستانیوں کے لیے ایک خاموش رکاوٹ