پشاور ہائیکورٹ کے 10 نئے ایڈیشنل ججز نے حلف اٹھا لیا
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
پشاور ہائیکورٹ کے 10 نئے ایڈیشنل ججز نے حلف اٹھا لیا WhatsAppFacebookTwitter 0 4 February, 2025 سب نیوز
پشاور: پشاور ہائیکورٹ کے 10 نئے ایڈیشنل ججز نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا۔
تفصیلات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم نے نئے ایڈیشنل ججز سے حلف لیا، حلف برداری کی تقریب پشاور ہائیکورٹ میں منعقد ہوئی۔
جسٹس طارق آفریدی، جسٹس عبدالفیاض، جسٹس فرح جمشید، جسٹس انعام اللہ، جسٹس ثابت اللہ خان، جسٹس صلاح الدین،جسٹس صادق علی اورجسٹس مدثر امیر نے حلف اٹھایا، جسٹس اورنگزیب اور جسٹس قاضی جواد احسان بھی ایڈیشنل جج کا حلف اٹھانے والوں میں شامل ہیں۔
نئے ایڈیشنل ججز کے حلف لینے کے بعد پشاور ہائیکورٹ کے ججز کی تعداد 23 ہوگئی، جوڈیشل کمیشن نے پشاور ہائیکورٹ کیلئے 10 نئے ایڈیشنل ججز کی منظوری دی تھی۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: پشاور ہائیکورٹ کے نئے ایڈیشنل ججز
پڑھیں:
ججز کا خط اور عدلیہ کی آزادی
پاکستان میں اسوقت عدلیہ کی آزادی اور عدلیہ کے معاملات میں ایگزیکٹو کے عمل دخل پر بحث جاری ہے۔ یہ بحث عوام، میڈیا اور سوشل میڈیا سے ہوتی ہوئی اب ججز کے خطوط اور فیصلوں تک جا پہنچی ہے۔ سپریم کورٹ کے سینیئر پیونی جج (senior puisne) جسٹس منصور علی شاہ ہوں یا اسلام آباد ہائیکورٹ کے آدھے درجن کے قریب ججز سب کھل کر عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کے علاوہ آئین کی سربلندی کی یاددہانی کراتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان کو مختلف خطوط لکھ چکے اور چھبیسویں آئینی ترمیم اور ججز کی تعیناتی کے حوالے سے بھی اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہار کھلے عام کر چکے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو اس بات پر اعتراض ہے کہ دوسرے ہائیکورٹس سے جج لاکر ان میں سے کسی ایک کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس تعینات نہ کیا جائے کیونکہ یہ آئین کیساتھ فراڈ ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی ایک ہائیکورٹ کے جج کو کسی دوسرے ہائیکورٹ میں چیف جسٹس تعینات کیا گیا ہو؟ یا براہ راست کسی کو جج بنا کر اسے سیدھا چیف جسٹس تعینات کیا گیا ہو؟ ہمارے ملک میں ایسا انہونا واقعہ بھی ہوا ہے کہ ایک وزیر خارجہ کو استعفیٰ دلوا کر براہ راست ہائیکورٹ کا چیف جسٹس لگایا گیا۔
سابق ملٹری ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے دور میں منظور قادر بطور وزیر خارجہ کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ جنرل ایوب خان نے وزارت خارجہ سے انکو استعفیٰ دلوا کر چیف جسٹس ویسٹ پاکستان ہائیکورٹ (لاہور ہائیکورٹ) تعینات کردیا۔ منظور قادر صاحب عدلیہ اور وکلا برادری میں انتہائی احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ اس لیے جب ان کو براہ راست چیف جسٹس تعینات کیا گیا تو ویسٹ پاکستان ہائیکورٹ کے کسی بھی جج نے ان پر اعتراض نہ کیا۔ ویسے بھی ہماری تاریخ ایسی ہے کہ عدلیہ نے ہمیشہ ڈکٹیٹرز کو نظریہ ضرورت کے تحت آئینی کور دیا۔
جیسا کہ عرض کیا ہے کہ ہماری عدلیہ میں بے شمار انہونے واقعات ہوئے ہیں۔ ہائیکورٹس میں براہ راست چیف جسٹس لگانا تو ایک طرف یہاں تو سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کو ایک ہائیکورٹ کا چیف جسٹس لگا دیا گیا اور وہ بیک وقت دو عہدوں پر فائز رہے۔ لیکن مملکت خداد میں ہمیشہ سہاگن وہی جو پیا من بھائے۔ خود سے آئین کو موم کی ناک کی طرح جس طرف چاہے موڑ دیا جائے لیکن پارلیمنٹ اگر کوئی قانون سازی کرے تو وہ قابل قبول نہیں۔
بہر حال پچھلے دنوں جسٹس ارشاد حسن خان کا میڈیا پر خوب تذکرہ رہا اور آجکل اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی طرف سے ججوں کے تبادلے اور کسی دوسرے ہائیکورٹ کے جج کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس لگائے جانے کے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے تو موقع کی مناسبت سے مجھے ایک واقعہ یاد آگیا اور اس کے ساتھ ساتھ الجہاد ٹرسٹ کیس کا فیصلہ بھی جس میں اس واقعے سے جڑے کچھ حقائق بھی۔
ہوا کچھ یوں کہ لاہور ہائیکورٹ میں چیف جسٹس کا عہدہ خالی ہوا تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس عہدے پر روٹین کیمطابق چیف جسٹس کی تعیناتی کی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ایک فل ٹائم چیف جسٹس کے بجائے نگران (ایکٹنگ) چیف جسٹس لگادیا گیا۔ اس سے بھی ستم ظریفی یہ کہ سپریم کورٹ کے ایک حاضر سروس جج کو نگران چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ تعینات کیا گیا۔ جسٹس ارشاد حسن خان جو اس وقت سپریم کورٹ میں بطور جج فرائض سرانجام دے رہے تھے ان کو 1995 میں لاہور ہائیکورٹ کے نگران چیف جسٹس کا اضافی چارج بھی دے دیا گیا اور 1996 میں اس عہدے پر ایک ریگولر چیف جسٹس تعینات کیا گیا۔
یہ تو بھلا ہو الجہاد ٹرسٹ کیس کا جس کے بعد کچھ رولز سیٹ کردیے گئے کہ اگر اعلیٰ عدلیہ میں جج کی آسامی خالی ہو تو 30 دن کے اندر پُر کیا جانا لازمی ہے اور اگر کسی جج کی دوران سروس وفات ہو جائے یا کوئی مستعفی ہو جائے تو پھر اس آسامی پر 90 دنوں پر تعیناتی کرنا لازمی ہے۔ اگر یہ فیصلہ نہ آتا تو نہ جانے کب تک نگران چیف جسٹسز کا سلسلہ برقرار رہتا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے جو متفقہ طور پر خط چیف جسٹس سپریم کورٹ، سندھ اور لاہور ہائیکورٹس اور صدر مملکت کو لکھا ہے قانونی طور پر جو شخص بھی سروس آف پاکستان میں ہے مشترکہ نمائندگی کر ہی نہیں سکتا۔ گورنمنٹ سروسز کنڈکٹ رولز آف 1964 کیمطابق کوئی بھی شخص جو سروس آف پاکستان میں ہے ایک سے زیادہ لوگوں کیساتھ مل کر کسی معاملے پر اپنے تحفظات، خدشات کا اظہار نہیں کرسکتا۔ البتہ اکیلے اکیلے ان کے اظہار پر کوئی پابندی نہیں۔
سوال یہ بھی ہے کیا ہماری عدلیہ خود کو سروس آف پاکستان کے ماتحت مانتی ہے کہ نہیں؟ ابھی تک اس سوال کے جواب کا بھی تعین نہیں ہوسکا۔ یہ ایک لمبی بحث ہے۔ بہرحال اب تو ججز کے ان خطوط کا جواب بھی دے دیا گیا اور صدر مملکت نے لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائیکورٹ سے ایک ایک جج کا تبادلہ کرکے ان کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں تعینات کردیا ہے اور ججز کا خط غیر مؤثر ہوچکا ہے۔ اب تو جو ہونا تھا ہوچکا ہے لیکن ہمیں بھی اپنی اداؤں پر کچھ غور کرنا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عزیز درانی اسلام آباد ہائیکورٹ ججز خط صدر زرداری عزیز درانی