بانی پی ٹی آئی سے مشاورت کے بعد چیف الیکشن کمشنر کا نام دینگے: عمر ایوب
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب—فائل فوٹو
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا کہنا ہے کہ بانئ پی ٹی آئی سے حتمی مشاورت کے بعد چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کا نام دیں گے۔
’جیو نیوز‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر اور ممبران سے متعلق وزیرِ اعظم شہباز شریف سے کوئی مشاورت نہیں ہوئی۔
شہباز شریف میں قومی اسمبلی میں تقریر کی ہمت نہیں : عمر ایوبپاکستان تحریک انصاف کے عمر ایوب کا کہنا ہے کہ شہباز شریف میں ہمت نہیں ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں تقریر کریں۔
عمر ایوب کا کہنا ہے کہ آج رات یا کل چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کے حتمی ناموں پر اپوزیشن قیادت مشاورت کرے گی۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم کی جانب سے مکمل خاموشی ہے، ہم 4 یا 5 نام دیں گے جن سے متعلق مشاورت ہو رہی ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: چیف الیکشن کمشنر قومی اسمبلی میں کہنا ہے کہ عمر ایوب
پڑھیں:
سکندرہی راجا ہے
جسٹس ریٹائرڈ سردار رضا خان چیف الیکشن کمشنرتھے۔جناب عمران خان صاحب ملک کے وزیراعظم تھے، چیف الیکشن کمشنرسردار رضا خان کی مدت ملازمت 6دسمبر2019کوپوری ہونے والی تھی ۔نئے چیف کی تعیناتی کامسئلہ جنم لے رہا تھا ۔آج کے وزیراعظم شہبازشریف اس وقت اپوزیشن لیڈر تھے۔ آئین پاکستان میں درج چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے اٹھارویں ترمیم میں وضع کردہ طریقہ کار کے مطابق وزیراعظم کی اپوزیشن لیڈر سے بامعنی مشاورت کے نتیجے میں چیف الیکشن کمشنر نے تعینات ہونا تھا۔شہبازشریف نے اس تعیناتی کی مہم کو لیڈ کرنے کا فیصلہ کیا۔اپوزیشن لیڈر نے الیکشن کمیشن کو غیر فعال ہونے سے بچانے کے لیے ستمبر 2019میں ہی وزیراعظم سے مشاورت شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔ وزیراعظم عمران خان صاحب کے نزدیک اس طرح کے کام فضول شمار ہوتے تھے۔ وہ ایک پیج کے گھوڑے پر سوار کسی اپوزیشن لیڈر کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ شہباز شریف سے ملاقات تو درکنار بات تک کرنے کے روادارنہیں تھے لیکن تعیناتی کا طریقہ کار تو بہرحال بامعنی مشاورت ہی تھا جو آج بھی ہے۔
شہبازشریف کی مشاورتی کوششیں مسلسل اس وجہ سے ناکام ہورہی تھیں کہ جناب عمران خان اس موڈ میں تھے ہی نہیں کہ ’’شہبازشریف‘‘ سے مشاورت کرکے کسی کی تعیناتی کی جائے ۔وہ جنرل باجوہ کی قیادت میں خود کو اتنا طاقتور تصورکررہے تھے کہ ان کے نزدیک کسی اپوزیشن کا کوئی وجود ہی نہیں تھالیکن آئینی کام تو آئینی ہوتے ہیں ۔ستمبر گزرگیا،اکتوبر اور نومبر بھی اسی خط وکتابت میں گزرگیا۔اپوزیشن لیڈر کی طرف سے جو تین نام سامنے لائے گئے وہ عمران خان کو قابل قبول نہیں تھے تو عمران خان کے کسی نام پر شہبازشریف متفق نہیں تھے ۔مشاورت بھی آمنے سامنے کی نہیں بلکہ خط وکتابت پر مشتمل تھی ۔ایک خط آتا تو ہفتوں بعد جواب دینے کا سوچتے جناب وزیراعظم ۔اس مشاورتی عمل میں دسمبر آگیا ۔جسٹس سردار رضا خان ریٹائرڈ ہوکر گھر چلے گئے۔ ان کے ساتھ دو ارکان کی مدت ملازمت بھی ختم ہوگئی یوں وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ الیکشن کمیشن غیر فعال ہوگیا۔آئین کی رو سے الیکشن کمیشن چارصوبائی ارکان اور ایک چیف الیکشن کمشنر پر مشتمل ادارہ کہلاتا ہے ۔ان میں سے اگر کوئی ایک بھی عہدے پر موجود نہ ہو تو الیکشن کمیشن نامکمل اور غیر فعال ہوجاتا ہے۔الیکشن کمیشن 6دسمبر 2019کو غیرفعال ہوگیا لیکن عمران خان صاحب اس وقت اپوزیشن کو ’’نُکرے‘‘ لگانے اور دیواروں میں چنوانے میں مصروف تھے۔ ان کے سامنے احسن اقبال کو جیل میں ڈالنا تھا۔ مریم نوازکو باپ کے سامنے پکڑنا تھا۔رانا ثنا للہ پر ہیروئن ڈال کر اس کو جیل کی سیرکروانی تھی اور خواجہ آصف ،مفتاح اسماعیل اور شاہد خاقان عباسی جیسے لیگیوں کو سبق سکھانے کا اہم ٹاسک تھا اس لیے الیکشن کمیشن کے غیر فعال ہونے کا ان کو کوئی رنج تھا نہ اپنی ذمہ داری کا احساس۔
معاملہ جب ڈیڈلاک پر پہنچ گیا تو پھر ان کے مرشد نے ہی خان صاحب کو سمجھایاکہ جناب آپ وزیراعظم صرف اپوزیشن کا صفایا کرنے کے لیے ہی نہیں بنے بلکہ مملکت کے کچھ کام بھی کرنے ہوتے ہیں ۔اس کے بعد انہوں نے کچھ نرمی دکھائی اور ناموں میں کچھ تبدیلی کرکے شہبازشریف کو 18دسمبر 2019کو خط کا جواب دیا ۔اس بار آنے والے تین ناموں میں ایک نام موجودہ چیف الیکشن کمشنر جناب سکندر سلطان راجا کا بھی تھا۔یہ راجا اتفاق رائے کی کڑی بن گیا۔وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان یوں ’’بامعنی مشاورت‘‘ مکمل ہوئی۔نام پارلیمانی کمیٹی میں گئے اور انسانی حقوق کی وزیرشیریں مزاری نے قوم کو خوشخبری سنائی کہ کمیٹی نے جناب سکندرسلطان پر اتفاق کرلیا ہے۔اس نام پر سب کا اتفاق اس لیے بھی ہوگیا کہ سکندرسلطان ریلوے کے سیکریٹری کے طورپر کچھ ہی عرصہ پہلے ریٹائر ہوئے تھے، ریلوے کے وزیرشیخ رشید کو ان کا اعتماد اچھی طرح حاصل تھا۔ بطور بیوروکریٹ سکندر سلطان راجا ایک بااصول اور ایماندار افسر کی شہرت رکھتے تھے۔ پنجاب میں شہبازشریف کے ساتھ بھی کچھ عرصہ وہ بطور ایڈیشنل چیف سیکریٹری کام کرچکے تھے۔
چیف الیکشن کمشنر سرداررضا خان کی ریٹائرمنٹ کے ڈیڑھ ماہ بعد الیکشن کمیشن کو سربراہ میسر آیا ۔پھر دوارکان پر بھی اسی طرح کی مشاورت ہوتی رہی وہ تنازع بھی حل ہوا تو الیکشن کمیشن دوبارہ فعال ہوا۔ زندگی ارتقا سے گزرتی ہے۔ ضرورت کے مطابق قوانین بنتے ہیں آئینی ترامیم کی جاتی ہیں ۔الیکشن کمیشن کی اس غیرفعالیت سے بچنے کے لیے حکومت نے قانون سازی کردی کہ نئے سربراہ کی تعیناتی تک موجودہ سربراہ الیکشن کمیشن اپنے عہدے پر موجود رہے گا ۔اس وجہ سے سکندرسلطان راجا صاحب اپنے عہدے پر اس عبوری مدت کے لیے موجود ہیں کیونکہ آپ سب جانتے ہیں کہ اس وقت جو سیاسی ماحول ہے وہ عمران خان کے دور سے بھی زیادہ کشیدہ ہے ۔ اُس وقت تو عمران خان براہ راست سامنے تھے تو مشاورت کو چار ماہ لگ گئے تھے اب تو وہ سامنے بھی نہیں ہیں اور اپوزیشن لیڈر کسی سے بات کرنے کوتیار نہیں ہیں انہوں نے شہبازشریف کی طرح اس عمل کاآغاز بھی نہیں کیا ہے کہ وہ عمران خان کی اجازت کے بغیر کسی ایک نام کا پہلا حرف بھی کسی کو دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ عمران خان جنہوں نے مذاکرات ختم کردیے ہیں وہ الیکشن کمیشن کے لیے کسی نام پر اتفاق کرلیں یہ ممکنات میں سے ہی نہیں ہے اس لیے ’’بامعنی مشاورت‘‘ کسی نئے نام پر اتفاق تک سکندر سلطان راجا ہی عہدے پر رہیں گے تاکہ الیکشن کمیشن فعال رکھا جائے ۔
پی ٹی آئی کی طرف سے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف مہم چلانا بے اثر بھی ہے اور بے معنی بھی ۔بس سوشل میڈیا کی حد تک گند اچھالا جاسکتا ہے کہ وہ تو پہلے ہی مشن جاری ہے اس سے کسی کی صحت پر کیا اثر ہوسکتا ہے اصل کام نئے سربراہ پر اتفاق رائے ہے جب تک پی ٹی آئی اس طرف نہیں آتی بات آگے نہیں بڑھے گی ۔اگر آج مشاورت شروع کریں پھر بھی پرانے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے دوتین ماہ تو لگ ہی جائیں گے اس وقت تک سکندرہی راجا ہیں ۔
پی ٹی آئی کو راجا صاحب کو گھر بھیجنے کی جلدی کبھی نہ ہوتی اگر راجا صاحب ڈسکہ الیکشن میں دھند کو تسلیم کرلیتے ۔وہ الیکشن ملہی صاحب اور پی ٹی آئی کو جتوادیتے لیکن راجا صاحب نے اصولوں پر سودانہ کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ صرف برے ہی نہیں بلکہ آرٹیکل چھ کے مستحق ہوگئے؟جن کو آج جلد ی ہے ان کے لیے ایک انہی کی حکومت سے مثال پیش خدمت ہے ۔جناب عمران خان صاحب نے آرڈیننس کے ذریعے چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کو ریٹائر ہونے سے روک کر غیرمعینہ مدت تک توسیع دے دی تھی تاکہ کسی سے مشاورت نہ کرنی پڑے!