سیاسی عدم استحکام کے باعث ملک پیچھے کی طرف جارہا ہے: شبلی فراز
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) رہنما تحریک انصاف و سابق وفاقی وزیر شبلی فراز نے کہا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک رکا اور پیچھے کی طرف جارہا ہے۔
انسداد دہشت گردی عدالت پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ملک میں ڈھائی سال سے عدم استحکام برپا ہے، اس عدم استحکام کی وجہ سے ملک رکا ہوا ہے ، ملک کو کوئی بھی سسٹم آگے لے جاسکتا ہے تو صرف جمہوریت ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوام کے مینڈیٹ کو چرایا نہ جائے، سیاسی کیسز کا مقصد لیڈرشپ اور ورکروں کو ہراساں کرنا ہے ،عمران خان ملک کی سب سے بڑی جماعت کے لیڈر ہیں اور بانی پی ٹی آئی ملکی صورتحال پر پریشان ہیں۔
شبلی فراز کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کو ملک کی فکر ہے، بانی کو حکومت کے منفی اقدامات اور دہشت گردی کے واقعات پر بھی تشویش ہے، اس سب کا نزلہ سکیورٹی اداروں پر گررہا ہے، عوامی حمایت کے بغیر فوج اقدامات نہیں کرتی۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے آرمی چیف کو خط لکھا کیونکہ وہ قومی لیڈر کے طور پر پریشان ہیں انکو ملک کی فکر ہے، بانی پی ٹی آئی نے خط میں ملکی صورتحال کا پورا جائزہ دیا ہے جب معاملات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں پھر خاموش رہنا ٹھیک نہیں ہوتا۔
ضمانت میں توسیع
علاوہ ازیں انسداد دہشت گردی عدالت نے سپریم کورٹ کے باہر احتجاج کے معاملے پر درج مقدمہ میں شبلی فراز ،لطیف کھوسہ ،سردار محمد مصروف، نیاز اللہ نیازی و دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کی عبوری ضمانت میں توسیع کردی۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: عدم استحکام شبلی فراز پی ٹی آئی
پڑھیں:
فورسز پرحملوں کے پیچھے ملک دشمن ایجنسیاں ہیں،ضیا اللہ لانگو
اسلام آباد:سابق وزیر داخلہ بلوچستان ضیا اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے دو محرکات ہیں، ایک تو یہ ہے کہ جو ہمارے دشمن ممالک ہیں، دشمن ممالک کی ایجنسیاں ایسے عناصر کی سپورٹ کرتی ہیں اور ان کو ہر طرح کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے، دوسری بات بحیثیت ایک قوم ہم اپنی سیکیورٹی فورسز کیساتھ کھڑے نہیں ہوتے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال پرانھوں نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے پیچھے ملک دشمن ا یجنسیاں ہیں انھوں نے ایک ایسا ماحول بنایا ہے کہ ہمارے کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر ان کے ذریعے ہمارے نوجوان طلبا کو لٹریچر کے ذریعے کچھ اور باتوں کے ذریعے ورغلایا گیا ہے۔
سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا مذاکرات کا عمل ختم تو نہیں ہوگا،دوبارہ شروع ہو جائے گا،صرف پرابلم یہ آ رہی ہے کہ اس وقت تک حکومت کے پاس اسپیس نظر نہیں آ رہی جب تک مذاکراتی کمیٹی عمران خان سے ملاقات ہی نہیں کر سکتی تو وہ آگے آ کر مذاکرات میں کیا بیٹھے گی؟، پرائمری پرابلم از گورنمنٹ کو اسٹیبلشمنٹ سے بالکل بھی اسپیس نہیں مل رہی،میں پہلے دن سے یہ بات کر رہا ہوں کہ ہمیں گرینڈ پولیٹیکل ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جس میں سیاسی جماعتیں بھی شامل ہوں اور اسٹیبلشمنٹ بھی شامل ہو۔
کورٹ رپورٹر ایکسپریس جہانزیب عباسی نے کہاکہ عدالتی تاریخ میں ایسی مثالیں تو ہیں جن میں ججوں کو ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ منتقل کیا گیا ہے،آرٹیکل 200میں صدر کا یہ اختیار ہے اور آئین نے یہ اختیار دیا ہوا ہے کہ ایک جج کو ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے۔
اب اس معاملے پر ججوں نے خط کے ذریعے جن خدشات کا اظہار کیا ہے اس حوالے سے مناسب ہوتا کہ کوئی پیپر ورک یا ڈاکیومنٹ ہوتا اور اس کی بنیاد پر بات کی جاتی تو وہ زیادہ مناسب تھا، خط میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحیحٰی آفریدی کو بھی ایڈریس کیا گیا ہے، یہ ایشو ہوایوں ہے کہ 10 فروری کو سپریم کورٹ میں 8 ججوں کی تعیناتی کیلیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلایا گیا ہے، ان میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کا بھی نام ہے۔
ماہر قانون حافظ احسان احمد نے کہا 1973 کے آئین کے اندر جو آرٹیکل 200 دیا گیا ہے یہ پاکستان کے چند آرٹیکلز میں سے ایک آرٹیکل ہے جو 1973 سے لیکر2024 تک ان ٹیکٹ ہے اور اس کی جو اوریجنل لینگویج ہے جو1973کے آئین میں تھی اور ابھی تک چلتی آ رہی ہے، کسی ترمیم میں بھی اس کو نہیں چھیڑا گیا۔
یہ آرٹیکل جو پاکستان کے پانچ لوگ جو کونسٹیٹیوشنل آفس ہولڈرز ہیں ان کے متعلق یہ بات کرتا ہے کہ جب پاکستان کا پریذیڈنٹ، اس ملک کا چیف جسٹس، وہ جج جس نے ٹرانسفر ہونا ہے اور اس کے بعد دو چیف جسٹسز جہاں سے آنا ہے یا جس جگہ جانا ہے اگر وہ سارے اس معاملے میں اگر اپنی کونسینٹ دیتے ہیں تو اس جج کو دوسرے ہائیکورٹ کے اندر ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے،یہ بڑا ایک ڈیٹیلڈ پراسیس ہے۔