یوم یک جہتی کشمیر… محض خانہ پُری
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
پچھلی صدی کے نوے کے عشرے کے ابتدائی برسوں سے کشمیریوں سے اظہارِ یک جہتی کے لیے ہر سال پانچ فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب جب یوم یک جہتی کشمیر مناتے ہوئے تین عشروں سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے تو ایسے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا روایتی جوش و جذبہ اور مظلوم کشمیریوں سے یک جہتی کا مظاہر ہ ہی مفقود نہیں ہو چکا ہے بلکہ یومِ یک جہتی کشمیر منانا بھی محض خانہ پوری یا ایک طرح کی رسمی کارروائی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اسے المیہ ہی سمجھا جا سکتا ہے کہ کشمیر جسے بانی پاکستان حضرت قائدِ اعظم نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور مسئلہ کشمیر جس کے بارے میں قوموں کے لیے حق خود ارادیت کے حصول کے مطالبے پر مبنی ہمارا موقف ہر لحاظ سے جائز اور صحیح ہے، اسے ہم نے جہاں زیب طاق نسیاں کر رکھا ہے وہاں اس کے بارے میں ہر سطح پر خواہ وہ حکومتی سطح ہو، قومی اور عوامی سطح ہو یا ابلاغِ عامہ کی سطح ہو ، غرضیکہ ہر سطح پر ہماری بے حسی ، بے رخی اور بے نیازی نمایاں ہو کر سامنے آ رہی ہے۔
برصغیر جنوبی ایشیا میں انگریزی راج سے آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو کشمیر ی مسلمانوں میں بھی ہندو ڈوگرہ راجا کی حکمرانی سے نجات پانے اور اپنے حقوق حاصل کرنے کی تحریک بھی شروع ہو گئی۔ مارچ 1931ء میں سری نگر میںڈوگرہ راج کے خلاف مسلمان مظاہرین کو نشانہ بنایا گیا تو پورے کشمیر میں مسلمان احتجاج کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ مارچ 1940 ء میں لاہور میں قرار داد پاکستان کی منظوری کے چار ماہ بعد جولائی 1940ء میں کشمیری مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے کشمیر کی آزادی کے لئے باقاعدہ قرار داد منظور کی اور اپنے قائد احرار ملت چودھری غلام عباس مرحوم کی قیادت میں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کو اپنی منزل قرار دیا۔ 3 جون 1947ء کو تقسیمِ ہند کے منصوبے کا اعلان ہوا جس میں ہندوستان کی نیم خو د مختار ریاستوں کو جو براہِ راست تاجِ برطانیہ کے ماتحت تھیں یہ حق دیا گیا کہ وہ اپنے جغرافیائی محل وقوع اور اپنے عوام کی خواہشات کا خیال رکھتے ہوئے بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر سکیں گی یا اپنی نیم خود مختار حیثیت برقرار رکھ سکیں گی۔
14 اگست 1947ء کو ہندوستان میں دو آزاد مملکتوں پاکستان اوربھارت کے وجود میں آنے کے بعد کشمیرکے پاکستان سے الحاق کے کشمیری مسلمانوں کے مطالبے میں اور شدت آگئی اور پورے کشمیر میں مسلمان اس مطالبے کے حق میں ڈوگرہ راج کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ پاکستان سے ملحقہ کشمیر کے علاقوں کو ڈوگرہ راج سے آزاد کرا لیا گیا اور 24 اکتوبر 1947 ء کوآزاد کشمیر حکومت کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔ ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ شروع میں کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کے حق میں بھی نہیں تھا لیکن بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو ،گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن اور بھارتی وزیر داخلہ سردار پٹیل کے دبائو پر اس نے 26 اکتوبر 1947ء کو کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ اور اسکے ساتھ ہی بھارتی فوجیں جو پہلے خفیہ طور پر ڈوگرہ مہاراجہ کی حمایت کے لئے کشمیر میں موجود تھیں اب کھلم کھلا مسلمان مجاہدین کوکچلنے کے لیے حرکت میں آگئیں۔پاکستان کو بھی اپنے فوجی دستے کشمیر میں بھیجنے پڑے یکم جنوری 1948ء کو بھارت کشمیر کا تنازع اقوام متحدہ میں لے گیا ۔اقوام متحدہ کی کوششوں سے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی ہو گئی اورطے پایا کہ کشمیری حقِ خود ارادیت کے تحت اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہونگے اورآزادانہ استصوابِ رائے کے ذریعے پاکستان یا بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہیں الحاق کر سکیں گے۔ بھارت شروع میں اقوام متحدہ کی قرادادوں پر عمل درآمد کرنے کی یقین دہانیاں کراتا رہا لیکن بعدمیں وہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دے کر ان قراردادوں سے منحرف ہو گیا۔
مسئلہ کشمیر کے اس پس منظر اور پیش منظر اور معروضی حالات و واقعات کے تذکرے سے یقینا اس مسئلے کی نوعیت کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ لیکن سچی بات ہے کہ یہ سب نصابی باتیں ہیں اس وقت عملاً صورت حال یہ ہے کہ ہم ایکطرح کے LOOSER (نقصان اُٹھانے والے) اور بھارت WINNER بنا ہوا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس کی جیت کو ہار میں کیسے تبدیل کر سکتے ہیں۔ورنہ برسرِ زمین حقیقت یہی ہے کہ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اور عالمی رائے عامہ بھارت کے اس موقف کو رد کرنے کے لیے تیار نہیں۔جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل در آمد ہو اور کشمیریوں کو حق خودارادیت کے تحت آزادانہ رائے شماری کا حق ملے اور وہ پاکستان یا بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہیں الحاق کرنیکا فیصلہ کرلیں۔ دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عالمی رائے عامہ دن بدن ہمارے اس موقف کا جو ہر لحاظ سے جائز اور مبنی بر حقائق اور انصاف ہے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہم کشمیر کے مسئلے پر کئی برادراسلامی ممالک کی مصلحت آمیز پالیسیوں کی وجہ سے اُن کی کھلم کھلا حمایت سے ہی محروم نہیں ہو چکے ہیں بلک بڑی عالمی طاقتوں میں سے بھی کوئی مسئلہ کشمیر پر ہمارے موقف کی کھلم کھلا تائید کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اسے المیہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے یا ا سے کشمیریوںکی بد نصیبی اور بد قسمتی کا نام دیا جا سکتا ہے کہ سات عشروں سے جاری اُن کی جدوجہدِ آزادی قربانیوں اور ناکامیوں کی ایسی داستان بنی ہوئی ہے جس کی قوموں کی تاریخ میں مثال ملنا مشکل ہے۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی قربانیاں ہو سکتی ہیں کہ ایک خطہِ ارض پر بسنے والے لاکھوں افراد اپنے اوپر مسلط کی جانے والی غلامی اور جبر و استبداد کے خلاف اتنے طویل عرصے سے برسر پیکار ہوں، لاکھوں افراداپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہوں بستیوں اور آبادیوں کے قبرستان شہیدوں کی قبروں سے بھرے پڑے ہوں، ظلم وستم اور جبرو استبداد کا بازار گرم ہو اوراسکے خلاف ہڑتالیں احتجاجی مظاہرے، خونریز ہنگامے اور جلسے جلوس روز کامعمول بنے ہوئے ہوں لیکن پھر بھی اس خطہ ارض پر بسنے والے آزادی، خودمختاری اور اپنی منزل مقصود کو پانے سے محروم ہوں۔ یہ خطہ ارض جنت نظیر کشمیر ہے جو گزشتہ تقریباً سات دہائیوں سے اس المناک صورت حال سے دوچار ہے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: کے ساتھ الحاق اقوام متحدہ جہتی کشمیر ڈوگرہ راج کشمیر کے بھارت کے ہے کہ ہم کے خلاف یک جہتی کے لیے
پڑھیں:
جماعت اسلامی کا مظفر آباد میں کشمیر مارچ، مسلمان ملکوں سے بھارت کے بائیکاٹ کا مطالبہ
مظفر آباد (نامہ نگار+نوائے وقت رپورٹ) مظفر آباد میں ہونے والے کشمیر مارچ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ مقررین نے کہا کہ یو این چارٹر مزاحمت کا حق دیتا ہے۔ کشمیری نوجوانوں کو فوجی تربیت دیں گے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری انوار الحق نے جماعت اسلامی کے زیراہتمام کشمیر مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی حکومت ساری انسانیت کیلئے خطرہ بن چکی ہے۔ ہمیں تحریک آزادی کشمیر پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ کشمیر کے بیٹے مودی اور اس کی فوج سے ٹکرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آزادی کی بقاء کیلئے نوجوان دفاع کی تعلیم و تربیت حاصل کریں۔ ایل او سی پر پاک فوج نے اپنا لہو دے کر خطے کی آزادی کو قائم رکھا ہوا ہے۔ اکیسویں صدی میں جنگ سرحدوں کی نہیں‘ بیانیہ پر چل رہی ہے۔ ہمیں ایک متفقہ بیانیہ بنانا ہے آزادی ہی ہماری منزل ہے۔ مظفرآباد کے آزادی چوک میں کشمیر مارچ میں مختلف علاقوں سے خواتین سمیت ہزاروں شہریوں نے شرکت کی۔ شرکاء نے جھنڈے اٹھا کر کشمیری عوام سے اظہار یکجتی کرتے ہوئے نعرہ بازی کی۔ سٹیج پر موجود قائدین نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ پاکستان کے 25 کروڑ لوگ کشمیریوں کی پشت پر کھڑے ہیں اور کشمیریوں کو آزادی ملے گی۔ ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ یہ بانی پاکستان نے کہا ہے۔ تحریک آزادی دراصل تحریک پاکستان کا تسلسل ہے، تکمیل پاکستان کی تحریک ہے۔ ہندوستان کی دس لاکھ فوج جنگی جرائم کے مرتکب ہورہی ہے۔گزشتہ عرصہ میں سیاست پر کنٹرول رکھنے والوں نے مایوس کیا ہے۔ حکمرانوں کی کوتاہی کی وجہ سے کشمیری عوام مایوس نہ ہوں۔ ہم پاکستان کے عوام مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ ہیں۔ یہ جغرافیہ کی نہیں نظریے کی لڑائی ہے۔ پاکستان جہاد سے آزاد ہوا تھا۔ کشمیر کے لوگو! ہم اس چوک سے نیا رخ دینے کا اعلان کررہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کیا جارہا ہے۔ پاکستانی جرنیل آگے بڑھیں، آزادی حاصل کریں۔ ہندوستان صرف جہاد کی زبان سمجھتا ہے۔ کشمیر بزور شمشیر آزاد ہو گا۔ جماعت اسلامی آزاد کشمیر گلگت بلتستان کے امیر ڈاکٹر محمد مشتاق خان نے کہا کہ کشمیری شہادتوں کے لیے تیار ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر 77 سالوں سے جاری اور اپنی منزل کی طرف رواں ہے۔ جدوجہد میں شامل جتنے مرد و زن ہیں نہ تھکے ہیں نہ جھکے ہیں نہ بکے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کا واحد حل ہمہ گیر جہاد ہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا بچہ بچہ جہاد کرے گا۔ یہ ہمارے اسلاف کی سنت ہے۔ مودی کو پیغام دیتا ہوں کہ تمہارے سارے اقدامات کی مذمت کرتے ہیں۔ کنوینر کل جماعتی حریت کانفرنس غلام محمد صفی نے کہا کہ پاکستان اپنی شہ رگ بچانے کے لیے کردار ادا کرے۔ قاضی حسین احمد اپنے عہد پر قائم رہے اور کشمیری بھی اپنے عہد پر قائم ہیں۔ مارچ سے خطاب کرتے ہوئے فیصل ممتاز راٹھور نے کہا سالار نعیم الرحمان کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم مسئلہ کشمیر پر ایک ہیں۔ مسئلہ کشمیر برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے، اسے جلد حل ہونا چاہیے۔ عزیز غزالی نے کہا کہ فلسطین اور کشمیر کے ساتھ مارچ کرنے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ فلسطین اور کشمیر کی آزادی تک جماعت اسلامی ساتھ رہے گی۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل وزیر حکومت فیصل ممتاز راٹھور، لبریشن فرنٹ کے رہنما راجہ عبدالقیوم، سیکرٹری جنرل کل جماعتی حریت کانفرنس پرویز احمد ایڈووکیٹ، جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر شیخ عقیل الرحمان، سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی آزاد کشمیر راجہ جہانگیر خان، ڈپٹی سیکرٹری جنرل قاضی شاہد حمید ایڈووکیٹ، امیر ضلع راجہ آفتاب احمد، جاوید احمد کار، حبیب الرحمان آفاقی، طاہر اسلام نے بھی خطاب کیا۔ مارچ کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ یہ اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ طلبہ وطالبات کے لیے این سی سی کی لازمی تربیت فوری بحال کی جائے اور یکسوئی کے ساتھ پوری قوم کو تحریک آزادی کشمیر کا پشتیبان بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ تمام اسلامی ممالک بھارت کا سیاسی‘ معاشی‘ سفارتی بائیکاٹ کریں۔