پیکا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے لئے نہیں
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
پیکاایکٹ پر صدر مملکت نے دستخط کر دیئے ہیں جس کے بعد یہ قانون کا حصہ بن گیا ہے۔ ایسے میں صحافیوں نے اس پر احتجاج ریکارڈ کرایا ہے اور اس ایکٹ پر تحفظات کا اظہار کیاہے۔ جہاں صحافی برادری اس ایکٹ کے خلاف آوازیں اٹھا رہی ہے وہیں چند عناصر گمراہ کن پراپیگنڈا پر اتر آئے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اظہار رائے کی آزادی ہر فرد ، جماعت اور گروہ کا حق ہے۔ آئین پاکستان اس کی مکمل آزادی دیتا ہے مگر ریاست اور ریاست کے مفادات کا تحفظ سب سے بڑھ کررہا ہے بالخصوص بے لگام سوشل میڈیا کو صحافتی اصول سکھانا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پیکا ایکٹ پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے لئے ہے ہی نہیں۔ پیکا ایکٹ میں کی گئی ترامیم کا مقصد فیک نیوز اور جھوٹے پروپیگنڈا کے بڑھتے ہوئے مسئلے کا تدارک کرنا ہے، جو کہ نہ صرف معاشرے میں افراتفری ، انتشار پھیلاتا ہے بلکہ اکثر فیک نیوز اور جھوٹی خبریں ملک و قوم کے لیے سنگین نتائج کا سبب بھی بنتی ہیں۔ فیک نیوز کے ذریعے بے بنیاد اور من گھڑت خبریں پھیلانا ملک کے تشخص اور استحکام کو نقصان پہنچاتا ہے اور اس سے عوام میں بے اعتمادی اور تنازعات بڑھتے ہیں۔ آج کل مصنوعی ذہانت (AI) کی بڑھتی ہوئی استعمال کی وجہ سے فیک ویڈیوز اور آڈیوز کا پھیلنا زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ یہ تمام مسائل حکومتی سطح پر سنجیدہ اقدامات اور جھوٹ کے پھیلائو کو روکنے کے لئے سخت قوانین کی اشد ضرورت کے متقاضی تھے۔ الیکٹرانک جرائم کی روک تھام (ترمیمی) ایکٹ کا مقصد ڈیجیٹل سکیورٹی اور قانونی اظہار کو یقینی بناتے ہوئے پاکستان کے سائبر قوانین کو عالمی بہترین طریقوں سے ہم آہنگ کرتا ہے۔ سخت نگرانی اور قوانین کے نفاذ کے ذریعے، یہ ایکٹ پاکستان کی سائبر پالیسیوں کو مضبوط کرتا ہے تاکہ غلط معلومات اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کو روکا جا سکے۔پیکا ایکٹ ترامیم اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پھیلنے والی فیک نیوز کو قانون کی عملداری سے روکا جا سکے۔ اس ایکٹ میں سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (SMPRA) کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی نگرانی کرے گی اور ان پر قوانین کے نفاذ کو یقینی بنائے گی۔ یہ اتھارٹی غیر قانونی مواد کی شناخت کرکے سوشل میڈیا سے جھوٹا اور بے بنیاد منفی پروپیگنڈے کی روک تھام اور ایسامواد ہٹانے کے لئے اہم اقدامات کرے گی تاکہ عوام کو گمراہ کرنے والی معلومات کا پھیلاؤ روکا جا سکے۔اس کے ساتھ ساتھ کمپلینٹ کونسل کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے تاکہ جھوٹ پر مبنی مواد کے خلاف درج شکایات کا ازالہ کیا جا سکے۔ اسی طرح اس ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل قائم کیا گیا ہے، جو سائبر کرائم سے متعلق اہم مقدمات کا فیصلہ کرے گا اور فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ، نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی (NCCIA) کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا، جو وفاقی تحقیقاتی ادارہ (FIA) کے سائبر کرائم ونگ کی جگہ لے گی۔ NCCIA کو وسیع تفتیشی اختیارات دیئے جائیں گے تاکہ وہ سائبر کرائمز کی موثر تحقیقات کر سکے اور مجرموں کو سزا دلوانے میں کردار ادا کر سکیں۔پیکا ایکٹ کی ترامیم میں یہ بات بھی شامل کی گئی ہے کہ اگر کسی کے ساتھ ناانصافی ہو تو اسے اپیل کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ اس سے شہریوں کو انصاف حاصل کرنے کا موقع ملے گا اور اگر کسی کے خلاف غلط فیصلہ صادر ہو تو وہ عدالت میں اپنے حقوق کی حفاظت کر سکے گا۔ دْنیا بھر میں ریگولیٹری اتھارٹیز کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مثال کے طور پر برطانیہ میں آفس آف کمیونیکیشنز، جسے عام طور پر آف کام کہا جاتا ہے نشریات، ٹیلی کمیونیکیشنز اور پوسٹل انڈسٹریز کے لیے حکومت سے منظور شدہ ریگولیٹری اور مسابقتی اتھارٹی ہے۔ آف کام برطانیہ میں سوشل میڈیا اور آلات کے استعمال کی نگرانی کرتا ہے۔براڈکاسٹ میڈیا، ٹیلی کمیونیکیشن، اور پوسٹل سروسز بھی آف کام کے ذریعے ریگولیٹ ہوتے ہیں۔امریکہ میں بھی عوامی نشریاتی اداروں پر ضابطے موجود ہیں جیسا کہ فیڈرل کمیونکیشن کمیشن (ایف سی سی) جو غیر مہذب مواد کی نشریات کو روکنے کے لئے کام کرتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کا اس ترامیم کی حمایت کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے اس طرح کے اقدامات کرتی ہیں۔ ان ترامیم کا مقصد آزادی اظہار کو دبانا نہیں، بلکہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ عوامی رائے کو گمراہ کن اور جھوٹے پروپیگنڈے سے بچایا جائے۔ بعض عناصر کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ فیک نیوز پھیلانے کا اپنا کاروبار جاری رکھ سکیں اور ریاستی اداروں کو بدنام کر کے اپنے سیاسی فائدے حاصل کر سکیں۔ یہ ترامیم ایک مثبت قدم ہے جو نہ صرف عوام کو سچائی فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے بلکہ ملک کے استحکام اور ترقی کے لیے بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس کے ذریعے ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جو معلومات کی صحت اور درستی کو اہمیت دے اور جہاں جھوٹ کو شکست دی جا سکے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ملک کا مین سٹریم میڈیا اس سے کیسے متاثر ہوگا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ پیکا لاء مین سٹریم میڈیا اور مین سٹریم صحافیوں کو مضبوط کریگا۔ جس میں لاء کے مطابق ڈیجیٹل میڈیا اتھارٹی، کونسل آف کمپلینٹ اور ٹربیونل میں زیادہ تر صحافی اور پرائیویٹ لوگ شامل ہیں جس سے اس قانون کی شفافیت کا پتہ چلتا ہے۔ لہٰذا اس قانون کا مقصد سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنا ہے نہ کہ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا، کیونکہ وہ پہلے ہی پیمرا قانون کے تحت چلتا ہے اس پر پیکا لاء لاگو نہیں ہوتا۔ ابھی اس لاء کے رولز بننے باقی ہیں جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے اس لاء کے رولز پر تمام حلقوں سے بات چیت بھی جاری رہے گی اور صحافتی اداروں اور مین سٹریم کی مشاورت سے سوشل میڈیا کی ریگولیشن کے معاملے پر آگے بڑھا جائے گا۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا پیکا ایکٹ فیک نیوز کے ذریعے کو یقینی کرتا ہے کا مقصد اس ایکٹ کے خلاف جا سکے گیا ہے کے لیے کے لئے
پڑھیں:
پیکا ایکٹ کا مقصد فیک نیوز کا خاتمہ، سوشل میڈیا کے خطرات کا تدارک کرنا ہے: عطاءاللہ تارڑ
ویب ڈیسک : وفاقی وزیراطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ پیکا ایکٹ کا مقصد فیک نیوز کا خاتمہ اور سوشل میڈیا کے خطرات کا تدارک کرنا ہے۔
لاہور میں اے پی پی ایمپلائز یونین پنجاب کی تقریب حلف برداری سے خطاب میں وزیراطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ پیکا ایکٹ میں دنیا کے بہترین طریقوں کو اپنایا گیا ہے۔ سوشل میڈیا کے خطرات کو روکنے کے لیے یہ ایک اچھا اقدام ہے۔ پیکا ایکٹ کا مقصد فیک نیوز کا خاتمہ اور سوشل میڈیا کے خطرات کا تدارک کرنا ہے۔
انسداد اسمگلنگ کارروائیوں میں 2 کروڑ سے زائد مالیت کی منشیات برآمد
عطا اللہ تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ صحافت کی آڑ میں سوشل میڈیا کو مادر پدر آزاد نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس ایکٹ میں کوئی متنازع شق ہے تو سامنے لائی جائے ہم اس پر بات کرنے کے لئے تیار ہیں۔ جلد ڈیجیٹل میڈیا پروٹیکشن اتھارٹی میں نجی شعبے سے نامزدگیاں کی جائیں گی۔ پریس کلب یا صحافتی تنظیموں سے منسلک صحافیوں کو اس میں شامل کیا جائے گا۔
وزیراطلاعات نے مزید کہا کہ اداروں کے ملازمین قومی اثاثہ ہیں، ملازمین کی محنت، لگن اور مہارتیں ہی ادارے کی کامیابی کی بنیاد ہوتی ہیں۔کرپشن نے اداروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ حکومت اداروں کی بہتری اور انہیں منافع بخش بنانے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔وزارت اطلاعات کے ماتحت اداروں کو منافع بخش بنانے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ صحافیوں کو درپیش مسائل کا حل اولین ترجیح ہے۔
7 فروری تک والٹن روڈ کی تکمیل،وزیراعلی نے ڈیڈلائن دیدی
انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان اور اے پی پی قومی ادارے ہیں جو عوام کو معلومات کی فراہمی کی بنیادی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ملکی نظریاتی سرحدوں کے محافظ بھی ہیں۔ موجودہ دور جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ہمیں دنیا کا مقابلہ کرنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کو اپنانا ہوگا۔
Ansa Awais Content Writer