Nai Baat:
2025-02-04@06:42:18 GMT

پرویزمشرف سے ڈونلڈ ٹرمپ تک!

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

پرویزمشرف سے ڈونلڈ ٹرمپ تک!

تحریکِ انصاف جس بے تابی کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آئی تھی، اُسی شتابی کے ساتھ رُخصت ہوگئی۔ 23 دسمبر کو شروع ہونے والا سلسلۂِ مذاکرات، تین نشستوں کے بعد 23 جنوری کو ختم ہوگیا۔ کبھی کرکٹ کے ایک بے ہُنر کھلاڑی کے بارے میں لطیفہ نما سی حکایت سُنا کرتے تھے۔ وہ اپنی باری آنے پر بلّا اٹھائے میدان میں اُترنے لگتا تو سُلگتا ہوا سگریٹ منہ سے نکال کر کسی دوسرے کھلاڑی کو تھماتے ہوئے کہتا ’’ذرا پکڑ، میں ابھی آیا۔‘‘ بالعموم وہ پہلی یا دوسری گینڈ پر آئوٹ ہوکر پویلین کو لوٹتا اور دوست سے اپنا اَدھ جَلا سگریٹ واپس لے کر کش لگانے لگتا۔ پی۔ٹی۔آئی کا بھی پارلیمنٹ کے ’’کانسٹی ٹیوشن روم‘‘ میں مذاکرات کی میز پر آنے اور جانے کا عالم کچھ ایسا ہی تھا۔
بلاشبہ پی۔ٹی۔آئی کے لئے برسوں پر محیط اپنے بیانیے سے انحراف کرتے ہوئے ’’چوروں، ڈاکوئوں، لٹیروں اور ناپاک‘‘ لوگوں سے ہاتھ ملانا اور سلام دُعا کرنا کوئی آسان مرحلہ نہ تھا۔ وہ یہ کڑوا گھونٹ پینے پہ کیوں مجبور ہوئی؟ عمران خان نے دِل پر بھاری پتھر رکھ کر کوچۂِ رقیب میں سَر کے بل جانے کا فیصلہ کیوں کیا؟ یہ بات کوئی معمّہ نہیں رہی۔ مارچ 2022 میں امریکی سائفر لہرانے سے، نومبر2024 میں اسلام آباد پر لشکر کشی کی’’ فائنل کال‘‘ تک، پونے تین برس پر محیط بے سمت مہم جُوئی کا نتیجہ صرف یہ نکلا کہ پی۔ٹی۔آئی مشکلات کی دلدل میں دھنستی چلی گئی اور اُسے درپیش مسائل کا جنگل گھنا ہوتا گیا۔

’’فائنل کال‘‘ کی شرمناک ہزیمت کے بعد، بے حکمتی، بے تدبیری اور بے ہنری کی بے ثمری سے جنم لیتی اعصاب زَدگی کے کسی اذیت ناک لمحے میں عمران خان نے اڈیالہ جیل سے حکم جاری کیاکہ ’’جائو، حکومت سے مذاکرات کرکے کوئی دروازہ کھولنے کی کوشش کرو۔‘‘ زبان وبیان کے ہُنر میں طاق پی۔ٹی۔آئی راہنمائوں میں سے کسی نے نہ کہا کہ ’’سَر! اِس سے ساتھ تو ہمارا چوتھائی صدی پر محیط بیانیہ فنا ہوجائے گا۔ ہم کہیں کے نہ رہیں گے۔‘‘دست بستہ مریدانِ خاص نے لب بَستگی شعار کی اور گردنیں جھکا دیں۔ اڈیالہ جیل سے جاری اعلان کے مطابق ایک مذاکراتی کمیٹی تشکیل پاگئی۔ کمیٹی نے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے پے درپے رابطے کئے۔ سپیکر نے وزیراعظم سے بات کی۔ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں پر مشتمل 10 رُکنی کمیٹی تشکیل پا گئی۔ پی۔ ٹی۔ آئی نے صرف صاحبزادہ حامد رضا اور علامہ ناصر عباس کو اپنی کمیٹی کی زینت بنایا ۔اپوزیشن کی دیگر تمام چھوٹی بڑی جماعتوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ یہ وہی جماعتیں ہیں ، پی۔ٹی۔آئی جن کی دہلیز پر کھڑی ’’کوئی ہے؟‘‘ کی آوازیں لگا رہی ہے۔ مذاکرات کی پہلی نشست 23 دسمبر کو ہوئی جس میں طے پایا کہ پی۔ ٹی۔ آئی اپنے تحریری مطالبات اگلی نشست میں پیش کر دے گی ۔2 جنوری کو ہونے والی دوسری نشست میں یہ وعدہ وفا نہ ہوا۔ 16 جنوری کو، تیسری نشست میں( آغازِ مذاکرات سے 24 دن بعد) فردِ مطالبات حکومتی کمیٹی کے سامنے رکھی گئی۔ طے پایا کہ سات ایّامِ کار(Seven Working Days) میں ’’چارٹر آف ڈیمانڈز ‘‘کا باضابطہ تحریری جواب دیا جائے گا۔ حکومتی کمیٹی نے سنجیدگی سے کام شروع کیا۔ تین اجلاس کیے۔ وکلاء سے مشاورت کی ۔ اپنے موقف کے خد و خال تراشے۔ ’سات ایام کار‘ میں ابھی پانچ دن باقی تھے کہ 23 جنوری کو اڈیالہ جیل کے پھاٹک سے باہر آتے ہوئے قائم مقام چیئرمین پی۔ ٹی۔ آئی بیرسٹر علی گوہر نے فرمانِ امروز جاری کردیا کہ ’’بانی نے مذاکرات کا سلسلہ ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔آج سے مذاکرات ختم۔‘‘

کسی مجبوری کے سبب مذاکراتی میز پر آ بیٹھنے کے باوجود عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک جاری رکھی ۔اُن کی بہن علیمہ خان تواتر کے ساتھ یہ پیغام دہراتی اور سمندر پار پاکستانیوں کو اپنی رقوم پاکستان نہ بھیجنے پر اُکساتی رہیں۔ عمران خان کا’ ایکس ‘اکاؤنٹ بدستور بارود پاشی کرتا رہا۔ ایک ٹویٹ میں وزیراعظم کو منہ بھر کے گالی دی۔اکتیس روزہ مذاکرات کے دوران نا تراشیدہ ، اَن گڑھ اور زہر ناک ٹویٹس کا سلسلہ مسلسل جاری رہا۔ حکومتی کمیٹی ایک بار بھی کوئی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائی ۔صرف اس لیے کہ کوئی بات پی۔ ٹی۔ آئی کی نازک مزاجی پر گراں نہ گزرے اور اس جمہوری مشق کو کوئی نقصان نہ پہنچے لیکن پی۔ ٹی۔ آئی پادَرر کاب ہی رہی۔ جسے پنجابی میں ’’پبّاں بھار‘‘ کہتے ہیں۔ سو بانی کا حکم آتے ہی اِس برق رفتاری کے ساتھ مذاکراتی کمرے سے نکلی جیسے اُس کا دم گھٹنے لگا ہو۔ اب جب کہ’’ سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے ،‘‘ کوئی کمیٹی رہے نہ رہے، کھیل ختم ہو چکا ہے۔ پی۔ ٹی۔ آئی مکالمے ،مباحثے، مذاکرے اور افہام و تفہیم کے بازیچۂِ بے آب ورنگ سے الجہاد ،الجہاد، مارو یا مر جاؤ، آتشیں اسلحہ ،غلیلوں ، کیلوں والے ڈنڈوں اور پٹرول بموں والے’’ ہوم گراؤنڈ‘‘ کی طرف واپس جا رہی ہے۔’ پانی پت‘ کے تمام معرکوں میں ناکام رہنے والے علی امین گنڈاپور سے ’’عَلَمِ جہاد‘‘ چھین کر جنید اکبر کے حوالے کر دیا گیا ہے جنہوں نے ’’ہومیوپیتھک ‘‘حکمت کار کو مسترد کرتے ہوئے ’’ہر چہ بادا باد‘‘ کے جنگی منشور کا اعلان کر دیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اکتیس روزہ مذاکراتی وقفہ صرف نئی صف بندی کے لیے تھا یعنی ’’آگے چلیں گے دَم لے کر ۔‘‘
پی۔ ٹی۔ آئی دو خصوصیات کے حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ پہلی خصوصیت یہ کہ وہ دنیا بھر کی روایتی سیاسی جماعتوں کے برعکس مذاکرات ،مکالمے اور سنجیدہ گفتاری کے لیے بنی ہی نہیں۔ بحث و تمحیص، افہام و تفہیم اور جمہوری اقدار و روایات جیسے اجزائے ترکیبی سرے سے اُس کے مادۂِ تولید اور جوہر تخلیق (GENES/DNA)میں ہیں ہی نہیں۔ وہ پارلیمنٹ میں بیٹھتی ہے تو بھی یوں جیسے انگاروں پر لوٹ رہی ہو۔ لگی بندھی مذاکراتی کمرے میں آتی ہے تو اِس قدر ہراساں جیسے کسی عقوبت خانے میں دھکیل دی گئی ہو۔ ہنگامہ وپیکار اور فتنہ وفساد اُس کا خصوصی ہُنر ہے۔ وہ اسی جو لاں گاہ میں آسودہ رہتی ہے چاہے نتائج کچھ بھی ہوں۔

پی۔ ٹی۔ آئی کی دوسری منفرد خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے’’ نظریے‘‘ یا’’ عوامی مقبولیت‘‘ کے بجائے تکمیلِ آرزو کے لئے ہمیشہ کسی مقتدر شخصیت کی طرف دیکھتی اور اُس کے دست ِشفقت کی محتاج رہتی ہے۔ یہ کہانی 26 برس قبل پرویز مشرف سے شروع ہوئی ۔شجا ع پاشا،ظہیر الاسلام، فیض حمید، قمر جاوید باجوہ، آصف سعید کھوسہ اور ثاقب نثار سے ہوتی ہوئی عمر عطا بندیال پہ آ ٹھہری۔ وردی اُتر جانے کے باوجود فیض حمید کا فیضان جاری رہا یہاں تک کہ وہ خود اپنے کارہائے نمایاں کے آہنی جال میں پھنس گئے۔ پھر اپنے پیروکاروں اور خود اپنے لیے یہ سراب تخلیق کیا گیا کہ جلد جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس بننے جا رہے ہیں۔ اُس کے فوراً بعد یہ ’’ جعلی نظام‘‘ تحلیل ہو جائے گا اور عمران خان اڈیالہ جیل سے براہ راست وزیراعظم ہاؤس آ بیٹھیں گے۔ ایسا نہ ہوا۔ پبلک ریلیشننگ کی کمپنی چلانے والے ایک بے سروپا امریکی اہلکار، رچرڈ گرینل نے جانے کس ترنگ میں ا ٓکر دو تین ٹویٹ کیے تو پی۔ ٹی۔ آئی کا چہرہ نئی نویلی دلہن کی طرح دمکنے لگا۔ وہ آس تو ٹوٹ گئی لیکن طاقِ آرزو میں آج بھی ’ڈونلڈ ٹرمپ‘ نامی ایک چراغ ٹمٹا رہا ہے۔
مشرف سے ٹرمپ تک، ہمیشہ کسی ایمپائر کی اُنگلی کی متلاشی پی۔ ٹی۔ آئی پر کسی بیوہ جیسی بے سروسامانی کا ایسا بے برگ و بار موسم اُس کی چھبیس سالہ زندگی میں کبھی نہ آیا تھا۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: اڈیالہ جیل پی ٹی ا ئی جنوری کو کے ساتھ

پڑھیں:

عرب وزرائے خارجہ کا اہم اجلاس، فلسطینیوں کی بے دخلی کا ’ٹرمپ منصوبہ‘ مسترد

عرب ممالک کے وزرائے خارجہ نے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے جبری بے دخلی کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔

ہفتہ کے روز 5 عرب ممالک کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں انہوں فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین سے جبری بے دخلی کے امریکی انتظامیہ کے منصوبے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔

ہفتے کے روز جاری ہونے والے اس اعلامیے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب  سے مصر اور اردن سے غزہ سے فلسطینیوں کو واپس اپنے ملک بلانے کے مطالبے کے خلاف ایک متفقہ مؤقف پیش کیا گیا ہے۔

مصر، اردن، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، فلسطینی اتھارٹی اور عرب لیگ کے وزرائے خارجہ اور عہدیداروں نے اجلاس کے بعد کہا کہ ٹرمپ کے مجوزہ اقدام سے خطے میں استحکام کو خطرہ لاحق ہوگا، تنازعات پھیلیں گے اور امن کے امکانات کو نقصان پہنچے گا۔

عرب وزرائے خارجہ کے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم فلسطینیوں کے ناقابل تنسیخ حقوق پر سمجھوتا کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتے ہیں، چاہے وہ آبادکاری کی سرگرمیوں کے ذریعے ہو، یا بے دخلی یا زمین پر قبضہ کرنے یا اس کے مالکان سے زمین خالی کرنے کے ذریعے ہو۔ کسی بھی شکل میں یا کسی بھی صورت میں یا کسی بھی جواز کے تحت ہو۔

واضح رہے کہ عرب وزرائے خارجہ کے درمیان یہ ملاقات گزشتہ ہفتے ٹرمپ کے اس بیان کے بعد ہوئی  ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مصر اور اردن کو غزہ سے فلسطینیوں کو واپس لینا چاہیے، جسے انہوں نے 15 ماہ کی اسرائیلی بمباری کے بعد ’ مسمار شدہ جگہ قرار دیا تھا، اس انفراسٹرکچر کی تباہی کے نتیجے میں غزہ سے 2.3 ملین افراد میں سے زیادہ تر بے گھر ہو گئے تھے۔

خطے میں امریکا کے اہم اتحادی مصر اور اردن نے غزہ سے ملبے کو صاف کرنے کی ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کو بار بار مسترد کیا ہے۔ اردن میں کئی ملین فلسطینی آباد ہیں جبکہ مصر میں دسیوں ہزار فلسطینی آباد ہیں۔

بدھ کو مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے اس خیال اور منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ مصرکے عوام اس کے خلاف سڑکوں پر نکلیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنا ایک ناانصافی ہے جس میں ہم حصہ نہیں لے سکتے۔

ادھر جمعرات کے روز ڈونلڈ ٹرمپ نے اس خیال کا اعادہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ ہم تو ان کے لیے بہت کچھ کر تے ہیں اور وہ ایسا کرنے جا رہے ہیں‘۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی تجویز نسلی صفائی کے مترادف ہوگی، عرب سینٹر واشنگٹن ڈی سی میں فلسطین اسرائیل پروگرام کے سربراہ یوسف منیر نے رواں ہفتے کے اوائل میں الجزیرہ کو بتایا تھا کہ ٹرمپ کے تمام اصولوں اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی ’اشتعال انگیز‘ بیان کی پر زور مذمت کی جانی چاہیے۔

ہفتے کے روز عرب وزرائے خارجہ نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ وہ ’2 ریاستی حل کے مطابق مشرق وسطیٰ میں منصفانہ اور جامع امن کے حصول کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں‘۔

انہوں نے مستقبل قریب میں اقوام متحدہ کے ساتھ ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے کے مصر کے منصوبے کا بھی خیر مقدم کیا جس میں غزہ کی تعمیر نو پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اردن اسرائیل اعلامیہ اقوام متحدہ بے دخلی تعمیر نو ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب عرب وزرائے خارجہ غزہ فلسطین لبنان متحدہ عرب امارات مشرق وسطیٰ مصر وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کا یوٹرن! میکسیکو اور کینیڈا پر ٹیرف مؤخر، چین سے بھی بات چیت کا عندیہ
  • ڈونلڈ ٹرمپ کا جنوبی افریقا کو امداد بند کرنے کا اعلان
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا کیلئے بھی ٹیرف ایک ماہ کے لیے موخر کر دیا، جسٹن ٹروڈو
  • امریکا اور میکسیکو کے درمیان محصولات میں ایک ماہ کی توسیع کا معاہدہ طے پا گیا
  • ٹرمپ کا میکسیکو پر  ٹیرف ایک ماہ کیلئے موخر کرنے کا اعلان
  • ٹرمپ انتظامیہ کا نیویارک ٹائمز سمیت 4 میڈیا اداروں کو پینٹاگون سے اپنے دفاتر خالی کرنے کا حکم
  • عمران خان کی رہائی ،عرفان صدیقی نے بڑے راز سےپردہ اٹھادیا
  • عرب وزرائے خارجہ کا اہم اجلاس، فلسطینیوں کی بے دخلی کا ’ٹرمپ منصوبہ‘ مسترد
  • اسپیکر قومی اسمبلی کا مذاکراتی کمیٹی برقرار رکھنے کا فیصلہ