ایران نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غزہ سے فلسطینی شہریوں کی نقل مکانی کی تجویز کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی برادری کو فلسطینیوں کی حق خودارادیت کے حصول میں مدد کرنی چاہیے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے پیر کو ہفتہ وار پریس کانفرنس میں کہا کہ عالمی برادری کو ایسے منصوبے تجویز نہیں کرنے چاہئیں جو فلسطینیوں کی نسل کشی کے مترادف ہوں۔

یہ بھی پڑھیں:

انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کی تجویز غزہ کی پٹی اور پورے فلسطین کو مٹانے کے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ ترجمان نے کہا کہ کوئی تیسرا فریق فلسطینی علاقوں کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ نہیں کرسکتا۔

خیال رہے کہ ہفتے کو مصر، اردن، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، فلسطینی اتھارٹی اور عرب لیگ نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا تھا جس میں انہوں نے فلسطینیوں کی غزہ سے مصر اور اردن نقل مکانی سے متعلق امریکی صدر کی تجویز کو مسترد کیا تھا۔

امریکا کے ساتھ مذاکرات سے متعلق بات کرتے ہوئے اسماعیل بقائی کا کہنا تھا کہ ایران کو نئی امریکی انتظامیہ کی طرف سے مذاکرات کے حوالے سے کوئی اشارہ نہیں ملا۔

انہوں نے کہا کہ جب مذاکرات کے لیے حالات سازگار ہوں اور جب ہم اس یقین پر پہنچ جائیں کہ ہم مذاکرات کے ذریعے اسلامی جمہوریہ ایران اور اس کی عوام کے مفادات کی حفاظت کرسکتے اور ان کے مفادات کی ضمانت دے سکتے ہیں تو ہم اس سمت میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے آگے بڑھیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: فلسطینیوں کی کی تجویز کہا کہ

پڑھیں:

تہران کا جوہری پروگرام: عمان میں امریکی ایرانی مذاکرات شروع

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 اپریل 2025ء) عمان سے ہفتہ 12 اپریل کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران اپنے متنازع جوہری پروگرام کو تیزی سے آگے بڑھا رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوشش ہے کہ تہران کے ساتھ اس کے نیوکلیئر پروگرام سے متعلق بات چیت شروع کر کے اسے جلد از جلد نتیجہ خیز بنایا جائے۔

ساتھ ہی اس سال جنوری میں دوسری مرتبہ امریکی صدر کے عہدے پر فائز ہونے والے ریبپلکن ڈونلڈ ٹرمپ کئی مرتبہ یہ دھمکی بھی دے چکے ہیں کہ ایران کو اپنے جوہری پروگرام سے متعلق امریکہ کے ساتھ بلاتاخیر ڈیل کرنا چاہیے، دوسری صورت میں واشنگٹن ایران کے خلاف فوجی کارروئی بھی کر سکتا ہے۔

مذاکرات کے لیے عمان کی میزبانی

اس پس منظر میں ایران اور امریکہ کے اعلیٰ نمائندوں کے مابین ہفتہ 12 اپریل کو جو بالواسطہ مذاکرات مسقط میں شروع ہوئے، ان کی میزبانی خلیجی عرب ریاست عمان کر رہی ہے۔

(جاری ہے)

اس بات چیت میں ایرانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ عباس عراقچی جبکہ امریکی وفد کی سربراہی صدر ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی مندوب اسٹیو وٹکوف کر رہے ہیں۔

اس مکالمت کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ اور ایران کے مابین ہونے والے اولین مذاکرات ہیں۔ ایسی کوئی دوطرفہ بات چیت صدر ٹرمپ کے 2017ء سے لے کر 2021ء تک جاری رہنے والے پہلے دور صدارت میں ایک بار بھی نہیں ہوئی تھی۔

علاقائی کشیدگی کے تنا‌ظر میں مذاکرات کی اہمیت

عمان میں اس امریکی ایرانی مکالمت کا بنیادی مقصد تہران کے ساتھ مل کر کسی ایسے قابل عمل حل تک پہنچنا ہے، جس کے نتیجے میں ایران کو اس کے جوہری پروگرام، خاص کر یورینیم کی غیر معمولی حد تک افزودگی کے ذریعے ممکنہ طور پر فوجی مقاصد کے لیے اس پروگرام کو آگے بڑھانے سے روکا جا سکے۔

مغربی ممالک کا ایران پر الزام ہے کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کو ممکنہ طور پر فوجی مقاصد کے لیے آگے بڑھا رہا ہے۔ اس کے برعکس تہران کی طرف سے اپنے خلاف ایسے تمام الزامات کی تردید کی جاتی ہے۔ بلکہ ایران کا اصرار ہے کہ اس کا نیوکلیئر پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے۔

ان مذاکرات کے حوالے سے ایران کا کہنا ہے کہ یہ بالواسطہ مکالمت عمانی وزیر خارجہ کی ثالثی میں ہو رہی ہے اور اسی لیے عمان اس بات چیت کی میزبانی بھی کر رہا ہے۔

ایران مذاکرات میں شمولیت کے باوجود ڈیل کے حوالے سے کم امید

مختلف خبر رساں اداروں نے ایرانی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ایران عمان میں اس بات چیت میں شریک تو ہے، تاہم امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے بار بار دی جانے والی دھمکیوں کے باعث اس سلسلے میں زیادہ پرامید نہیں کہ اس عمل کے نتیجے میں تہران اور واشنگٹن کے مابین کوئی ڈیل طے پا جائے گی۔

ہفتے کے روز شروع ہونے والی اس بالواسطہ بات چیت کے بارے میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ''عمانی وزیر خارجہ کی ثالثی میں ایران اور امریکہ کے مابین بالواسطہ مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔‘‘

دونوں وفود علیحدہ علیحدہ کمروں میں

عمان میں اس امریکی ایرانی مکالمت کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے لیے دونوں ممالک کے وفود ایک ہی جگہ پر موجود نہیں تھے بلکہ وہ دو علیحدہ علیحدہ کمروں میں بیٹھ کر عمانی وزیر خارجہ کے ذریعے آپس میں پیغامات کا تبادلہ کر رہے تھے۔

اس بات چیت کے بارے میں ایک عمانی سفارتی ذریعے نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا، ''ان مذاکرات میں اس وقت توجہ موجودہ علاقائی کشیدگی میں کمی پر دی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ قیدیوں کے تبادلے اور ایران کے خلاف عائد پابندیوں میں نرمی کے ایسے محدود معاہدوں پر بھی، جن کے نتیجے میں ایرانی جوہری پروگرام کو کنٹرول کیا جا سکے۔‘‘

عمانی سفارتی ذریعے کے اس موقف کی ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے تاہم تردید کی، مگر یہ واضح نہ کیا کہ ان مذاکرات کی مقصدیت سے متعلق عمانی موقف میں غلط پہلو کیا تھا۔

خلیجی عرب ریاست عمان ماضی میں کئی مرتبہ ایران اور مغربی ممالک کے مابین کامیابی سے ثالثی کر چکی ہے، خاص کر ایسے غیر ملکی شہریوں یا ایران کے ساتھ ساتھ کسی مغربی ملک کی دوہری شہریت رکھنے والے ایسے افراد کی رہائی کے بارے میں، جو اپنی رہائی سے قبل ایرانی جیلوں میں قید تھے۔

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • ایران امریکہ مذاکرات
  • ٹرمپ کی ٹیم نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کو "بہت مثبت" کیوں قرار دیا؟
  • ایران کے ساتھ بات چیت مثبت پیش رفت ہے، ڈونالڈ ٹرمپ
  • وائٹ ہاؤس نے ایران، امریکا مذاکرات کو مثبت اور تعمیری قرار دیدیا
  • تہران کا جوہری پروگرام: عمان میں امریکی ایرانی مذاکرات شروع
  • ٹرمپ کی دھمکیوں کے سائے میں ایران امریکا جوہری مذاکرات آج ہوں گے
  • عمان مذاکرات کا مقصد اعتماد سازی ہے، امریکہ کا اصرار
  • امریکہ کیجانب سے یمن پر حملوں کا مقصد غزہ میں جاری نسل کشی کی حوصلہ افزائی کرنا ہے، انصار الله
  • فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی کوئی بھی تجویز قابل قبول نہیں،سعودی عرب
  • سفارت کاری کو ایک حقیقی موقع دینا چاہتے ہیں، ایران