پیکا قانون 2025ءکے نفاذ کیخلاف صحافیوں کا احتجاجی مظاہرہ
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
حیدر آباد: یونین آف جرنلسٹس ( ورکز) کی جانب سے پیکا ایکٹ کےخلاف پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا جارہا ہے
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)وفاقی حکومت کی جانب سے صحافی دشمن پیکا قانون 2025ءکے نفاذ کیخلاف حیدرآباد یونین آ ف جرنلسٹس (ورکرز) کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا،نعرے بازی کی اور مطالبہ کیا کہ اس سیاہ قانون کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ مظاہرین ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے جن پر پیکا قانون کے نفاذ کے خلاف نعرے درج تھے۔ اس موقع پر پی ایف یو جے (ورکرز) اور ایچ یو جے (ورکرز)کے عہدیداروں ناصر شیخ، آ فتاب رند، رانا
حنبل، امتیاز خاوراور عمران ملک سمیت دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیکا کالے قانون 2025ءکا نفاذ کرکے حکومت نے خود جمہوریت کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔ جمہوری دور میں اظہار رائے کی آزادی ہوتی ہے لیکن اس حکومت نے اپنے سیاہ قانون کو چھپانے کے لیے اظہار آ زادی کو سلب کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے جب یہ حکمران اپوزیشن میں ہوتے ہیں انہیں آ زادی اظہار ا چھا لگتا ہے لیکن جب یہ اقتدار میں آتے ہیں تو اس کا گلا گھونٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ متنازع پیکا قانون کو راتوں رات مسلط کیا گیا ہے جس پر پورے ملک کے صحافی سراپا احتجاج ہیں اور یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک یہ قانون ختم نہیں کیا جائے گا،انہوں نے کہاکہ حکومت میں شامل جماعتیں جو خود کو جمہوری جماعتیں ہونے کی دعویدار ہیں انہوں نے پیکاایکٹ جیسے قانون بناکر یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ جماعتیں اور ان کے قائدفاسٹس سوچ رکھنے کے ساتھ ساتھ مثبت تنقید بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بدقسمتی سے پاکستان میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو حکمران اپنے گھر کی باندھی بناکر رکھنا چاہتے ہیں اور اس کےلیے ہر قسم کے حربے استعمال کررہے ہیں، پہلے ہی میڈیا مکمل طورپر کنٹرول ہوتا جارہا ہے ،رہی سہی کثر پیکا ترمیمی بل 2025 نے پوری کردی ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ کالا قانون اخلاقی اور قانونی طورپر نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ آمرانہ سوچ کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پیکا قانون انہوں نے
پڑھیں:
صحافیوں کو اعتماد میں نہ لینا کوتاہی، متنازع پیکا ایکٹ میں ترامیم کی جا سکتی ہیں، عرفان صدیقی
صحافیوں کو اعتماد میں نہ لینا کوتاہی، متنازع پیکا ایکٹ میں ترامیم کی جا سکتی ہیں، عرفان صدیقی WhatsAppFacebookTwitter 0 1 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز )حکومتی رہنما سینیٹر عرفان صدیی نے متنازع پیکا ایکٹ کو صحافیوں کو اعتماد میں لیے بغیر پاس کرنا ایک کوتاہی قرار دیتے ہوئے اس پر مذاکرات کرنے اور ترامیم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ جب آئین میں 26 ویں آئینی ترمیم ہو سکتی ہے تو پیکا ایکٹ بھی کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہے۔ایک نجی ٹی وی انٹرویو میں عرفان صدیقی نے کہا کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم کی گنجائش موجود ہے، وزیراعظم سے بات کی ہے اسے درست کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ پیکا قانون وزارت داخلہ کے حصے میں کیسے آیا؟، میں اس سارے عمل سے باہر رہا ہوں، میں جس مقام پر اس میں سامنے آیا اس وقت تک یہ قانون اسمبلی سے بھی پاس ہو چکا تھا۔عرفان صدیقی نے کہا کہ اس قانون کے حوالے سے پارٹی لائن سے ہٹ کر میری دوٹوک رائے ہے کہ صحافتی برادری کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا، اس کے لیے صحافتی تنظیموں کی رائے لینا بھی ضروری تھی اور ان سے اس ایکٹ کے فوائد اور نقصانات پر بھی بات کی جانی چاہیے تھی۔
انہوں نے کہا کہ میری دوٹوک رائے ہے کہ جہاں جہاں صحافتی برادری اس قانون سے متاثر ہو رہی تھی وہاں وہاں ان سے رائے لینا اور اس کے اغراض و مقاصد کے بارے آگاہ کرنا بہت ضروری تھا، اس پر صحافیوں کے تحفظات جائز ہیں۔عرفان صدیقی نے کہا کہ وہ اس قانون کی روح کے خلاف قطعا نہیں ہیں، یہ قانون قطعا صحافیوں کے خلاف نہیں ہے نہ ہی صحافی اس کی زد میں آ رہے ہیں۔ جو لوگ صاف ستھری صحافت کرتے ہیں، جو ہر لفظ سوچ سمجھ کر بولتے ہیں، یوں اگر کسی کو پکڑنا ہو تو وہ کرایہ داری قانون میں بھی پکڑا جا سکتا ہے، مجھے خود کرایہ داری قانون کے تحت ہتھکڑی لگا دی گئی تھی۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ جب نیتیں خراب ہوتی ہیں تو کسی قانون کی ضرورت نہیں ہوتی، صحافیوں کو اعتماد میں نہ لینے ایک کوتاہی ہے جس کی میں پہلے ہی نشاندہی کر چکا ہوں کہ صحافیوں کو ہر حال میں اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا۔واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے بعد پیکا ایکٹ ترمیمی بل اور ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل سینیٹ سے بھی منظور کردیے گئے ہیں۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل اور ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل سینیٹ میں پیش کیا جنہیں منظور کیا گیا تاہم اپوزیشن اراکین نے ان بلوں کی سخت مخالفت کی۔دونوں بلوں کی منظوری کے دوران اپوزیشن اراکین کی جانب سے ہنگامہ آرائی اور شور شرابہ کیا گیا جنہوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں بل پر بات کرنے کی اجازت دی جائے۔ سینیٹر علی ظفر نے اعتراض اٹھایا کہ آپ اپوزیشن کو اہمیت نہیں دیتے اور بل پر ہمیں بات کرنے نہیں دی۔
ادھر متنازع پیکا قانون کے خلاف صحافی برادری نے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے قانون واپس لینے کا مطالبہ کیا ہیوفاقی دارالحکومت اسلام آباد، لاہور، کراچی سمیت دیگر شہروں میں صحافیوں نے احتجاج کیا، اور پریس کلبوں پر سیاہ پرچم لہرائے گئے۔ صحافیوں نے اپنے بازوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر فرائض انجام دیے۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ نے اسلام آباد میں احتجاج کرنے والے صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی صورت آزادی صحافت پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔
لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری نے کہاکہ کالے قانون کے خلاف احتجاج کیا جائیگا، اور ہم سرکاری تقریبات کا بائیکاٹ کریں گے۔واضح رہے کہ صدر مملکت آصف زرداری کے دستخط کے بعد پیکا ایکٹ قانون بن گیا ہے، آصف زرداری نے صحافیوں سے گزارشات سننے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس سے قبل ہی دستخط کردیے۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما عرفان صدیقی نے کہا تھا کہ پیکا ایکٹ میں مزید ترامیم بھی ہو جائیں گی، یہ کوئی صحیفہ نہیں، صحافی اپنی ٹھوس تجاویز لے کر آئیں۔