پی آئی اے کی نجکاری کا عمل دوبارہ شروع کرنےکا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
قومی ائیرلائن پی آئی اے کی نجکاری کے لیے دوسری کوشش مکمل طور پر تیار ہے جس میں متعدد واپس آنے والے بولی دہندگان اور فریقین اس عمل میں حصہ لے رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کا اجلاس فاروق ستار کی زیر صدارت ہوا جس میں بتایا گیا کہ پچھلے دور میں بولی دہندگان نے نئے طیاروں کی شمولیت اور بیڑے کی توسیع پر حکومت کی طرف سے عائد کردہ 18 فیصد جی ایس ٹی کو معاف کرنے کی سفارش کی تھی، ان کا خیال تھا کہ اس ٹیکس کو ہٹانے سے نئے طیاروں کے حصول میں آسانی ہوگی۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ پی آئی اے کے واجبات 45 ارب روپے ہیں جن میں ایف بی آر کے 26 ارب روپے ٹیکس واجبات ہیں، سول ایوی ایشن اتھارٹی کے 10 ارب روپے واجب الادا ہیں اور باقی رقم پنشن واجبات پر مشتمل ہے۔آئی ایم ایف نے اتفاق کیا کہ اگر پی آئی اے کی نجکاری کی جاتی ہے تو نئے طیاروں میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے 18 فیصد جی ایس ٹی کو ہٹایا جاسکتا ہے۔کمیٹی کو مزید بتایا گیا کہ نان کور اثاثے پی آئی اے کی بولی کے عمل کا حصہ نہیں ہیں، حکومت ان اثاثوں کے لیے الگ پالیسی بنا رہی ہے جس کے لیےکنسلٹنٹ نے کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کو دو سے تین آپشنز تجویز کیے ہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
بلوچستان حکومت کیجانب سے آئندہ سال کے بجٹ کی تیاریاں شروع
سیکرٹری خزانہ بلوچستان کے مطابق تین فروری سے آئندہ سال کے بجٹ کے سلسلے میں اجلاسوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ تمام محکموں سے تجاویز طلب کر لی گئی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ حکومت بلوچستان نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ تین فروری سے صوبائی محکموں کی جانب سے بجٹ تجاوز دینے کیلئے اجلاسوں کا شیڈول جاری کر دیا گیا۔ بلوچستان کا آئندہ مالی سال کا بجٹ دس کھرب روپے تک متوقع ہے۔ سیکرٹری خزانہ بلوچستان عمران زرکون نے نجی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ محکمہ خزانہ نے آئندہ مالی سال بجٹ کیلئے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ پہلے مرحلے میں تمام محکموں سے بجٹ تجاوز لی جا رہی ہیں۔ جس کیلئے میٹنگز کا سلسلہ تین فروری سے شروع ہو رہا ہے۔ ان تجاوز کی روشنی میں بجٹ تیار کیا جائے گا۔ عمران زرکون نے بتایا کہ بلوچستان کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت باقاعدگی سے رقم مل رہی ہے۔ تاہم صوبے کو کم و بیش 100 ارب روپے کی کمی آئی ہے۔ جن میں پی پی ایل کی جانب سے سوئی گیس رائلٹی کی مد میں 60 ارب روپے اور زرعی ٹیوب ویلز کی سولرائزیشن کی مد میں وفاقی حکومت نے 39 ارب روپے شامل ہیں۔