Jasarat News:
2025-02-04@05:02:46 GMT

پیکا ایکٹ، پرانی شراب نئی بوتل

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

پیکا ایکٹ، پرانی شراب نئی بوتل

یہ دنیا جب سے بنی ہے سچ اور جھوٹ کی لڑائی ہے، اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ جھوٹ سچ بن کر سامنے آتا ہے اور سچ کو جھوٹا بناتا ہے۔ گزشتہ دنوں اچانک شور اٹھا کہ پارلیمنٹ پیکا ایکٹ کی منظوری دینے جارہی ہے، لیکن یہ اچانک تو نہیں ہے، تھوڑا سا ذہن پر زور ڈالیں تو یاد آجائے گا کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی تقریروں کے بارے میں بھی پریس ایڈوائس دی گئی تھی، اس وقت کا پیکا ایکٹ یہ پریس ایڈوانس تھی، آگے بڑھیں تو زیادہ دن نہیں گزرے، 1958 آگیا، پھر جس نے سچ لکھا وہ پکڑا گیا جیل گیا، جھوٹا قرار دیا گیا، ملک دشمن قرار دیا گیا۔ ہر ایک کے خلاف سازش کیس بنایا گیا، یہ ایوب خان ہی کے دورکا لطیفہ ہے کہ ایک سیاسی لیڈر پر مقدمہ بنایا گیا کہ تم نے سرکار کو چور کہا ہے، ثبوت کے طور پر ایک اخباری تراشا پیش کیا گیا، اس میں اس رہنما کے نام سے خبر کی سرخی تھی جب سرکار ہی چور ہو تو عوام کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں، اس پر اس زمانے کی عدالت کے جج نے (زیادہ تر جج ہر زمانے میں ایسے ہی ہوتے ہیں) کہا کہ اس کے بعد کیا کہتے ہو سیاستدان نے ہوشیاری سے کہا کہ اس میں کہاں لکھا ہے کہ ہمارے ملک کی سرکار چور ہے، تو جج نے کہا! خاموش، کیا ہمیں نہیں پتا کہ کون سی سرکار چور ہے، اس کے بعد اسے ملک کے استحکام میں رخنہ ڈالنے اور ملک دشمنی کے الزام میں سزا ہوگئی، یہی لطیفہ بھارت کے بارے میں بھی استعمال ہوتا رہا ہے اور فلموں بھی آگیا۔

اب پاکستان میں یہی فلم مسلسل چل رہی ہے کبھی اس کا نام پریس ایڈوائس تھا، کبھی اسے پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس کہا گیا، اتفاق سے جنرل ایوب ہی کے زمانے میں ایبڈو بھی مسلط کیا گیا، پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس تو براہ راست آزادیٔ اظہار پر پابندی کا قانون تھا لیکن ایبڈو کے تحت نااہل قرار پانے والے سیاستدانوں کے حق میں آواز اٹھانے پر یہ کالا قانون حرکت میں آجاتا تھا، ایوب خان نے چونکہ ایک حیلے سے سیاسی قبا اوڑھ لی تھی، اس لیے وہ پارلیمنٹ کے ذریعہ قوانین بنالیتے تھے، یہ حقیقت بھی محل نظر رہے کہ پارلیمنٹ میں نمائندگی کی شرح بھی ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں رہی ہے، جیسی جمہوریت آج ہے اسی طرح کی اس وقت تھی آج فارم سینتالیس ہے اس وقت، چیف الیکشن کمشنر کا جھرلو تھا، حتیٰ کہ ڈیڈی کے منہ بولے بیٹے بھٹو نے اپنے مخالفین اغوا کرائے اور جیت گئے وہ اکیلے نہیں ایک طویل فہرست ہے سیاسی مخالفین کو کچلنے کی۔ ایوب آمریت کے بعد جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز نے بھی سیاسی قبائیں اوڑھ لیں۔ اور اسی طرح کے کالے قوانین مسلط کیے، گویا یہ کہانی بھی پرانی ہے، بس اب سوشل اور الیکٹرونک میڈیا ہے اس لیے پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس کا نام الیکٹرونک کرائم ایکٹ رکھ دیا گیا، کون سی بات بدلی ہے، سب کچھ وہی ہے، وہی رویے ہیں وہی ہتھکنڈے ہیں، ورنہ تو ’’دن بدلے ہیں فقط وزیروں کے‘‘۔

اسی کو کہتے ہیں کہ پرانی شراب نئی بوتل میں بند کرکے نیا نام دے کر مارکیٹ میں لائی گئی ہے، پارلیمنٹ میں تو پورا انتظام ہے کہ عوام کا کوئی حقیقی نمائندہ نہ پہنچ جائے، پہلے ایبڈو سے روکا اب فارم سینتالیس سے، اس لیے سب نے مل کر اس کو منظور کرلیا، اب اس کیخلاف آواز اُٹھانے والے پارلیمنٹ کے باہر والے ہیں، گویا وہ کروڑوں عوام کے ’’ووٹوں‘‘ سے پارلیمنٹ میں پہنچنے والوں کی توہین کررہے ہیں۔ ان پر بھی پیکا ایکٹ لاگو ہوسکتا ہے۔

ویسے تو یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ پیکا کیا ہے لیکن مزید واضح کرنے کے لیے یکجا کرلیا جائے تو مضائقہ نہیں، قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے بعد بدھ 29 جنوری کو صدر مملکت آصف زرداری نے بھی الیکٹرونک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) ترمیمی بل 2025 کی توثیق کر دی، یہ اور بات ہے کہ انہوں نے دستخط نہ کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن موصوف کی ڈکشنری میں وعدے کی جو اہمیت ہے اس کی وہ خود وضاحت کرچکے ہیں کہ وعدہ ہی تو تھا قرآن و حدیث تو نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ قرآن و حدیث پر کتنا عمل کرتے ہیں۔ بہر کیف ان کے دستخط کے بعد یہ قانون بن گیا اب سوال ہوتا ہے کہ آخر اس قانون میں ایسا کیا ہے جو اس کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے اور صحافتی تنظیمیں اس بل کو ’صحافیوں کی آواز دبانے والا کالا قانون قرار دیتے ہوئے ملک بھر کے مختلف شہروں میں سراپا احتجاج ہیں۔ اور ان کے ساتھ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں سول سوسائٹی اور وکلا ہیں، دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اس ایکٹ کی منظوری میں حکومت کی اہم حلیف پیپلز پارٹی بھی شریک ہے اور اس کے رہنما سابق چیئر مین سینیٹ میاں رضا ربانی صحافیوں کے ساتھ بھی ہیں، اور مذمت بھی کررہے ہیں، اور یہ پارٹی ایسا ہی کرتی ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ ہے اس کے وفاقی وزیر ِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’یہ بِل پروفیشنل صحافیوں کے خلاف نہیں بلکہ فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف ہے‘۔ ان کا اصرار تھا کہ ڈیجیٹل میڈیا پر کوئی کچھ بھی کہہ دیتا ہے اور اس پر صحافت کے نام پر الزام تراشی کی جاتی ہے۔ بقول عطا تارڑ پیکا ترمیمی بل ڈیجیٹل میڈیا کے لیے ہے، ڈیجیٹل میڈیا پر جھوٹ اور پروپیگنڈے کی کوئی جواب دہی نہیں ہے۔

انہوں نے ایسی بحث چھیڑ دی ہے کہ وہ خود اور تمام حکومتیں زد میں آتی ہیں، مین اسٹریم یعنی سرکاری اور غیر سرکاری مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ پر دن رات جھوٹ بولا اور پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور اس کی کوئی جوابدہی نہیں ہوتی، ان سرکاری روایتی الیکٹرونک اور ڈیجیٹل ذرائع ابلاغ پر پاکستان کو کئی مرتبہ ترقی کرتا دکھایا جاتا ہے، یہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ایک دوسرے کو چور ڈاکو ملک دشمن قرار دے چکے، یہی عمران خان ایم کیو ایم کے خلاف ثبوتوں کے سوٹ کیسز بھرے بیٹھے تھے، اور یہی عمران خان اسی مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پر فوج کے سب سے بڑے حامی ہم نوا اور بھونپو تھے لیکن ان سب نے یو ٹرن لیا یا جھوٹ بولا تینوں نے ملک دشمنوں اور بھتا خوروں اور اپنے دعوے کے مطابق چوروں سے اتحاد کرلیا عمران خان فوج کے دشمن ہوگئے ایم کیو ایم کو نفیس لوگ قرار دیدیا، ان سب کی کوئی ایک بات توغلط ہے پہلے والی یا اب والی، پھر اس جھوٹے پروپیگنڈے پر سب سے پہلے ان تینوں پر پیکا ایکٹ نافذ ہونا چاہیے۔ لیکن یہ ڈیجیٹل میڈیا کے نام پر ’’کہیں پہ نشانہ کہیں پہ نگاہیں کے مصداق ہے، اس میں اتنا جھول ہے کہ جب جس پر چاہیں ہاتھ ڈال دیں‘‘۔(جاری ہے)

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ڈیجیٹل میڈیا کے خلاف ہے کہ ا کے بعد ہے اور اور اس

پڑھیں:

پیکا ایکٹ کا مقصد فیک نیوز کا خاتمہ، سوشل میڈیا کے خطرات کا تدارک کرنا ہے. عطا اللہ تارڑ

لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔03 فروری ۔2025 )وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ پیکا قانون سے آزادی اظہار رائے کا تحفظ ہوگا، پیکا قانون پر احتجاج کس بات کا ہے؟ اس کا مقصد فیک نیوز کا خاتمہ، سوشل میڈیا کے خطرات کا تدارک کرنا ہے،صحافی بتائیں کہ کس شق پر اعتراض ہے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ پیکا ایکٹ میں دنیا کے بہترین طریقوں کو اپنایا گیا ہے، سوشل میڈیا کے خطرات کو روکنے کیلئے یہ ایک اچھا اقدام ہے، پیکا ایکٹ کا مقصد فیک نیوز کا خاتمہ اور سوشل میڈیا کے خطرات کا تدارک کرنا ہے سمجھ نہیں آرہا پیکا قوانین پر اعتراض کس بات کا ہے، یہ قانون صحافیوں کے تحفظ کے لیے ہے.

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ کیا فیک نیوز کو روکنے پر اعتراض ہے، کوئی ایک شق بتا دیں جس پر اعتراض ہے، ڈیجیٹل میڈیا پر کوئی چیک نہیں، کوئی ایڈیٹوریل کنٹرول نہیں انہوں نے کہا کہ ملک میں فیک نیوز، بلیک میلنگ اور ڈیپ فیک کے مسائل ہیں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے قوانین اور ادارتی کنٹرول ہے، مگر ڈیجیٹل میڈیا پر کوئی کنٹرول نہیں، جس کا دل کرتا ہے کہتا ہے کہ فلاں واجب القتل ہے، لوگ صحافت کی آڑ میں صحافت کو بدنام کررہے ہیں، ان کے پاس کوئی تجربہ اور مہارت نہیں ہوتی کچھ لوگ صحافت کی آڑ میں صحافت کو بدنام کرتے ہیں، خواتین کو ہراساں اور بلیک میول کیا جاتا ہے، لوگ خودکشیوں پر مجبور ہو جاتے ہیں، صحافی سمجھتے ہیں کہ حق تلفی ہو رہی ہے تو وہ ہائیکورٹ جا سکتے ہیں.

انہوں نے کہاکہ آزادی اظہار رائے کے تحفظ کے لیے یہ قانون لایا گیا ہے کیا ایف آئی اے میں اتنی گنجائش ہے کہ ان پر نظر رکھ سکے؟ اگر نہیں تو نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی قائم کی جارہی ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟انہوں نے کہا کہ اس ایجنسی کے اوپر ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی بھی بنوائی جارہی ہے، اس اتھارٹی میں ایک صحافی اور ایک آئی ٹی ماہر ممبر ہوگا جو نجی شعبے سے ہوں گے، اس کے ساتھ ساتھ ٹریبونل بھی بنایا جارہا ہے اور اس میں بھی صحافی شامل ہوگا ڈیجیٹل میڈیا پروٹیکشن اتھارٹی میں نجی شعبے سے نامزدگیاں کی جائیں گی، پریس کلب یا صحافتی تنظیموں سے منسلک صحافیوں کو اس میں شامل کیا جائے گا.

وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ اعتراض کیا جارہا ہے ٹریبونل کی اپیل سپریم کورٹ میں کیوں جائے؟ تمام ٹریبونلز کی اپیلیں سپریم کورٹ میں جاتی ہیں، 24 گھنٹے کے اندر اس ٹریبونل کو اپنا اسپیکنگ آرڈر پاس کرنا ہوگا جس کے خلاف سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ میں رٹ پیٹیشن دائر کی جاسکتی ہے، اس قانون میں ایک بھی شق متنازع نہیں آگے مزید رولز اور ریگولیشنز پر بات ہوگی اور مشاورت ہوگی،صحافت کی آڑ میں سوشل میڈیا کو مادر پدر آزاد نہیں چھوڑا جا سکتا .

وزیراطلاعات نے کہا کہ اداروں کے ملازمین قومی اثاثہ ہیں، ملازمین کی محنت، لگن اور مہارتیں ہی ادارے کی کامیابی کی بنیاد ہوتی ہیںکرپشن نے اداروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا حکومت اداروں کی بہتری اور انہیں منافع بخش بنانے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے وزارت اطلاعات کے ماتحت اداروں کو منافع بخش بنانے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں صحافیوں کو درپیش مسائل کا حل اولین ترجیح ہے.

انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان اور اے پی پی قومی ادارے ہیں جو عوام کو معلومات کی فراہمی کی بنیادی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ملکی نظریاتی سرحدوں کے محافظ بھی ہیں موجودہ دور جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے ہمیں دنیا کا مقابلہ کرنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کو اپنانا ہوگا تمام اداروں میں اصلاحات لا رہے ہیں، کسی کو اصلاحات میں رکاوٹ نہیں بننے دیں گے، میرٹ اور شفافیت کو یقینی بنائیں گے.

متعلقہ مضامین

  • پیکا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے لئے نہیں
  • پیکا ایکٹ قبول نہیں ہے ،سید عبید شاہ
  • پیکا ایکٹ کا مقصد فیک نیوز کا خاتمہ، سوشل میڈیا کے خطرات کا تدارک کرنا ہے. عطا اللہ تارڑ
  • پیکا ایکٹ کا صحافیوں یا صحافت سے کوئی تعلق نہیں: طلال چوہدری
  • پیکا ایکٹ صحافیوں کا گلا گھونٹنے کا نیا ہتھیار
  • پی ایف یو جے کی کال پر پیکا ایکٹ کے خلاف صحافیوں کا مظاہرہ
  • آزادی ٔاظہارکاقاتل پیکا ایکٹ
  • صحافیوں کو اعتماد میں نہ لینا کوتاہی، متنازع پیکا ایکٹ میں ترامیم کی جا سکتی ہیں، عرفان صدیقی
  • تحریک انصاف نے پیکا ایکٹ کے خلاف ووٹ دیا تھا: عمر ایوب