نظام انصاف کے بغیر انسانی معاشرے کی زندگی کا تصور محال ہے۔ دنیا میں جیسے جیسے انسانوں کی تعداد بڑھی اور معاشرت قائم ہوئی عدل و انصاف کی صدا انسان کے اندر سے آنی شروع ہوئی عدل و انصاف انسان کی معاشرتی زندگی کا ایک لازمی تقاضا بن گیا جس جس معاشرے میں رہنے والوں نے اس کو جتنا مضبوطی سے قائم کیا وہ اتنے ہی مضبوط اور پر امن معاشرے بنے اور جس جس معاشرے نے اس تقاضے کو دبایا اور اپنے درمیان عدل و انصاف کو قائم نہ ہونے دیا یا اس میں ڈنڈی ماری وہ معاشرہ اتنا ہی بدامنی اور انتشار پر مبنی معاشرہ بن گیا۔ خوراک انسان کی زندگی کے لیے لازمی ہے اس کے بغیر زندہ رہنا ناممکن ہے، اسی طرح انسانی معاشر ے کے لیے انصاف لازمی ہے اس کے بغیر انسانی معاشرے کی زندگی ممکن نہیں۔ انصاف کی اسی اہمیت کے پیش نظر دنیا میں ہر اس معاشرے کو اچھا سمجھا جاتا ہے جہاں انصاف ہو چونکہ اسلام دین فطرت ہے اسی لیے انصاف کو قائم کرنے کی ہر حال میں تاکید کی گئی ہے۔ اسلامی تاریخ عدل و انصاف کے ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے کہ اس کی مثال کہیں اور ملنی ناممکن ہے۔ اسلام نے نہ صرف مسلمانوں کو انصاف فراہم کیا ہے بلکہ اس نے غیر مسلموں تک کو بھی انصاف فراہم کیا۔ کاش ہم پاکستانی اتنے خوش نصیب ہوتے کہ ہمارے ملک کا عدالتی نظام دنیا کا پہلے نمبر کا عدالتی نظام ہوتا جہاں انصاف گھروں کی دہلیز پر مل جاتا۔ پاکستان کے اس ادارے کو پہلے نمبر پر ہونا بھی اس لیے چاہیے تھا کہ پاکستان اسلام کے نام سے قائم ہو ا ہے مگر بد قسمتی سے پاکستان کا عدالتی نظام، ورلڈ جسٹس پروجکٹس کے مطابق 124 ویں نمبر پر آتا ہے۔
پاکستان بنے ہوئے ایک صدی ہونے والی ہے مگر یہاں بدترین نظام عدل قائم ہے کوئی ایک واقعہ اس ادارے کا ایسا نہیں ہے جو بیان کیا جاسکے جس میں یہ ادارہ انصاف فراہم کرنے میں کامیاب ہوا ہو۔ اس نے نہ خود اپنے منصب کا پاس رکھا اور نہ ہی معاشرے کو انصاف پر کھڑا ہونے ہی دیا۔ دور نبوی میں کتنے ہی ایسے واقعات ملتے ہیں جن کو درس گاہوں میں پڑھایا جاتا ہے مگر پوری پچھتر سالہ پاکستان کی عدلیہ کا کوئی واقعہ ایسا نہیں ہے جو کہ درس گاہوں میں پڑھائے جانے کے قابل ہو۔ نمائش کے لیے عدالتیں قائم ہیں جج عوام کے خون پسینے کی کمائی سے بھاری بھرکم تنخواہیں اور شاہانہ مراعات وصول کرتے ہیں۔ ان کی شاہانہ زندگی ہے جب سڑ ک سے کوئی جج جارہا ہوتا ہے تو ایک قافلہ ساتھ جارہا ہوتا ہے۔ ہلکے پھلکے کام اور بھاری بھرکم معاوضے والی گاڑی چل رہی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کے یہ نظام مافیا بن کر اب پاکستان کے سینے پر کھڑا ہوگیا ہے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار کے طور پر کام سرانجام دینے والا ایک ادارہ بن گیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک سو نوّے ملین پاؤنڈ کا کیس لے لیں یہ وہ کیس ہے جس میں پاکستان تحریک انصاف کے سر براہ عمران خان کو چودہ سال اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو سات سال کی سزا سنائی گئی ہے اس کیس کے تمام ثبوت کی دستیابی اور دلیل کی روشنی میں ہی عدلیہ کا یہ فیصلہ سامنے آیا ہے۔ یہی الزام ہے نا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ اور ان کی اہلیہ نے خلاف قانون یہ سارا کام کیا جس میں ان پر کرپشن ثابت ہوگئی۔ عدالت کا یہ فیصلہ مان لیا جائے تو نواز شریف اور ان کے خاندان کے دوسرے لوگوں کو، آصف علی زداری جن پر ماضی میں جرم ثابت ہوگیا ان کو بھی جیل میں ہونا چاہیے تھا مگر ایسا تو نہیں ہے۔
ہر ہونے والا الیکشن اپنے نتائج کے اعتبار سے پچھلے الیکشن سے بدتر ہوتا جارہا ہے۔ انتخابی عمل میں ریاستی ادارے مداخلت کرکے اپنی مرضی کے لوگ منتخب کروا رہے ہیں جو جتنا طاقتور ادارہ ہے وہ اتنا ہی عدلیہ پر اثر انداز ہورہا ہے اور ہر بار یہ ادارہ ماتحت ادارے کے طور پر کام کرنے پر تیار ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اس ادارے کی ساکھ عوام کے نزدیک اپنی حیثیت کھوچکا ہے۔ یہ تمام واقعات اور عدالت کے فیصلے محتاج بیان نہیں ہیں کہ فیصلے سارے سیاست زدہ ہورہے ہیں۔ جو عدالت پہلے ہی سیاست دانوں اور طاقتورں کی خدمت کیا کرتی تھی اس کے بھی دانت گزشتہ عدالتی اصلاحات کا ترمیمی بل منظور کروا کر نکا ل دیے گئے ہیں۔ عدلیہ، صوبائی و قومی اسمبلیاں، سینیٹ غرضیکہ تمام مقتدر ادارے پاکستان اور اس کی عوام سے کھیل رہے ہیں نوک زباں سے پاکستان اور عوام کی محبت کے کلمات ادا ہورہے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: عدل و انصاف اور ان
پڑھیں:
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ءاعظم سواتی کواٹک جیل سےرہاکردیاگیا
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ءاعظم خان سواتی اٹک جیل سے رہاہوکر ایبٹ آبادمیں اپنی رہائش گاہ پرپہنچ گئے، لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ نے پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی کی گزشتہ روز ضمانت منظور کی تھی۔
الحمداللہ اعظم سواتی صاحب
رہا ہو گئے ہے ابھی گھر پہنچ گئے ہے pic.twitter.com/XajW5zbBPD
— Shah Gee (@snpointpk) February 3, 2025