کراچی (اسٹاف رپورٹر) کراچی کے علاقے لائنز ایریا جناح ٹاؤن یونین کونسل نمبر 9 تقریباً 2 سال سے سیوریج کے مسائل کا شکار، پاکستان تحریک انصاف کے کونسلر عابد علی ویگر کی جانب سے متعدد بار ایم ڈی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن اسد اللہ خان کے دفتر کے چکر لگانے اور سیکڑوں درخواستیں جمع کرانے کے باوجود کوئی شنوائی نہیںکی جارہی جس پر کونسلر یوسی 9 عابد علی، کونسلر وارڈ 4 آصف، لیبر کونسلر آصف گجر، کونسلر وارڈ 2 نعیم اور علاقے کے عوام نے پیر کے روز بھی ایم ڈی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے دفتر پر احتجاج کیا۔ اس موقع پر کونسلر عابد علی کا نمائندہ جسارت سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ علاقے میں سیوریج کا نظام کئی ماہ سے تباہ حال ہے، علاقے بھر میں کٹر ابل رہے ہیں، جگہ جگہ سڑکیں اور گلیاں سیوریج کے پانی سے بھری ہوئی ہیں، کمپریسر مارکیٹ روڈ اور اطرف کی گلیاں، اے بی سینیا لائن، خان کلب روڈ گٹر کے پانی کے تالاب کا منظر پیش کر رہے ہیں، مین روڈ 602 ورکشاپ پر مین گٹر لائن ٹوٹ چکی ہے، تقریباً 6 ماہ قبل اس کی مرمت و تبدیلی کیلیے 24 انچ کے پائپ لائے گئے تھے جو کہ ابھی تک ڈالے نہیں گئے، چیف کراچی سیوریج آفتاب چانڈیو کہہ رہے ہیں کہ یہ پائپ ڈالے جائیں گے، جبکہ نالے پر تعمیراتی کام جاری ہے اور بغیر پائب ڈالے لینٹر ڈال کر اسے مکمل کیا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ علاقے میں 2 ماہ قبل نیا ایکسئین تعینات ہوا ہے جس کے بعد سے علاقے کا سیوریج کا نظام مزید خراب ہوگیا ہے، اور ایکسئین متعدد بار کہنے کے باوجو علاقے کا دورہ کرنے کو تیار نہیں ہے اور اس کے ماتحت افسران و عملہ بھی یوسی میں موجود نہیں ہے جبکہ یوسی میں صرف ایک کنڈی مین تھا وہ بھی ریٹارڈ ہوچکا ہیاور اس اب نالوں کی صفائی اور اہل علاقہ کی شکایات پر گٹر کھولنے کیلیے کوئی کنڈی میں نہیں ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ایم ڈی واٹر بورڈ لائنز ایریا کے عوام پر رحم کرتے ہوئے علاقے کے سیوریج کے مسائل حل کرائیں اور نااہل ایکسئین اور عملے کو ہٹا کر اہل عملہ تعینات کیا جائے۔ عابد علی نے بتایا کہ یوسی کے فنڈ سے اپنی مدد آپ کے تحت علاقے بھر میں نالوں کی صفائی کا کام جاری ہے اور نالوں سے نکلا ہوا کچرا اٹھانا سندھ سالڈ ویسٹ کا کام ہیجبکہ سندھ سالڈ ویسٹ کا انسپکٹر ندیم شاہ اور سمیر کمپلین کے باوجد کچرا نہیں اٹھا رہے، اور اکے ایم سی کا انسپکٹر عمران اپنے کام سے غفلت برتتے ہوئے یہ کچرا نہیں اٹھا رہے جوکہ واپس نالوں میں جانے سے دوبارہ نالوں کو بند کردے گا۔انہوں نے ایم ڈی سندھ سالڈ ویسٹ طارق نظامانی سے بھی اپیل کے کہ علاقے سے کچراجلد از جلد اٹھایا جائے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: عابد علی ایم ڈی

پڑھیں:

افغانستان: غذائی قلت کا شکار بچے امریکی امداد کے بغیر موت کے خطرے سے دوچار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 اپریل 2025ء) افغانستان کے دارالحکومت میں غذائی قلت کے علاج کے ایک مرکز میں بچوں کے رونے کی آوازیں اب نہیں آتیں کیونکہ امریکی امداد میں کٹوتی کی وجہ سے مریضوں کو واپس بھیج دیا گیا ہے اور طبی عملے کو فارغ کر دیا گیا ہے۔

مکمل طور پر واشنگٹن کی مالی اعانت سے چلنے والے اس منصوبے کو اس وقت بند کرنا پڑا جب امریکہ نے تمام غیر ملکی امداد منجمد کردی، ، جو حال ہی میں افغانستان میں سب سے زیادہ امداد فراہم کرنے والا ملک تھا۔

کابل کے مغرب میں کلینک کا انتظام سنبھالنے والی غیر سرکاری تنظیم ایکشن اگینسٹ ہنگر (اے سی ایف) کی کنٹری ڈائریکٹر کوبی رِیٹویلڈ نے کہا کہ اس مرکز میں بچوں کا اب علاج نہیں کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''اگر ان کا علاج نہیں ہوا تو ان کی موت کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔‘‘

نئی فنڈنگ کے بغیر، بچوں کے لیے کھلونوں اور دیگر اشیا کو ہٹا دیا گیا اور مارچ میں آخری مریض کے چلے جانے کے بعد فارمیسی کو بھی تالا لگا دیا گیا۔

چیف ڈاکٹر فرید احمد بارکزئی کے بقول، ''جب غذائی قلت کے مریض ہمارے کلینک میں آتے ہیں تو ہمارے عملے کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے کہ وہ انہیں صورتحال کی وضاحت کریں اور انہیں بتائیں کہ انہیں مناسب علاج کے لیے کہیں اور جانا پڑے گا۔‘‘

اقوام متحدہ کے مطابق چار دہائیوں کی جنگ اور بحرانوں کے بعد افغانستان کو جنگ زدہ سوڈان کے بعد دنیا کے دوسرے سب سے بڑے انسانی بحران کا سامنا ہے۔

کلینک میں ہر ماہ اوسطاﹰ 65 بچوں کا علاج کیا جاتا تھا جو شدید غذائی قلت اور صحت کی پیچیدگیوں کا شکار ہوتے تھے۔

وہ اپنی ماؤں کے ساتھ کئی دنوں تک وہاں رہتے تاکہ نہ صرف انہیں کھانا کھلایا جا سکے بلکہ انہیں بیماری میں مبتلا ہونے سے بچایا جا سکے۔

ریٹویلڈ کے مطابق ''ہر انفیکشن جو ایک بچے کو ہو سکتا ہے، غذائی قلت کا شکار بچہ بھی اس کا شکار ہو جائے گا، جس سے مرنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

‘‘

ریٹویلڈ نے مزید کہا کہ عملے کے لیے، جو اپنے کام کے آخری دن مکمل کر رہا ہے''تکلیف دہ‘‘ ہے کہ ''انہیں ایسے مریضوں کو کہیں اور بھیجنا پڑتا ہے جہاں ان کے لیے خصوصی علاج موجود نہیں ہے۔‘‘

افغان آبادی غذائی قلت اور قحط کے دہانے پر

افغانستان میں، جہاں 45 فیصد آبادی 14 سال سے کم عمر ہے، بچوں کی غذائی قلت سب سے اہم چیلنجوں میں سے ایک ہے کیونکہ یہ طویل مدت میں پوری نسل کو متاثر کرتا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے تقریبا 35 لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔

بالغ افراد بھی غذائی متاثر ہوئے ہیں اور 15 ملین افغان اس وقت غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں، جن میں سے 3.1 ملین پہلے ہی قحط جیسی صورتحال سے دو چار ہیں۔

گزشتہ ہفتے ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا تھا کہ امریکہ نے افغانستان میں اپنے کام کے لیے فنڈنگ بند کر دی ہے۔

(اے سی ایف) کی کنٹری ڈائریکٹر ریٹویلڈ کے مطابق، ''میرے دفتر میں لوگ رو رہے ہیں… ہم سنتے ہیں، مدد کی پیشکش کرتے ہیں، لیکن ہم انہیں نوکری نہیں دلا سکتے۔‘‘

ریٹویلڈ نے کہا کہ امریکی فنڈنگ کی بندش کے بعد، جو اے سی ایف کے مقامی بجٹ کا 30 فیصد بنتا ہے، یہ تنظیم ''تجاویز لکھنے کے عمل میں ہے‘‘ اور ''عطیہ دہندگان کے ساتھ تبادلہ خیال‘‘ کر رہی ہے: ''لیکن مجھے نہیں لگتا کہ دوسرے عطیہ دہندگان اس خلا کو پر کر سکتے ہیں۔‘‘

ادارت: شکور رحیم

متعلقہ مضامین

  • اورنگی ٹاؤن میں پیپلزپارٹی کے یوسی چیئرمین کی ’ٹارگٹ کلنگ‘
  • پیٹرول سے بچت نہ ہوتو کیا بلوچستان کی سڑکیں نہیں بنیں گی؟ شاہد خاقان عباسی
  • ایران میں دہشتگردوں کے ہاتھوں جاں بحق 8پاکستانیوں کی میتیں آبائی علاقوں میں پہنچ گئیں۔
  • ایران سے 8 پاکستانیوں کی میتیں آبائی علاقوں میں پہنچا دی گئیں
  • ایران میں دہشتگردی کا شکار 8 پاکستانیوں کی میتیں بہاولپور پہنچا دی گئیں
  • پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ ایک بار پھر تاخیر کا شکار
  • خیبر پختونخوا، مختلف علاقوں میں موسلار دھار بارش، ندی، نالوں میں طغیانی، گاڑیاں بہہ گئیں
  • خیبر پختونخوا: مختلف علاقوں میں موسلار دھار بارش، ندی، نالوں میں طغیانی، گاڑیاں بہہ گئیں
  • افغانستان: غذائی قلت کا شکار بچے امریکی امداد کے بغیر موت کے خطرے سے دوچار
  • کلبھوشن ہو یا کسی اور ملک کا شہری، کونسلر رسائی تو سب کے لیے ہونی چاہیے، سپریم کورٹ