گاڑیوں اور دیواروں پر لگنے والے سستے سولر پینل تیار
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
لاہور:
جاپانی سائنس دانوں نے 2009ء میں پروسکائٹ (Perovskite) دھاتوں سے سولر پینل بنانے کا طریقہ دریافت کیا تھا۔ اب جاپانی ماہرین نے ان دھاتوں سے ایسے سولر پینل بنا لیے جو دھوپ سے بجلی بنانے میں’’ 40 فیصد ‘‘ایفیشنسی رکھتے ہیں۔
کرسٹلین سلیکون سے بنے روایتی سولر پینلوں کی ایفیشنسی بہ لحاظ قیمت 15 سے 30 فیصد کے درمیان ہے۔
جاپانی سیکیسوئی (Sekisui) کمپنی جلد تجارتی طور پہ پروسکائٹ سولر پینل بنائے گی۔ جاپانی حکومت اگلے پانچ برس میں یہ پینل سرکاری عمارتوں کی دیواروں ، چھتوں ،میدانوں اور گاڑیوں کے اوپر لگا کر’’ 20 ہزار میگاواٹ‘‘ بجلی بنانا چاہتی ہے۔
تاہم جلد چین پروسکائٹ سولر پینل بنانے میں عالمی لیڈر بن جائے گا کہ ان کا میٹریل، ٹن اورلیڈ وہیں زیادہ ملتا ہے۔ یہ سولر پینل سیلکون پینلوں کے مقابلے میں کم لاگت میں بنتے، تیاری کا سادہ انداز رکھتے اور کم دھوپ کے علاوہ بارشی ماحول میں بھی زیادہ بجلی بناتے ہیں۔
پھر لچکداری کے باعث انھیں دیوار، گاڑی کی چھت بلکہ کسی بھی جگہ لگانا ممکن ہے۔ یہ پینل شمسی توانائی میں انقلاب لے آئیں گے۔چینی کمپنیاں بھی سلیکون اور پروسکائٹ مادوں کے اشتراک سے ’’ 39 فیصد ‘‘ایفیشنسی والے سول پینل بنانے لگی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سولر پینل
پڑھیں:
ایران میں 8 پاکستانی مزدوروں کا بہیمانہ قتل، لاشوں کی واپسی میں 8 سے 10 دن لگنے کا امکان
ایران کے مغربی صوبے سیستان و بلوچستان کے ضلع مہرستان کے نواحی گاؤں ہیزآباد پایین میں پیش آنے والے ایک ہولناک واقعے میں آٹھ پاکستانی مزدوروں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ تمام مقتولین کا تعلق پنجاب کے ضلع بہاولپور سے بتایا جا رہا ہے۔ واقعے نے دونوں ممالک میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ مقتولین کی لاشوں کی واپسی میں آٹھ سے دس دن تک لگ سکتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق، حملہ آور ایک آٹو ورکشاپ میں داخل ہوئے اور مزدوروں کو ہاتھ پاؤں باندھ کر گولیاں مار دیں۔ مقتولین کی شناخت دلشاد، اس کے بیٹے نعیم، جعفر، دانش اور ناصر کے ناموں سے ہوئی ہے۔ یہ تمام افراد عرصہ دراز سے سیستان میں روزگار کی غرض سے مقیم تھے اور بطور مکینک کام کر رہے تھے۔
ایرانی سیکیورٹی فورسز نے لاشیں تحویل میں لے کر تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔ ابھی تک حملہ آوروں کی شناخت سامنے نہیں آ سکی تاہم ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس واقعے میں ایک پاکستان مخالف دہشت گرد تنظیم کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ایرانی سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ لاشوں کی واپسی میں 8 سے 10 دن لگ سکتے ہیں، کیونکہ جائے وقوعہ دور دراز علاقے میں واقع ہے اور قانونی و فارنزک تقاضے پورے کیے جا رہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی سفارتخانہ مسلسل ایرانی حکام سے رابطے میں ہے اور تمام توجہ لاشوں کی جلد واپسی پر مرکوز ہے۔
یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب پاکستان اور ایران کے تعلقات میں بہتری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے واقعے پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایرانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ قاتلوں کو جلد از جلد گرفتار کر کے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کو دہشتگردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی۔
وزیراعظم نے وزارت خارجہ کو مقتولین کے اہل خانہ سے فوری رابطہ کرنے اور ایران میں پاکستانی سفارتخانے کو لاشوں کی بحفاظت وطن واپسی کے لیے ہر ممکن اقدامات کی ہدایت کی ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ اس المناک واقعے پر ایرانی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں اور جیسے ہی مزید تفصیلات سامنے آئیں گی، باقاعدہ بیان جاری کیا جائے گا۔
مقتولین کے لواحقین شدید غم میں مبتلا ہیں۔ احمدپورشرقیہ میں ایک شہید کی والدہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’ڈیڑھ سال بعد میرا بیٹا واپس آرہا تھا، مگر ظالموں نے میرے غریب بیٹے کو مار ڈالا۔ اُس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔‘
Post Views: 1