زرعی ٹیکس کی منظوری کیلیے وزیراعلیٰ سندھ کو کابینہ میں سخت مخالفت کا سامنا
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
کراچی ( اسٹاف رپورٹر) زرعی ٹیکس کی منظوری کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو صوبائی کابینہ میں سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ بیشتر اراکین نے صوبوں میں وفاق کے زرعی ٹیکس نفاذ کو صوبائی خودمختاری میں مداخلت کہا۔کابینہ کی رائے تھی کہ زرعی ٹیکس میں صنعتوں کے برابر ٹیکس لگانا زرعی شعبے سے زیادتی ہو گی، زرعی شعبہ صنعتی شعبے کے طرح ریگیولیٹ نہیں ہوتا، اس لیے اس پر ٹیکس
لگانا زیادتی ہے، زرعی شعبے میں ہاری 50 فیصد کا حقدار ہوتا ہے جبکہ صنعت میں تنخوا دار ہوتا ہے۔سندھ کابینہ میں شامل اراکین کا کہنا تھا کہ صنعتی شعبے میں ورکر کی کوئی حصہ داری نہیں ہوتی صرف تنخواہ دار ہوتا ہے، کابینہ ارکان نے درخواست کی کہ وزیراعلیٰ سندھ اس پر پہلے وفاقی حکومت سے بات کریں۔ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ کو بار بار کابینہ ارکان کو زرعی ٹیکس کی منظوری کے لیے درخواست کرنا پڑی، اراکین نے کہا اس ٹیکس کے بعد ہمارے حلقوں کے کاشتکار ہم سے سوالات کریں گے تو کیا جواب دیں گے؟ ٹیکس منظوری ملکی مفاد میں ہے لیکن آپ وفاقی حکومت سے دوبارہ بات کریں۔ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ میں وزیراعظم سے بات کروں گا مگر زرعی ٹیکس لگانا قومی مفاد میں ہے، وفاقی حکومت آئی ایم ایف شرط پر صوبائی حکومتوں سے زرعی ٹیکس لگوانا چاہتی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: زرعی ٹیکس
پڑھیں:
پی ٹی آئی کا کے پی مائنز اینڈ منرل بل کی منظوری کیلیے عمران خان سے اجازت لینے کا فیصلہ
پشاور:تحریک انصاف کی قیادت نے عمران خان کی اجازت کے بعد ہی مائنز اینڈ منرل بل کو کے پی اسمبلی سے منظور کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں بل پیش کیا جاچکا ہے اور اس پر بحث جاری ہے لیکن یہ بل عمران خان کے ایجنڈے، منشور، بیانیے اور عوامی امنگوں کے عین مطابق ہوگا۔ بل کی منظوری قائد عمران خان سے تفصیلی مشاورت، باقاعدہ اجازت اور اعتماد میں لینے بعد کے بعد ہی اسمبلی سے منظور کروایا جائے گا۔
تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق خیبر پختونخوا اسمبلی میں زیر بحث مائنز اینڈ منرلز بل پر تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کا تفصیلی اجلاس ہوا جس میں وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے بل کے تمام اہم نکات پہ جامع اور مفصل وضاحت پیش کی۔
کمیٹی نے اس بل کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا اور متفقہ طور پر طے پایا کہ بل میں صوبائی خودمختاری، حقوق و معدنی وسائل وفاق، ایس آئی ایف سی یا کسی بھی وفاقی ادارے کو منتقل کرنے کی کوئی شق شامل نہیں ہے۔ طے پایا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی مثبت تجاویز کو خوش آمدید کہا جائے گا، بل کی منظوری سے قبل دیگر پارلیمانی جماعتوں سے مشاورت جاری رہے گی۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں بل پیش کیا جاچکا ہے اور اس پر بحث جاری ہے لیکن یہ بل عمران خان کے ایجنڈے، منشور، بیانیے اور عوامی امنگوں کے عین مطابق ہوگا۔ بل کی منظوری قائد عمران خان سے تفصیلی مشاورت، باقاعدہ اجازت اور اعتماد میں لینے بعد کے بعد ہی اسمبلی سے منظور کروایا جائے گا
اجلاس میں طے پایا گیا کہ اس بل پر کسی قسم کی جلد بازی نہ کی گئی تھی نہ کی جا رہی ہے اور نہ کی جائے گی، عمران خان کی جانب سے 8 اپریل کی ملاقات کی ہدایت کے مطابق چیئرمین سے ملاقات کرنے والے افراد ملاقات کی تفصیلات یا ہدایات پر میڈیا سے بات چیت کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔
قائد عمران خان کے حکم کے مطابق ان سے ملاقات کرنے والی شخصیات ان کی ہدایات تحریری طور پہ پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کو دیں گے اور وہ تحریری ہدایات و بیانات صرف اور صرف مرکزی سیکرٹری اطلاعات ہی جاری کرنے کا مجاز ہوگا انکے علاوہ کسی بھی بیان کو مصدقہ نہیں سمجھا جائے گا۔
پارٹی عہدے دار ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی سے گریز کریں، خلاف ورزی پر شوکاز نوٹس جاری ہوگا۔ خلاف ورزی کرنے والے پہ جن کے پاس پارٹی کے عہدے ہیں ان سے ذمہ داریاں واپس لے لی جائیں گی۔
اجلاس میں بیرسٹر گوہر کو پنجاب کے چیف آرگنائزر کے اختیارات سے متعلق آگاہی دی گئی۔ چیف آرگنائزر کے ساتھ 6 رکنی مشاورتی کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت دی گئی۔