برسلز(صباح نیوز)یورپی یونین کی خارجہ امور اور سلامتی کی پالیسی کے اعلیٰ نمائندے کالاس نے کہا ہے کہ امریکا کے ساتھ تجارتی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوگا۔کالاس نے
بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں یورپی یونین کے رہنمائوں کے دفاعی سربراہی اجلاس سے قبل میڈیا سے بات چیت میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یورپی ممالک پر کسٹم ڈیوٹی بڑھانے سے متعلق بیانات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم ان کی باتوں کو غور سے سن رہے ہیں اور اپنی طرف سے تیاریاں کر رہے ہیں تاہم ایک بات واضح ہے کہ تجارتی جنگوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔کالاس نے بیان کیا کہ امریکا اور یورپی یونین کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے، اگر امریکا تجارتی جنگ شروع کرتا ہے تو فائدہ اٹھانے والا فریق چین ہی ہو گا، ہم ایک دوسرے سے بہت جڑے ہوئے ہیں، ہمیں امریکا اور امریکا کو ہماری ضرورت ہے، میٹنگ میں دفاعی اخراجات میں اضافے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیے جانے کا ذکرتے ہوئے کالاس نے یورپ کے دفاع کو مضبوط بنانے میں برطانیہ اور امریکا کے ساتھ تعاون کی اہمیت کی نشاندہی کی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: یورپی یونین

پڑھیں:

کیا دھماکا کرنے، ملک دشمن کیساتھ ساز باز کرنے والے اور عام شہری میں کوئی فرق نہیں؟ جسٹس حسن رضوی

کیا دھماکا کرنے، ملک دشمن کیساتھ ساز باز کرنے والے اور عام شہری میں کوئی فرق نہیں؟ جسٹس حسن رضوی WhatsAppFacebookTwitter 0 3 February, 2025 سب نیوز

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس حسن اظہر رضوی نے وکیل سے مکالمہ کیا کہ کیا دھماکا کرنے والے، ملک دشمن جاسوس کیساتھ ساز باز کرنے والے اور عام سویلنز میں کوئی فرق نہیں؟ آپ کو اپنے دلائل میں تفریق کرنی چاہیے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بنچ سماعت کر رہا ہے۔

جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل کا آغاز کر دیا اور مؤقف اپنایا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل کسی صورت نہیں ہو سکتا، فوجی عدالتوں کا طریقہ کار شفاف ٹرائل کے تقاضوں کے برخلاف ہے۔

خواجہ احمد حسین نے استدلال کیا کہ سپریم کورٹ کے تمام پانچ ججز نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے طریقہ کار کے شفاف ہونے سے اتفاق نہیں کیا، جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا دھماکا کرنے والے، ملک دشمن جاسوس کیساتھ ساز باز کرنے والے اور عام سویلنز میں کوئی فرق نہیں ہے؟ آپکو اپنے دلائل میں تفریق کرنی چاہیے۔

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ میں کسی دہشتگرد یا ملزم کے دفاع میں دلائل نہیں دے رہا، سویلنز کا کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو اکیسویں ترمیم نہ کرنا پڑتی، جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ اکسیویں ترمیم میں تو کچھ جرائم آرمی ایکٹ میں شامل کیے گئے تھے۔

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ اگر آرمی ایکٹ میں ترمیم سے کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو آئینی ترمیم نہ کرنی پڑتی، اس طرح کورٹ مارشل ممکن ہے تو عدالت کو قرار دینا پڑے گا کہ اکسیویں ترمیم بلاجواز کی گئی،
اکسیویں ترمیم میں آرٹیکل 175 میں بھی ترمیم کی گئی، فوجی عدالتوں میں فیصلے تک ضمانت کا کوئی تصور نہیں۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ ملٹری کورٹس میں تو اسپیڈی ٹرائل کیا جاتا ہے، پندرہ دن میں فیصلہ ہوجائے تو ضمانت ہونا نہ ہونا سے کیا ہوگا، خواجہ احمد حسین نے دلیل دی کہ فوجی عدالتوں میں اپیل کسی آزاد فورم پر جاتی ہے نہ مرضی کا وکیل ملتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے مکالمہ کیا کہ آپ اپنے دلائل محدود رکھیں کیا مرکزی فیصلہ درست تھا یا نہیں، جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ آپ نے شیخ لیاقت حسین کیس کی مثال دی تھی، اس وقت پبلک اور آرمی میں براہ راست کوئی لڑائی نہیں تھی، غالباً ایک واقعہ کراچی میں ہوا تھا جس میں ایک میجر کو اغواء کیا گیا تھا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اکیسویں ترمیم میں تو سیاسی جماعت کو باہر رکھا گیا تھا، ہمارے سامنے سوال صرف یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق کس پر ہوگا، خدانخواستہ دہشتگردی کا ایک حملہ پارلیمنٹ، ایک حملہ سپریم کورٹ اور ایک حملہ جی ایچ کیو پر ہوتا ہے، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ پر حملے کا ٹرائل انسداد دہشت گردی عدالت میں چلے گا، جی ایچ کیو پر حملہ ملٹری کورٹ میں چلے گا، میری نظر میں تینوں حملے ایک جیسے ہی ہیں تو تفریق کیوں اور کیسے کی جاتی ہے۔

ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے مؤقف اپنایا کہ عدالت ایسا دروازہ نہ کھولے جس سے سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو،جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہم کوئی دروازہ نہیں کھول رہے، ہم نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ اپیل منظور کی جاتی ہے یا خارج کی جاتی ہے۔

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ وزارت دفاع کے وکیل نے دلائل میں کہا آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت اپیل قابل سماعت ہی نہیں تھی، وزارت دفاع کے وکیل نے کہا جہاں آرٹیکل 8 کی زیلی شق تین اے اپلائی ہو وہاں درخواست قابل سماعت تھی، گر اس کیس میں آرٹیکل 184 کی شق تین کا اطلاق نہیں ہو سکتا تو پھر کسی اور کیس میں اطلاق ہو ہی نہیں سکتا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے ہمیشہ آرٹیکل 184 کی شق تین کے اختیار سماعت کو محتاط انداز میں استعمال کرنے کی رائے دی، ملٹری کورٹس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی رائے دی آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت براہ راست درخواست قابل سماعت تھی۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کے ٹیکسوں کی بھرمار سے ایشیائی ممالک کی اسٹاک مارکیٹس میں شدید مندی
  • ٹرمپ یورپی یونین کے خلاف بھی ٹیرف کا ہتھیار استعمال کریں گے؟
  • جلد ہی یورپی یونین سے درآمد ات پر بھی محصولات عائد کر دیئے جائیں گے، امریکی صدر
  • کیا دھماکا کرنے، ملک دشمن کیساتھ ساز باز کرنے والے اور عام شہری میں کوئی فرق نہیں؟ جسٹس حسن رضوی
  • تجارتی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا، چینی وزارتِ تجارت
  • کوئی کسی غلط فہمی میں نہ رہے، اس بار تیاری کیساتھ اسلام آباد جائیں گے: جنید اکبر
  • امریکا:میکسیکو اور کینیڈا پر25 فیصد ،چین پر 10 فیصد محصولات عاید،یورپی یونین کوبھی نشانہ بنانیکا اعلان
  • یورپی یونین کا پاکستان کے لیے جی ایس پی پلس اسٹیٹس پر اہم اعلامیہ جاری، کیا شرائط عائد کیں؟
  • پاکستان کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس انسانی حقوق سے مشروط ہوگا، یورپی یونین