پارلیمنٹ کو سپریم کہنے والے دعویدار ارکان پارلیمنٹ کا یہ حال ہے کہ وزیر اعظم کو قومی اسمبلی میں بار بار کورم ٹوٹنے کا نوٹس لینا پڑا اور مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کرنا پڑا کیونکہ اسپیکر قومی اسمبلی جو خود مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھتے ہیں نے خود وزیر اعظم کے سامنے کورم ٹوٹنے کا معاملہ اٹھایا جس پر وزیر اعظم نے نوٹس لیا اور تمام وزرا اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان کو پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی ہدایت کی۔
اس سلسلے میں اہم بات تو یہ ہے کہ وزیر اعظم اکثر پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں خود شرکت نہیں کرتے جب وہ ہی پارلیمنٹ نہیں آتے تو ان کے وزرا نے بھی پارلیمنٹ سے غیر حاضر رہنا ہے۔ وزیر اعظم کو دکھانے کے لیے مجبوری میں وزرا پارلیمنٹ آتے ہیں جب وزیر اعظم ہی ایوان میں نہ ہوں تو وزیروں کوکیا پڑی کہ وہ پارلیمنٹ آئیں۔ ایسی صورت میں تو ارکان کو کیا پڑی کہ وہ ایوان میں آئیں اور کورم پورا کریں۔
جس پارلیمنٹ کو ارکان پارلیمنٹ سپریم قرار دیتے نہیں تھکتے، ان ارکان کے روئیے کے باعث ہی قومی اسمبلی کے اسپیکر کو وزیر اعظم سے ارکان کے غیر حاضر رہنے کی شکایت کرنا پڑی۔ خود وزیر اعظم کو دیکھنا چاہیے کہ وہ موجودہ قومی اسمبلی میں کتنی بار آئے اور یہ وہی قومی اسمبلی ہے جس کو پی ٹی آئی والے فارم 47 کی قومی اسمبلی قرار دیتے ہیں اور خود بھی اکثر قومی اسمبلی کے اجلاس سے غیر حاضر رہتے ہیں۔
اور اگر کچھ آتے بھی ہیں تو کسی خاص مقصد، ہنگامہ آرائی کرنے یا ایوان میں کورم نہ ہونے کی نشان دہی کرنے۔ حکومتی ارکان تو ایوان سے غیر حاضر رہتے ہی ہیں مگر اپوزیشن ارکان جو ایک بڑی تعداد کے حامل ہیں اگر خود غیر حاضر نہ رہیں اور ایوان میں اکثریت میں رہیں تو وہ حکومت کو من مانی قانون سازی سے روک سکتے ہیں اور قانون سازی میں حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں جس پر حکومت اپنے ارکان کو ایوان میں موجود رہنے پر مجبور کر سکتی ہے، ورنہ حکومت کو بار بار ایوان میں شکست دیکھنی پڑے اور کورم پورا رکھنا پڑے۔
ارکان پارلیمنٹ خواہ حکومتی ہوں یا اپوزیشن کے سب ہی کی اکثریت غیر ذمے دار ہے مگر پارلیمنٹ کے سپریم ہونے کے دعویدار ہیں اور خود ایوان سے غائب رہتے ہیں تو کوئی تو ان سے پوچھے کہ جب وہ سپریم پارلیمنٹ میں آتے نہیں تو اس کا کروڑوں روپے خرچ کر کے الیکشن ہی کیوں لڑتے ہیں؟ جہاں غیر حاضر رہنا معمول بن چکا ہو۔
ایوان سے حلف اٹھانے کے بعد نظرانداز کرنے والے وزیر اعظم، وزرا تمام ارکان جب پارلیمنٹ کو خود سپریم سمجھ کر بھی غیر حاضر رہنا معمول بنائیں گے تو اس پارلیمنٹ کو کون سپریم سمجھے گا ۔ یہ سپریم ادارہ ماضی میں ایک غیرسول حکمران کو آئین میں ترمیم کا اختیار دے چکا ہے مگر وہ خود آئین میں ترمیم کا اختیار نہیں رکھتے مگر وہ خود اتنے سپریم ہیں کہ غیر قانونی ترمیم کا اختیار غیر سول صدر کو دے دیتے ہیں۔
پارلیمنٹ میں غیر حاضری آج کا نہیں دیرینہ مسئلہ ہے۔ پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ضرور پارلیمنٹ کو اہمیت دیتے تھے ان کا اور دس ماہ وزیر اعظم رہنے والے مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی کا پارلیمنٹ میں آنے کا ریکارڈ پھر بھی دیگر وزرائے اعظم سے بہت بہتر ہے جو اکثر پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں موجود رہتے تھے۔
جب کہ میاں نواز شریف واحد وزیر اعظم تھے جو کم ہی قومی اسمبلی اجلاسوں خصوصاً بجٹ اجلاسوں میں آتے تھے مگر وہ ایک سال سے زیادہ عرصہ سینیٹ کے ایوان سے غیر حاضر رہے تھے۔ میر ظفر اللہ جمالی (ق) لیگ حکومت میں وزیر اعظم شوکت عزیز سے بہتر وزیر اعظم تھے جو قومی اسمبلی اجلاسوں میں اکثر موجود ہوتے تھے۔
پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کا بھی پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں نہ آنے کا ریکارڈ تھا اور ان کی حکومت کی نااہلی کا یہ حال تھا کہ انھوں نے خود تسلیم کیا کہ بجٹ پاس کرانے کے لیے بھی انھیں بالاتروں سے مدد لینا پڑتی تھی اور ان کے دور میں بھی کورم مسئلہ ہوتا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت میں قومی اسمبلی میں کورم کا مسئلہ اتنا شدید ہو چکا ہے کہ کورم نہ ہونے پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں اختلافات بڑھ گئے ہیں اور پی پی نے واضح کر دیا ہے کہ وزیر اعظم کے خود قومی اسمبلی نہ آنے تک پی پی ارکان بھی ایوان میں نہیں آئیں گے۔
وزیر دفاع نے وزیر اعظم کو کورم پورا نہ ہونے کے تحفظات کا بتایا ہے جو پیپلز پارٹی کو ہیں اور اسپیکر نے بھی وزیر اعظم کو بتایا ہے کہ ارکان قومی اسمبلی ایوان میں بیٹھنا گوارا نہیں کرتے جس پر وزیر اعظم کو نوٹس لینا پڑا ہے۔اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے رکن نوید قمر کا کہنا ہے کہ ہم ایوان کا بائیکاٹ کرنا نہیں چاہتے حکومت کو کورم کا مسئلہ حل کرنا چاہیے۔
اسپیکر قومی اسمبلی مسلم لیگ (ن) کے ارکان قومی اسمبلی کی ایوان میں نہ آنے اور عدم دلچسپی کی شکایت کر چکے ہیں جس سے کورم نہ ہونا اہم مسئلہ بن کر رہ گیا ہے اور جب تک خود وزیر اعظم ایوان آنا نہیں شروع کریں گے کورم کا مسئلہ چلتا رہے گا ۔ کورم پورا نہ ہونے پر بھی قانون سازی جاری رہتی ہے چند ممبران اجلاس میں موجود ہوتے ہیں اور اپوزیشن کورم نہ ہونے کی نشان دہی کرے تو برا سمجھا جاتا ہے اور اجلاس ملتوی کرنا پڑتا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: وزیر اعظم کو پارلیمنٹ کے قومی اسمبلی پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کو اجلاسوں میں ایوان میں کورم پورا ایوان سے کے اجلاس نہ ہونے کورم نہ ہیں اور ہیں تو
پڑھیں:
قومی اسمبلی : فلسطینو ں سے یکجتی ‘ اسرائیلی مظالم کیخلاف متفقہ ‘ 6نئی نہروں کی تفصیل پیش
اسلام آباد (خبر نگار+ نوائے وقت رپورٹ) قومی اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز سپیکر ایاز صادق کی زیرصدارت شروع ہوا۔ اجلاس میں مسئلہ فلسطین اور اسرائیلی مظالم کے حوالے سے اراکین نے گفتگو کی اور اسرائیلی بربریت کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں قرارداد پیش کی جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اقوام متحدہ فلسطین میں بربریت رکوانے میں اپنا کردار ادا کرے اور تباہ شدہ غزہ کی تعمیر نو میں کردار ادا کیا جائے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ اسرائیلی بربریت کو فوری طور پر روکا جائے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان ساٹھ ہزار فلسطینی شہداء کو سلام پیش کرتا ہے، یہ ایوان جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی بمباری کی شدید مذمت کرتا ہے، یہ ایوان اسرائیلی جارحیت کو عالمی برادری کی ناکامی تصور کرتا ہے۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ یہ ایوان اسرائیلی افواج کے فوری انخلا کا مطالبہ کرتا ہے۔ قومی اسمبلی نے متفقہ طورپر فلسطینیوں کی حمایت جبکہ اسرائیل کے خلاف قرارداد منظور کرلی گئی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ مسئلہ فلسطین ہمارے ایمان کا بھی حصہ ہے، مسلمانوں کا قبلہ اول فلسطین میں ہے۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ مسئلہ کشمیر و فلسطین کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہیے، پاکستان کا مسئلہ فلسطین کے حوالے سے مؤقف دو ٹوک اور واضح ہے، اسرائیل کے بارے میں بانی پاکستان قائداعظم اپنی قومی پالیسی دے چکے ہیں، حکومت پاکستان بانی پاکستان کی قومی پالیسی پر کھڑی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل نے کہا ہے کہ یہودیوں کی کل آبادی جتنے ہمارے پاس مولوی ہیں مگر دعائیں قبول نہیں ہو رہیں‘ صرف بددعائیں دینے سے اسرائیل تباہ نہیں ہو گا۔ کیا ہم اب بھی ابابیلوں کے انتظار میں ہیں‘ اگر ابابیلیں آ بھی گئیں تو وہ ہمیں ہی ماریں گی۔ قبل ازیں قومی اسمبلی کے اجلاس میں فلسطین کے مسئلے پر بحث کے لئے وقفہ سوالات معطل کرنے کی تحریک متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔ تحریک وفاقی وزیر برائے قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیش کی۔ اجلاس میں ایران میں شہید ہونے والے پاکستانی مزدوروں کے لئے دعا کی گئی۔ اجلاس میں سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے چیف وہپس نے اپروچ کیا ہے کہ فلسطین کے مسئلے پر بات کی جائے۔ اپوزیشن کے رکن اسمبلی ملک عامر ڈوگر نے کہا کہ کینالز کے مسئلے پر سب سے پہلے تحریک انصاف نے قرار داد جمع کرائی تھی جس پر سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ پیر والے دن کینال والے مسئلے پر بات کی گئی، آپ نے واک آؤٹ کیا۔ اس کے بعد پیر کو پیپلز پارٹی نے قرارداد جمع کرائی تھی، آپ کی قرارداد جمعرات کو آئی تھی۔ اجلاس میں سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ ہم کہاں پہ ہیں، اسرائیل نے فلسطینیوں کا قتل عام بعد میں کیا۔ عالم اسلام کے حکمرانوں نے اس قتل عام کو فسیلیٹیٹ کیا۔ عالم اسلام کی افواج کا ایک اتحاد بنا اس کے سربراہ راحیل شریف تھے، ان سے پوچھنا ہے ابھی بھی کوئی حکمت عملی ہے یا اپنے مفادات کو ڈیفنڈ کرنا ہے۔ آج پورا عالم اسلام کہاں ہے، یہ ہولو کاسٹ سے دس گنا بڑی نسل کشی ہے، ہم سب ذمہ دار ہیں۔ اگر وہ نسل کشی ختم نہیں کرتے تو پھر عالم اسلام مل کر جہاد کر اعلان کرے۔ پیپلز پارٹی نے کراچی میں غزہ مارچ ہونے دیا، آپ نے لوگوں کو مارا، پارلیمنٹیرینز کی گاڑیوں سے فلسطین کے جھنڈے اتارے۔ پی ایس ایل میں فلسطین کا جھنڈا اٹھائے لوگوں پر لاٹھی چارج کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ فلسطین کے معاملے پر ہم سب متحد ہیں۔ غزہ میں نہتے فلسطینیوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ فلسطین کے معاملے پر ہمیں سیاست سے گریز کرنا چاہئے، پوائنٹ سکورنگ کی بجائے عملی اقدامات یقینی بنانا ہوں گے۔ وفاقی وزیر مصطفی کمال نے کہا کہ 100بچوں کو خاندانوں سمیت پاکستان لایا جائے، ان کا علاج کریں، یہ فلسطینوں کا نہیں ہمارا امتحان ہے۔ رکن اسمبلی شیر افضل مروت نے کہا کہ جب سے ایوان کی کارروائی شروع ہوئی ہے دو تین وزراء آتے ہیں، اس ایوان میں کارروائی غیر سنجیدگی کا شکار ہے۔ ایک فلسطینی این جی او یہاں کام کرنا چاہتی ہے بینکوں کا جواب آیا کہ کسی فلسطینی این جی او کو اکائونٹ کھولنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ آنے والا وقت ہماری تقاریر کو نہیں عملی اقدامات کو یاد رکھے گا۔ پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ غزہ کا ہر سکول، کالج تباہ ہو چکا ہے۔61ہزار لوگ شہید ہو چکے ہیں۔ ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا۔ انسانیت کی خاطر تو اکٹھے ہوجائیں۔ قومی اسمبلی نے فلسطین میں جاری اسرائیلی مظالم کے خلاف قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی۔ قرارداد پر حکومت اور حزب اختلاف کی تمام پارلیمانی جماعتوں کے دستخط موجود تھے۔ وفاقی وزیر آبی وسائل کا کہنا ہے کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی بار بار بندش سے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان ہوا ہے۔ بعدازاں اجلاس غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا گیا۔قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیر برائے آبی وسائل معین وٹو نے 6 نئی نہروں سے متعلق تحریری تفصیلات ایوان میں پیش کیں۔ وفاقی وزیر کے مطابق پنجاب کے لیے چھوٹی چولستان نہر کے منصوبے کے لیے ارسا نے جنوری 2024 میں این او سی جاری کیا، یہ منصوبہ حکومت پنجاب کی مالی معاونت سے مکمل کیا جا رہا ہے، جبکہ منصوبے کی کل لاگت 225 ارب 34 کروڑ روپے ہے جسے سی ڈی ڈبلیو پی نے ایکنک کو بھجوا دیا ہے، تاہم ایکنک نے تاحال اس کے پی سی ون پر غور نہیں کیا۔ معین وٹو نے بتایا کہ حکومت سندھ نے 15 نومبر 2024 کو ارسا کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ منسوخ کرنے کی سمری ارسال کی جبکہ تھر کینال منصوبے کے لیے ارسا سے این او سی کی باضابطہ درخواست نہیں دی گئی۔ واپڈا نے اس منصوبے کے لیے 212 ارب روپے کا پی سی ون جمع کرایا ہے، منصوبہ فی الحال غیر منظور شدہ ہے۔ گریٹر تھل کینال کے لیے ارسا نے مئی 2008 میں پانی کی دستیابی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا، اس منصوبے کا پہلا مرحلہ 10 ارب 17 کروڑ روپے کی لاگت سے 2010 میں مکمل ہو چکا ہے اور اسے پنجاب کے حوالے بھی کیا جاچکا ہے، دوسرے مرحلے کی منظوری ایکنک نے 2024 میں سی سی آئی سے مشروط کر کے دی ہے۔ برساتی نہر منصوبے کے لیے ارسا نے ستمبر 2002 میں سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔ فیز ون 17 ارب 88 کروڑ 60 لاکھ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا اور اسے حکومت سندھ کے حوالے کر دیا گیا، فیز ٹو کی تجویز کو جی او سی مشاورتی اجلاس میں مسترد کر دیا گیا۔ نہری منصوبے کا این او سی ارسا نے اکتوبر 2003 میں جاری کیا، اس کا فیز ون 2017 میں مکمل ہوا، تاہم 2022 کے سیلاب میں اسے نقصان پہنچا، واپڈا نے متاثرہ حصوں کی مرمت جزوی طور پر کر دی ہے، رواں مالی سال مارچ تک اس منصوبے کے لیے 22 ارب 92 کروڑ روپے مختص کیے گئے جبکہ فیز ٹو کے لیے 70 ارب روپے کا پی سی ون تیار کر لیا گیا ہے جس کی منظوری کا انتظار ہے۔ معین وٹو کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کے لیے سی بی آر سی نہر کو ارسا نے اپریل 2004 میں این او سی دیا جبکہ ایکنک نے 2022 میں 189 ارب 61 کروڑ روپے کا پی سی ون منظور کیا، یہ منصوبہ فی الحال ایوارڈ کے عمل سے گزر رہا ہے۔