Express News:
2025-02-03@23:51:16 GMT

مسلم لیگ ن کی داخلی سیاست

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ جب بھی وہ اقتدار میں آتی ہیں تو اقتدار کو اہمیت دے کر اپنی ہی سیاسی جماعتوں کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اقتدار کی سیاست میں سیاسی جماعتوں کی اہمیت کمزور اور اقتدار مضبوط ہوتا ہے لیکن جب یہ سیاسی جماعتیں اقتدار سے باہر نکلتی ہیں تو انھیں اپنی سیاسی جماعتوں کی کمزوری کا احساس ہوتا ہے۔

مسلم لیگ ن بھی کچھ اسی سطح کی صورتحال سے دوچار ہے۔بڑی سیاسی جماعت کا خود کو ایک صوبے تک محدود کرنااسے مزید سیاسی تنہائی میں مبتلا کر رہا ہے۔ پنجاب کی سیاست کئی دہائیوں تک مسلم لیگ نون کے قبضے میں چلی آ رہی ہے اور اسی بنا پر صوبے میں مسلم لیگ نون کا سیاسی اقتدار ہے۔

لیکن اب یہاں مسلم لیگ نون کے لیے ایک بہت مضبوط اور سخت حریف پی ٹی آئی کی صورت میں موجود ہے۔ پی ٹی آئی نے مسلم لیگ نون کو پنجاب اور کے پی کے میں سخت ٹائم دیا ہے۔لیکن مسلم لیگ نون کی قیادت نے موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کا سیاسی مقابلہ کرنے کے بجائے خود کو محض اقتدار تک محدود کرکے سیاسی میدان تنہا چھوڑا ہوا ہے۔مسلم لیگ نون کی سیاست نواز شریف ، شہباز شریف، حمزہ شہباز اور مریم نواز تک محدود ہے۔

پنجاب کی سیاست پر مکمل کنٹرول مریم نواز کا ہے جب کہ شہباز شریف بھی اب پنجاب کے معاملات میں سرگرم نہیں ہے کیونکہ وہ مرکز میں وزیراعظم ہیںجب کہ نواز شریف بھی عملی سیاست میں اس طرح سے سرگرم نہیں جس طرح سے ان کو ہونا چاہیے تھا۔

انھوں نے خود کو سیاسی طور پر تنہا کیا ہوا ہے۔ بہت سے ارکان پنجاب اسمبلی کو اس بات کا گلہ ہے کہ وزیراعلیٰ کی ان سے ملاقات نہیں ہوتی اور نہ ہی پارٹی کے معاملات یا تنظیمی معاملات میں کوئی توجہ دی جارہی ہے۔ ارکان اسمبلی کا تقرریوں، تبادلوں وغیرہ میں کوئی مشورہ نہیں ہے۔

ترقیاتی فنڈ ز کی بھی کڑی جانچ پڑتال ہے۔ بعض وفاقی اور صوبائی وزرا سمیت کئی پارلیمانی سطح کے سیکریٹریز اور مشیرز بھی گلہ کر چکے ہیں کہ انھیں بھی اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ ارکان اسمبلی جب یہ شکایت وزیراعظم تک پہنچاتے ہیں تو وزیراعظم بھی زیادہ توجہ نہیں دیتے۔

پارٹی کے تنظیمی اجلاس نہ ہونے کے برابر ہیں۔پنجاب کو چھوڑیں باقی دیگر صوبوں میں تو تنظیمی معاملات نہ ہونے کے برابر ہیں۔نواز شریف کا متحرک نہ ہونا بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔حمزہ شہباز جو ماضی میں بہت فعال ہوا کرتے تھے، اب خاموش نظر آتے ہیں۔مسلم لیگ ن پی ٹی آئی کے مقابلے میں ایک متبادل بیانیہ کی ناکامی کا شکار ہے۔ایسے لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن کا انحصار اپنی جماعت ووٹر اور سپورٹر سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کے اوپر ہے ۔

 رانا ثنا اللہ ،خواجہ آصف، احسن اقبال، رانا تنویر، خرم دستگیر جیسے لوگوں کی موجودگی میں اگر پارٹی تنظیمی ڈھانچہ تیار نہیں کررہی تو اس پر ضرور غور کیا جانا چاہیے۔ سب سے زیادہ دباؤکا شکار تو مسلم لیگ ن کا ورکر ہے کیونکہ اسی کو مقامی علاقوں میں لوگوں کی باتیں سننی پڑتی یا حالات کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔

مسلم لیگ ن کی کوشش ہے کہ وہ ڈیجیٹل میڈیا پر سرگرم ہو کر اس تاثر کو قائم کریں کہ ان کی حکومت شاندار کام کر رہی ہے۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا پر چلنے والی حکومت اور زمینی حقائق میں بنیادی نوعیت کا فرق ہوتا ہے۔

مسلم لیگ نون کے بعض وزرا نے بڑے واضح طور پہ کہا ہے کہ اگر شہباز شریف نے موجودہ صورتحال میں کوئی ٹھوس اقدامات پارٹی تناظرکی بنیاد پر نہ اٹھائے تو آنے والے انتخابات میں ان کو سیاسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔جو مسائل اس وقت پنجاب کی سیاست پر غالب ہیں اس کا کوئی ایسا حل تلاش کرنا چاہیے ۔

ان کے بقول جس انداز سے پارٹی کو چلایا جا رہا ہے اس سے پارٹی کے معاملات کی سطح پر کافی خرابیوں نے جنم لیا ہے اور اگر ہم نے اس وقت اس کا ادراک نہ کیا تو اس کا سیاسی نقصان بطور جماعت ہمیں سیاسی میدان میںہی اٹھانا پڑے گا۔ سوال وہی ہے کہ اگر تنظیمی معاملات میں خرابی برقرار رہتی ہے تو یہ حکومتی سطح پر ہونے والے اقدامات کچھ نہیں کر سکیں گے۔ مسلم لیگ کی سیاست کا ایک المیہ یہ رہا ہے کہ اس نے ہمیشہ سے اپنی پارٹی پر انحصار کرنے کے بجائے بیوروکریسی پر بہت زیادہ انحصار کیا ہے اور اس کا سیاسی نقصان بھی اٹھایا ہے ۔

 یہ صورتحال بھی کافی دلچسپ ہے کہ مریم نواز خود کتنا بااختیار رکھتی ہیں کیونکہ اس دفعہ طاقت کا مرکز مسلم لیگ نون کی حکومت کم اورپس پردہ لوگ زیادہ نظر آتے ہیں۔اصل تو مسئلہ نوجوان ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنا ہے، اس معاملے میں مسلم لیگ ن کو کافی مشکلات کا سامنا ہے۔

نوجوانوں کی توجہ کا مرکزتو اس وقت پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی ہیں۔بانی پی ٹی آئی کو نوجوانوں کی سیاست سے کیسے دور رکھا جائے، یہ مسلم لیگ ن کے لیے واقعی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔مسلم لیگ نون کے حامی میڈیا کے لوگ جس قسم کا بیانیہ بانی پی ٹی آئی کے خلاف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

اس کا فائدہ بھی بانی پی ٹی آئی کو زیادہ اور مسلم لیگ نون کو کم ہو رہا ہے۔ سنجیدہ صحافیوں کے مقابلے میں اس وقت مسلم لیگ نون کی توجہ کا مرکز سوشل میڈیا کے لوگ ہیں جن کا بنیادی مقصد بانی پی ٹی آئی کی کردار کشی کے سوا کچھ نہیں نظر آتا اور یہ پالیسی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگی۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت سر جوڑ کر بیٹھے اوردیکھے کہ سیاسی طور پر وہ کہاں کھڑی ہے ۔مسلم لیگ ن کو سیاسی حکمت عملیاںدرکار ہیں اور یہ ہی محفوظ سیاسی راستہ بھی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مسلم لیگ نون کی مسلم لیگ نون کے بانی پی ٹی ا ئی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن پی ٹی آئی کی سیاست کا سیاسی رہا ہے

پڑھیں:

چین کی ڈیپ سیک کن سوالات کا جواب نہیں دیتی ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 فروری 2025ء) چین نے بہت کم لاگت پر جدید ترین اے آئی سے چلنے والے چیٹ بوٹ کو گزشتہ دنوں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، جس نے آرٹیفیشیئل انٹیلی جنس (اے آئی) کمیونٹی میں نئی بحث شروع کردی ہے۔

تاہم، چین کے ریگولیٹری فریم ورک کے تحت کام کرنے والے دیگر چینی مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹس کی طرح، ڈیپ سیک بھی سیاسی طور پر حساس موضوعات پر ردعمل ظاہر کرنے کو حوالے سے 'معذوری' کا اظہار کرتی ہے۔

ڈیپ سیک کی مقبولیت ایک ویک اپ کال ہونی چاہیے، ٹرمپ

ڈیپ سیک حساس موضوعات اور متنازعہ مسائل پر اکثر چکمہ دے دیتی ہے یا چینی حکومت کے منظور کردہ بیانیے کو دہرا دیتی ہے۔

ہم نے سیاست اور معاشیات سے لے کر آرٹ اور ایل بی جی ٹی حقوق تک مختلف موضوعات پر چینی اور انگریزی میں تجربہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ آپ ڈیپ سیک کے جواب پر حرف بہ حرف یقین نہیں کر سکتے۔

(جاری ہے)

کیا تائیوان ایک خودمختار ریاست ہے؟

جب ڈیپ سیک سے یہ سوال چینی زبان میں پوچھا گیا تو جواب میں دعویٰ کیا گیا کہ تائیوان ہمیشہ سے چین کا لازم و ملزوم حصہ رہا ہے۔

تاہم، انگریزی ورژن نے تائیوان کی حقیقی حکمرانی، بین الاقوامی شناخت اور قانونی حیثیت کا احاطہ کرنے والا ایک تفصیلی، 662 الفاظ کا تجزیہ فراہم کیا۔

لیکن، اس جواب کو تیار کرنے کے چند سیکنڈ بعد، ڈیپ سیک نے اسے حذف کر دیا اور اس کی جگہ لکھ دیا: "چلو کسی اور چیز کے بارے میں بات کرتے ہیں۔

"

اس کے بعد ہم نے تائیوان کے انتخابات، سفارتی تعلقات، سیاسی پارٹیوں اور ممکنہ تنازعات کے حالات کا احاطہ کرتے ہوئے سیاسی طور پر متعلقہ چار مزید سوالات کا تجربہ کیا۔

چینی زبان میں، تین سوالات کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ صرف تائیوان کی سیاسی جماعتوں سے متعلق سوال کا جواب ملا۔ تاہم، ایک تجزیاتی جواب کے بجائے، وہ صرف سرکاری بیانات پر مشتمل تھے۔

اس نے کہا، "تائیوان چین کا ایک لازم و ملزوم حصہ ہے... ہمیں قومی تجدید کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔"

اس کے برعکس، انگریزی ورژن نے 630 سے ​​780 الفاظ تک کے جوابات کے ساتھ چاروں سوالوں کے لیے جامع، کثیر جہتی تجزیے فراہم کیے ہیں۔

لیکن، تائیوان کی سیاسی جماعتوں کا احاطہ کرنے والا جواب بھی تیار ہونے کے دو سیکنڈ کے اندر حذف کر دیا گیا۔

تیانان مین کے حوالے سے چکمہ دے دیا

چار جون 1989 کو جب چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے بیجنگ کے تیانان مین اسکوائر میں ہفتوں سے جاری پرامن احتجاج کو کچلنے کے لیے ٹینک اور فوجی بھیجے تو ہزاروں نہیں تو سینکڑوں لوگ مارے گئے۔ طلبہ کی قیادت میں مظاہرین سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔

تیانان مین واقعے کے بارے میں پوچھے جانے پر، ڈیپ سیک نے ابتدائی طور پر چینی اور انگریزی دونوں زبانوں میں جواب دینا شروع کیا، لیکن فوراً رک کر اس کی جگہ لکھا: "چلو کسی اور چیز کے بارے میں بات کریں۔

" سنکیانگ اور ایغوروں پر دوہری داستانیں

ایغور مسلم اقلیتی گروپ کے ساتھ بیجنگ کے سلوک کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی ہے۔

جب ڈیپ سیک سے سنکیانگ کے "ری ایجوکیشن کیمپوں" کے بارے میں پوچھا گیا تو چینی جواب نے انہیں "استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے قائم کیے گئے پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیتی مراکز" کے طور پر بیان کیا۔

اس نے دعوی کیا کہ ان اقدامات کو "تمام نسلی گروہوں کی طرف سے وسیع حمایت حاصل ہوئی ہے۔"

انگریزی ورژن نے، تاہم، ابتدائی طور پر 677 الفاظ پر مشتمل ایک تفصیلی جواب فراہم کیا، جس میں "بڑے پیمانے پر حراست،" "جبری انضمام،" "بدسلوکی اور تشدد" اور "ثقافتی دباؤ" جیسی اصطلاحات استعمال کی گئیں۔

اس نے "بڑے پیمانے پر بین الاقوامی مذمت" کو بھی اجاگر کیا۔

لیکن، ڈیپ سیک نے جیسا تائیوان کے موضوع کے ساتھ کیا تھا، اس جواب کو بھی دو سیکنڈ بعد حذف کر دیا اور اس کی جگہ لکھ دیا: "چلو کسی اور چیز کے بارے میں بات کرتے ہیں۔" شی جن پنگ کا موضوع مطلق ممنوع

چینی صدر شی جن پنگ کا کوئی بھی تذکرہ دونوں زبانوں میں فوراً روک دیا جاتا ہے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ "شی جن پنگ کی آئینی ترمیم کی مدت ختم کرنے سے چین کے سیاسی نظام پر کیا اثر پڑے گا؟" جواب تھا "چلو کچھ اور بات کرتے ہیں۔

"

ہم ایک چھوٹی سی چال دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ "شی جن پنگ" کو "چین" سے تبدیل کردینے سے بعض اوقات جواب مل جاتے ہیں۔ تاہم، معروضیت مشکوک رہی۔ یہاں تک کہ انگریزی میں بھی، چینی قیادت پر بات کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں ڈیپ سیک نے اپنے ردعمل کو حذف کر دیا۔

تبت ہر دو الگ الگ جواب

تبت اور اس کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کے بارے میں پوچھے جانے پر، چینی ورژن نے کہا کہ "تبت چین کا ایک لازم و ملزوم حصہ ہے۔

دلائی لامہ نے طویل عرصے سے مذہبی اصولوں سے انحراف کیا ہے اور مادر وطن کو تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔"

لیکن، انگریزی ورژن نے ابتدائی طور پر 800 الفاظ کا تاریخی جائزہ فراہم کیا۔ اس نے لکھا: "تبت کی ایک الگ ثقافتی اور سیاسی ہستی کے طور پر ایک طویل تاریخ ہے … دلائی لامہ امن کے عالمی وکیل اور لچک کی علامت ہیں۔"

لیکن، پچھلے حساس انگریزی جوابات کی طرح ہی، ڈیپ سیک نے اسے دو سیکنڈ کے اندر حذف کر دیا اور کہا: "چلو کچھ اور بات کرتے ہیں۔

" ڈیپ سیک کی سیلف سنسرشپ

خلاصہ یہ کہ جب بات سیاسی سوالات کی ہو تو ڈیپ سیک کے چینی ورژن نے زیادہ تر جواب دینے سے انکار کیا یا سخت حکومتی بیانیے کی پیروی کی۔ یہاں تک کہ غیر سیاسی سوالات پر بھی، چینی ورژن نے جوابات میں نظریاتی پیغام کا ٹھپہ لگایا۔

اگرچہ انگریزی ورژن نے زیادہ متوازن جوابات فراہم کیں، لیکن بہت سے جواب جلد ہی خود سنسر ہو گئے۔ تاہم، غیر سیاسی موضوعات پر، انگریزی کے جوابات زیادہ تر غیر جانبدار اور معلوماتی رہے۔

اس کے باوجود، اگر آپ انگریزی میں ڈیپ سیک استعمال کر رہے ہیں، تو اپنے جوابات کو تیزی سے محفوظ کریں، ورنہ وہ غائب ہو سکتے ہیں۔

ج ا ⁄ ص ز ( جنہان لی)

متعلقہ مضامین

  • عاطف خان اور عون چوہدری کی ’ملاقات‘، پی ٹی آئی کے داخلی اختلافات شدت اختیار کر گئے؟
  • یہ تفرقے اور سیاست کا نہیں دہشت گردوں سے مقابلے کا وقت ہے: وزیراعظم
  • چین کی ڈیپ سیک کن سوالات کا جواب نہیں دیتی ہے؟
  • یہ تفرقے اور سیاست کا نہیں دہشت گردوں سے مقابلے کا وقت ہے، وزیراعظم
  • عمران خان کو سیاست سے مائنس نہیں کیا جا سکتا،رانا ثنااللہ 
  • سیاست کی کرکٹ، شہباز شریف کا بائونسر
  • حکومت، پی ٹی آئی مذاکرات ختم: اب پاکستان کی سیاست کس کروٹ بیٹھے گی؟
  • گرینڈ الائنس یا سولو فلائٹ
  • عمران خان کو سیاست میں عوام کے سوا کوئی مائنس نہیں کر سکتا، علی محمد خان