حکومت کی پی ٹی آئی سے بیک ڈور بات چیت،8 فروری احتجاج سے متعلق آپشنز دیدیے
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
اسلام آباد:8 فروری کو پاکستان تحریک انصاف کے ملک گیر احتجاج کو روکنے کے لیے حکومت نے پس پردہ کوششیں تیز کردی ہیں۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ حکومت نے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت سے بیک ڈور رابطے کیے ہیں اور احتجاج روکنے یا محدود کرنے کے حوالے سے مختلف آپشنز پر بات چیت ہو رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے پی ٹی آئی کو وزیراعظم سے ملاقات کی پیشکش کی ہے اور مذاکرات کی بحالی کے لیے مثبت پیش رفت کی یقین دہانی کرائی ہے۔ دریں اثنا اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق بھی اس معاملے میں متحرک ہیں اور پی ٹی آئی کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حکومت نے پیش کش کی ہے کہ ملک گیر احتجاج کے بجائے کسی ایک مقام پر جلسے یا ریلی کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم سے براہ راست مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے اور مستقبل میں سیاسی کشیدگی کم کرنے کے لیے مزید اقدامات بھی کیے جا سکتے ہیں، تاہم پی ٹی آئی نے اب تک حکومتی تجاویز پر کوئی باضابطہ ردعمل نہیں دیا اور اپنی حکمت عملی پر غور کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ حکومت اس وقت سیاسی استحکام برقرار رکھنے کے لیے سرگرم ہے اور کسی بھی قسم کے دنگا فساد، توڑ پھوڑ یا گرفتاریوں سے بچنا چاہتی ہے۔ خاص طور پر فروری کے مہینے میں کئی اہم بین الاقوامی سرگرمیاں شیڈول ہیں، جن کے دوران ملک میں امن و امان برقرار رکھنا حکومت کے لیے ترجیح بن گیا ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق فروری میں یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے جائزے کا امکان ہے۔ اسی طرح 8 فروری کو دولت مشترکہ کی انٹرنیشنل پارلیمانی کانفرنس بھی ہے جب کہ فروری کے دوسرے ہفتے میں ترک صدر رجب طیب اِردوان کا دورہ پاکستان بھی شیڈول ہے۔ علاوہ ازیں چیمپئنز ٹرافی کے میچز بھی فروری ہی کے تیسرے ہفتے میں ہوں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پی ٹی آئی حکومت نے کے لیے
پڑھیں:
8 فروری کو احتجاج کا اعلان: رانا ثنااللہ کی پی ٹی آئی کو وارننگ
وزیراعظم کے سیاسی مشیر رانا ثنااللہ نے پی ٹی آئی کو وارننگ دی کہ آٹھ فروری کو 26 نومبر جیسا راستہ اختیار کیا تو پہلے سے زیادہ سخت ردعمل آئے گا۔
تفصیلات کے مطابق مشیر وزیراعظم رانا ثنااللہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی پارلیمانی جمہوری نظام سےناواقف ہے، پی ٹی آئی عوام میں روٹس رکھتی ہے، جسےتسلیم کرتاہوں لیکن پی ٹی آئی کی بری بات ہے کہ دوسری جماعت کی موجودگی تسلیم نہیں کرتی۔رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی دوسری بری بات ہےکہ ڈائیلاگ پریقین نہیں رکھتی، سیاسی جماعتیں جب بھی ڈائیلاگ کرتی ہے بڑے مسائل حل ہو جاتے ہیں، میری نظرمیں سیاسی طاقتوں کوہمیشہ ڈائیلاگ کاراستہ اپنانا چاہیے پی ٹی آئی رہنماوں کے بیانات کے حوالے سے انھوں نے کہ نواز شریف کو مذاکرات سبوتاژ کرانے کی کیا ضرورت ہے، نواز شریف کی ہدایت نہیں ہوتی تو ہم مذاکرات کیسے کرسکتے تھے، پی ٹی آئی کیساتھ جومذاکرات ہوئے نواز شریف کی منظوری سے ہوئے۔سیاسی مشیر کا بتانا تھا کہ نواز شریف نے کہا تھا ساتھ نہیں بیٹھیں گے تو ملک بحرانوں سے نہیں نکل سکتا، پی ٹی آئی کی مرضی کے بغیر پریس کانفرنس کرلی تواس پر مذاکرات سے کیوں بھاگے۔ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتاہوں کوئی چھاپہ نہیں مارا گیا لیکن پھر بھی میٹنگ میں اس پربات کرلیتے، کمیٹی سے پوچھ کر تو کسی نے چھاپہ نہیں مارا ہوگا، میٹنگ میں صورتحال سامنے لاتے، مذاکرات سے بھاگنے کیلئے بہانہ تو نہیں کرنا چاہیے۔رانا ثنااللہ نے مذاکرات کے حوالے سے بتایا کہ ایسا نہیں تھا کہ ہم پی ٹی آئی کو صاف جواب دینے جارہے تھے، ہم پی ٹی آئی کو متبادل جواب دینے جارہے تھے، صاف انکار نہیں کر رہے تھے، ساری بات پی ٹی آئی کی مان لی جائے تو یہ معاہدہ یا سمجھوتہ تو نہیں ہوتا ، پی ٹی آئی کو مذاکرات کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے تھا، حل تلاش کیا جاسکتا تھا۔انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے سب کو ساتھ ملانا ہے تو ہمیں بھی ساتھ ملالیں، پی ٹی آئی آئے اور ہم سے بات کرے، احتجاج کا طریقہ کار بتائے، اگر احتجاج کی آڑمیں تشدد حکومت کو سختی کرنے کا جواز دیتا ہے۔وزیراعظم کے مشیر نے خبردار کیا کہ کسی بھی جمہوری حکومت میں احتجاج کی ایک حد ہوتی ہے، پی ٹی آئی تشدد کا راستہ اپناتی ہے تو حکومت کو سختی کرنے کا جواز دے گی، اگر 8 فروری کو پی ٹی آئی 26 نومبر جیسا راستہ اختیار کرتی ہے تو آگے سے بھی ردعمل آئے گا۔