پاکستان: عسکریت پسندوں کی ’گوریلا کارروائیوں‘ میں اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 فروری 2025ء) اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ برائے کنفلیکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں ملک میں نئے سال کے اوائل میں ہی دہشت گردی کے واقعات میں 42 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔
بلوچستان حکومت نے گزشتہ چند برسوں کے دوران تین ہزار سے زائد بلوچ عسکریت پسندوں کے قومی دھارے میں شامل ہونے کے دعوے کیے ہیں۔
ان عسکریت پسندوں میں ایسے کمانڈر بھی شامل ہیں، جو کہ حکام کے بقول کئی کالعدم تنظیموں کی مقامی اور ملکی سطح پر سربراہی بھی کرتے رہے ہیں۔بڑھتی ہوئی شورش پر صوبے کی بعض بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتیں بھی سراپا احتجاج ہیں۔ صوبے کے مختلف علاقوں میں بلوچستان نیشنل پارٹی سمیت دیگر پارٹیوں کے متعدد رہنما عسکریت پسندوں کے حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
(جاری ہے)
داخلی سلامتی کی حکومتی پالیسیوں میں نقائص کیا ہیں؟اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ برائے کنفلیکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے سربراہ عبداللہ خان کہتے ہیں کہ ملک میں عسکریت پسند تنظیموں کی آپریشنل صلاحیت، وسیع جغرافیائی رسائی اور جارحانہ رویہ قومی سلامتی کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''دیکھیں! پاکستانی حکومت ملک میں اس وقت، جن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے، انہیں کسی بھی طور پر جامع قرار نہیں دیا جا سکتا۔
حالیہ برسوں میں بلوچستان اور ملک کے بعض دیگر حصوں میں متنازع ریاستی پالیسیوں، انتخابات میں عوامی مینڈیٹ کی چوری اور مصنوعی سیاسی قیادت مسلط کرنے کی وجہ سے مقامی نوجوان طبقہ سیاسی عمل سے دور ہوا ہے۔ اس صورتحال کا ایک تشویشناک پہلو یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں، خاص کر پڑھے لکھے نوجوان بھی، اب اس شورش کا حصہ بن رہے ہیں، جو کہ صوبے میں دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔‘‘بلوچستان: مسلح جنگجوؤں کے ساتھ ایک جھڑپ میں 18 سکیورٹی اہلکار ہلاک
عبداللہ خان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی تحریک اب ایک نئے موڑ میں داخل ہو چکی ہے، جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے بقول، ''عسکریت پسند تنظیمیں اب، جس حکمت عملی پر کام کر رہی ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب ان کی ریاست مخالف گوریلا جنگ پہاڑوں سے شہروں میں داخل ہو چکی ہے۔
خیبر پختونخوا میں بھی صورتحال دن بدن خراب ہو رہی ہے۔ رواں سال کے آغاز سے لے کر اب تک ملک بھر میں کم از کم عسکریت پسندوں کے 74 حملے ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ ان حملوں کے نتیجے میں 120 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 52 سکیورٹی اہلکار، 20 عام شہری اور 48 عسکریت پسند مارے گئے۔‘‘ مخدوش سکیورٹی صورتحال پر سیاسی قائدین کیا کہتے ہیں؟بلوچستان کے سابق سینئر صوبائی وزیر اور پشتونخوا میپ کے مرکزی رہنما عبدالرحیم زیارتوال کہتے ہیں کہ ملک میں شدت پسندی میں بڑھتے ہوئے اضافے کی سب سے بڑی وجہ ایسی پالیسیاں ہیں، جن کا محور قومی مفاد کبھی نہیں رہا۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''پاکستان اس وقت تاریخ کے ایک انتہائی نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ ملک کسی دوسرے بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ قیام امن کی مخدوش صورتحال سے نمٹنے کے لیے ریاست کی، جو پالیسی ہے، وہ تضادات کا شکار ہے۔ قومی بیانیے کو عوامی سطح پر کوئی پذیرائی اس لیے نہیں مل رہی کیونکہ قومی اداروں اور عوام کے درمیان دوریاں بہت بڑھ چکی ہیں۔
‘‘رحیم زیارتوال کا کہنا تھا کہ قومی معاملات میں سیاسی قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا جا رہا، اسی لیے حکومت کی تمام قانون سازی غیرموثر ثابت ہو رہی ہے۔ ان کے بقول، ''پارلیمان میں، جو لوگ بیٹھے ہیں، وہ اکثر ریاستی ایما پر وہاں تک پہنچے ہیں، اس لیے ان کی قانون سازی عوامی مفاد میں درست ثابت نہیں ہو سکتی۔ غیرمنتخب لوگ، جب قومی بھاگ دوڑ سنبھالیں گے تو عوام میں انہیں حقیقی نمائندوں کی طرز پر پذیرائی کبھی نہیں مل سکتی۔
بلوچستان سمیت ملک بھر میں موجود غیریقینی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ریاست کو ملک کے حقیقی عوامی نمائندوں کو آن بورڈ لینا ہو گا۔‘‘ شدت پسندی کا راستہ لاحاصل ہے، وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹیتاہم وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کہتے ہیں کہ بلوچستان میں امن وامان کی بحالی کے لیے سنگین اور سنجیدہ رویہ اختیار کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔
آج بروز پیر بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ہم بلوچوں کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ شدت پسندی کا راستہ لاحاصل ہے۔ ہم ایسے عناصر سے کس طرح مذاکرات کر سکتے ہیں، جو کہ صوبے میں نہتے اور معصوم لوگوں کو مار رہے ہیں؟ دہشت گردوں کی جانب سے ریاست کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان کی حقیقت کو دہشت گردی سے نہیں توڑا جا سکتا۔ ہم نے 18 لاشیں بھی اٹھائیں اور گالیاں بھی سنیں، یہ مزید برداشت نہیں ہو سکتا۔‘‘پاکستان: تصادم میں میجر سمیت سکیورٹی فورسز کے چار اہلکار ہلاک
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا بلوچستان کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے حکومت ''ہر حد تک‘‘ جائے گی۔
کوئٹہ میں وزیر اعظم کی صدارت میں اعلیٰ سطحی اجلاسپاکستانی وزیر اعظم میاں شہباز شریف، ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار اور وفاقی کابینہ کے دیگر ارکان سمیت اعلیٰ عسکری حکام نے آج کوئٹہ کا ایک خصوصی دورہ کیا۔
اس دوران وزیر اعظم کی صدارت میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا، جس میں بلوچستان سمیت ملک بھر میں قیام امن کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔وزیراعظم کا اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ملک میں قیام امن کی بحالی پر حکومت کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی اور ایسے عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا، جو کہ قومی امن کو داؤ پر لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ شورش زدہ علاقوں میں ملک دشمن عناصر کے خلاف آپریشن مزید تیز کیے جائیں تاکہ شہریوں کی جان ومال کو درپیش خطرات دور ہو سکیں۔ اجلاس میں وزیر اعظم کو بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری، سکیورٹی صورتحال اور ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے بھی خصوصی بریفنگ دی گئی۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے عسکریت پسندوں بلوچستان میں کرتے ہوئے کہنا تھا کہتے ہیں رہے ہیں ملک میں رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
وزیرِ اعظم کاسی ایم ایچ کوئٹہ کادورہ،زخمیوں کی عیادت کی
وزیرِ اعظم شہباز شریف نےکوئٹہ کاخصوصی دورہ کیاءشہباز شریف کی سی ایم ایچ کوئٹہ آمد ہوئی، وزیرِ اعظم نے قلات و بلوچستان کے دیگر اضلاع میں دہشتگردوں سے بہادری سے لڑتے ہوئے زخمی ہونے والے سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی عیادت کی۔وزیرِ اعظم نےزخمیوں کی ملک کی خاطر قربانی کے جذبے اور وطن کی حفاظت کے غیر متزلزل عزم کی تعریف کی، شہبازشریف کا کہنا تھا کہ آپ سب قوم کے ہیروز ہیں،مجھ سمیت پوری قوم کو آپ اور قربانی کے جذبے سے سرشار آپ کے اہل خانہ پر فخر ہے، جب تک قوم کا تحفظ ایسے بہادر جوانوں کے سپرد ہے، دشمن پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا،دہشتگردی کے ناسور کے ملک سے مکمل خاتمے کیلئے افواج پاکستان اور پاکستانی عوام شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔وزیرِ اعظم نے کہا کہ بلوچستان میں دھشت و شر کی فضاء پھیلانے والے عناصر بلوچستان کی ترقی کے دشمن ہیں،بلوچستان کے عوام کے تحفظ کیلئے سیکیورٹی فورسز شر پسند عناصر کے سد باب کیلئے دن رات مصروف عمل ہیں، بلوچستان کے امن، ترقی اور خوشحالی کے دشمنوں کے ناپاک عزائم کبھی کامیاب نہ ہونے دیں گے۔نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار، وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف، وزیرِ اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ اور وزیرِ بجلی اویس لغاری بھی وزیرِ اعظم کے ہمراہ تھے۔