پاکستان میں انسداد پولیو مہم پھر سے دہشت گردوں کے نشانے پر
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 فروری 2025ء) پاکستان میں پولیو کی روک تھام کی مہم میں شامل ویکسینیٹرز پر بڑھتے ہوئے حملوں کے پیش نظر رواں سال حفاظتی انتظامات مزید بڑھا دیے گئے ہیں۔ پولیس اہلکار زرمت خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس حملے میں ہلاک ہونے والا پولیس اہلکار پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے علاقے جمرود ٹاؤن میں پولیو ویکسینیٹرز کی حفاظت پر مامور تھا۔
زرمت خان کے مطابق، ''دو نامعلوم موٹرسائیکل سوار افراد نے اس پولیس کانسٹیبل پر فائرنگ کی، جس کے باعث وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔‘‘
دنیا بھر میں اب صرف پاکستان اور افغانستان ہی دو ایسے ممالک ہیں، جہاں پولیو کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔ عسکریت پسند عناصر کی جانب سے کئی دہائیوں سے ملکی ویکسینیشن ٹیموں اور ان کی سکیورٹی پر مامور اہلکاروں پر حملے کیے جاتے رہے ہیں۔
(جاری ہے)
پاکستانی طالبان کی ممنوعہ تنظیم ٹی ٹی ہی نے ایک بیان میں اس ''ٹارگٹڈ حملے‘‘ کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ 2023ء میں پولیو کے فقط چھ نئے کیسز کے مقابلے میں گزشتہ سال کم از کم 73 نئے پولیو کیسز سامنے آئے تھے، جو پاکستان میں اس بیماری کے پھیلاؤ کی تشویشناک صورت حال کی نشاندہی کرتے ہیں۔ زرمت خان نے کہا، ''اس واقعے کے باوجود متعلقہ علاقے میں پولیو ویکسینیشن مہم اب بھی جاری ہے۔
‘‘علاقے کے ایک سینیئر پولیس اہلکار عبد الحمید آفریدی نے بھی اس حملے کی تصدیق کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس حملے کے حوالے سے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''پولیو مخالف مہم پورے جوش و جذبے سے جاری رہے گی۔‘‘
پولیو وائرس سے متاثر ہونے کے خطرے سے دوچار افراد کو اس وائرس سے محض ایک ویکسین پلا کر بچایا جا سکتا ہے، تاہم ایسے مسلسل حملوں کی وجہ سے پاکستان میں ابھی تک پولیو کی بیماری کو مکمل طور پر کنٹرول نہین کیا جا سکا۔
ماضی میں ملک میں موجود نام نہاد 'مذہبی عناصر‘ کی جانب سے ایسے دعوے بھی سامنے آئے تھے کہ اس وائرس کے خلاف پلائی جانے والی ویکسین میں مبینہ طور پر سؤر سے حاصل کردہ اجزا اور الکوحل شامل ہوتے ہیں، جس کے باعث اس ویکسین کے خلاف عوامی جذبات میں مزید شدت آ گئی تھی۔
حالیہ برسوں میں سکیورٹی اہلکار ویکسینیٹرز کے ساتھ گھر گھر جا کر پولیو مہم کا حصہ رہے، تاہم گزشتہ سال ان مہمات میں میڈیکل ٹیموں کے ساتھ آنے والے درجنوں پاکستانی پولیس اہلکار عسکریت پسندوں کے حملوں کا نشانہ بنے۔
ان متعدد حملوں کے نتیجے میں یہ پولیس اہلکار ہڑتال کرنے پر بھی مجبور ہو گئے تھے۔ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
اسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک 'سینٹر برائے ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز‘ کے مطابق، 2024 میں 1600 سے زیادہ افراد ایسی انسداد پولیو مہموں کے دوران کارکنوں پر کیے جانے والے حملوں میں ہلاک ہوئے۔
اس ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ یوں 2024 انسداد پولیو مہم کے لیے ایک انتہائی خطرناک سال ثابت ہوا۔اسلام آباد حکومت نے کابل پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کی جانب سے افغان سرزمین کے استعمال کیے جانے کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔
دوسری جانب افغان طالبان حکام کی طرف سے اس الزام کی تردید کی جاتی ہے۔
گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں پاکستانی صوبے بلوچستان میں پولیو ویکسینیٹرز کی ایک ٹیم پر ایک بم حملہ بھی کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں کم از کم سات افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن میں پانچ بچے بھی شامل تھے۔ بلوچستان میں، جس کی سرحدیں پڑوسی ملک افغانستان سے ملتی ہیں، 2024 میں سب سے زیادہ پولیو کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔
ر ب/ م م (اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پولیس اہلکار پاکستان میں کی جانب سے میں پولیو پولیو مہم پولیو کی
پڑھیں:
یمن میں مشتبہ امریکی فضائی حملے، حوثیوں کا ڈرون مار گرانے کا دعوی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 اپریل 2025ء) حوثی باغیوں کے زیر قبضہ یمنی دارالحکومت صنعاء کے گرد ونواح میں مشتبہ امریکی فضائی حملوں میں کم از کم سات افراد ہلاک اور 26 دیگر زخمی ہو گئے۔
دوسری طرف حوثی باغیوں نے پیر 14 اپریل کو دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایک اور امریکی ایم کیو-9 ریپر ڈرون کو بھی مار گرایا ہے۔ حوثی باغیوں کی وزارت صحت کی جانب سے پیر کو جاری کیے گئے ہلاکتوں کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباﹰ ایک ماہ قبل شروع ہونے والے امریکی فضائی حملوں کے نتیجے میں 120 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے پانیوں میں بحری جہازوں پر حملوں کے سلسلے میں امریکہ نے ان باغیوں کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
(جاری ہے)
حوثی باغیوں کے سیٹلائٹ نیوز چینل المسیرہ کی جانب سے نشر کی جانے والی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فائر فائٹرز فضائی حملوں کی وجہ سے لگنے والی آگ کو بجھانے کی کوشش کر رہے۔ باغیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ دارالحکومت صنعاء کے علاقے بنی ماتر میں واقع ایک سیرامکس فیکٹری تھی۔
امریکی فوج اہداف کو نشانہ بنانے کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کر رہی، تاہم وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اب تک 200 سے زائد فضائی حملے کیے جا چکے ہیں۔
حوثی باغیوں کا ایک اور امریکی ڈرون مار گرانے کا دعویٰحوثی باغیوں نے اتوار کی رات دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے سعودی عرب کے ساتھ ملک کی سرحد پر ملک کے شمال مغربی حصے میں ایک ایم کیو-9 ریپر ڈرون کو مار گرایا۔
حوثی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل یحییٰ سری نے ایک ویڈیو پیغام میں اسے دو ہفتوں میں ایسا چوتھا واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ باغیوں نے اس ڈرون کو ''مقامی طور پر تیار کردہ میزائل‘‘ سے نشانہ بنایا۔ امریکی حملے ایک ماہ سے جاری مہم کا حصہخبر رساں ادارے اے پی کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں حوثیوں کے خلاف نیا امریکی آپریشن سابق صدر جو بائیڈن کے دور کے مقابلے میں زیادہ وسیع دکھائی دیتا ہے۔
فضائی حملوں کی یہ نئی مہم اس وقت شروع ہوئی، جب باغیوں نے غزہ پٹی میں داخل ہونے والی امداد روکنے پر 'اسرائیلی‘ بحری جہازوں کو دوبارہ نشانہ بنانے کی دھمکی دی۔حوثی باغیوں نے نومبر 2023 سے رواں سال جنوری تک 100 سے زائد تجارتی بحری جہازوں کو میزائلوں اور ڈرونز سے نشانہ بنایا جن میں سے دو کو غرق کر دیا گیا۔ انہوں نے امریکی جنگی جہازوں کو نشانہ بنانے کی بھی کوشش کی لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی۔
ادارت: شکور رحیم