WE News:
2025-04-15@06:41:05 GMT

شمالی یورپ: شراب نوشی میں کمی، وجہ کیا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT

شمالی یورپ: شراب نوشی میں کمی، وجہ کیا ہے؟

شمالی یورپی ممالک میں شراب کے استعمال میں کمی اور لوگوں کی صحت میں بہتری آئی ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ شراب کے استعمال میں کمی کی وجہ یہ ہے کہ اس کی فروخت کو ریاستی انتظام کے تحت لے آیا گیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے دیگر ممالک کو بھی یہی طریقہ اپنانا کے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سے شراب نوشی کے طبی نقصانات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

یہ بھی پڑھیں: ’شراب نوشی سے کینسر میں مبتلا ہونے کاخطرہ بڑھ جاتا ہے‘

شمالی یورپ کے ممالک (فن لینڈ، آئس لینڈ، ناروے، سویڈن اور جزائر فیرو) میں شراب کی فروخت کے بیشتر حقوق ریاستی اداروں (نارڈک الکوحل مونوپلیز) کے پاس ہیں جو نچلی سطح پر شراب کی فروخت کے حوالے سے پالیسیاں بنانے اور ان پر عملدرآمد کے ذمہ دار ہیں۔ ان اداروں نے شراب کی دستیابی کو محدود کرنے، روزمرہ استعمال اور کھانے پینے کی اشیا بیچنے والی دکانوں اور نجی خوردہ فروشوں کو شراب کی فروخت سے روکنے جیسے اقدامات اور دیگر پالیسیوں کے ذریعے شراب کے استعمال کو کم کرنے میں مؤثر کردار ادا کیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او/یورپ کی حالیہ رپورٹ بعنوان ’نارڈک الکوحل مونوپلیز: شراب سے متعلق جامع پالیسی اور صحت عامہ کی اہمیت پر ان کے کردار کا ادراک‘ میں بتایا ہے کہ شمالی یورپی ممالک میں شراب نوشی کی شرح میں کمی لانے کے طریقے مؤثر ثابت ہوئے ہیں جن سے دیگر یورپی ملک بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

’منافع نہیں، صحت‘

شمالی یورپ میں شراب نوشی کی شرح نقصان دہ حد تک زیادہ ہے اور اس سے وابستہ طبی مسائل بھی اتنے ہی زیادہ ہیں۔ ’ڈبلیو ایچ او‘ کے مطابق، فی الوقت یورپی یونین شراب نوشی میں کمی لانے کے حوالے سے درست سمت میں گامزن نہیں ہے۔ ان حالات میں صحت عامہ کے حوالے سے مؤثر پالیسیوں کی ضرورت رہتی ہے جبکہ ’نارڈک الکوحل مونوپلیز‘ ایسے ہی طریقہ ہائے کار کی ایک کامیاب مثال ہے۔

اس طریقہ کار میں شراب کی فروخت میں تمام تر توجہ محض منافع کے حصول پر مرکوز نہیں ہوتی بلکہ صحت عامہ کو بھی مدنظر رکھتا جاتا ہے۔ اس ضمن میں شراب کی دستیابی کے مقامات کو محدود رکھنے کے علاوہ اس کی فروخت کے اوقات (دورانیے) میں بھی کمی لائی گئی ہے، مخصوص حد سے کم عمر کے لوگوں کو شراب کی فروخت سختی سے ممنوع ہے اور اس کی رعایتی قیمت پر فروخت اور تشہیر کو روکنے کے اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔

طبی خطرات کا تدارک

ڈبلیو ایچ او/یورپ میں شراب، منشیات اور جیلوں میں صحت کے معاملات سے متعلق علاقائی مشیر کیرینا فیریرا بورغیس کا کہنا ہے کہ جن ممالک میں شراب کی فروخت کا انتظام ریاستی اداروں کے پاس ہے وہاں اس کا فی کس استعمال دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں کم ہے جبکہ ان ممالک میں جگر کی بیماریوں، سرطان اور امراض قبل کی شرح کے علاوہ زخمی ہونے اور پانی میں ڈوب کر ہلاکتوں کے واقعات بھی دیگر سے کم ہوتے ہیں۔

نئی پالیسیاں اور خطرات

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عوامی سطح پر ایسے اداروں کو حاصل حمایت اور ان سے ہونے والے طبی فوائد کے باوجود شمالی یورپ کے متعدد ممالک میں نچلی سطح پر شراب کی فروخت کو مکمل طور پر نجی شعبے کے حوالے کیا جا رہا ہے جس سے متذکرہ بالا فوائد زائل ہونے کا خدشہ ہے۔

مزید پڑھیے: دنیا بھر میں ہر سال کتنے افراد شراب نوشی سے ہلاک ہوجاتے ہیں؟

مثال کے طور پر، حالیہ دنوں فن لینڈ میں ایسی پالیسی اختیار کی گئی ہے جس کے تحت بڑی مقدار میں شراب کو ریاستی انتظام کے تحت چلائی جانے والی مخصوص دکانوں سے ہٹ کر بھی فروخت کیا جا سکے گا جبکہ اس کی ہوم ڈلیوری کے حوالے سے مشاورت بھی جاری ہے۔ اسی طرح، سویڈن میں مونوپلیز کی دکانوں کو دیے گئے شراب کی آن لائن فروخت کے خصوصی حقوق کو عدالت میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔

کیرینا فیریریرا بورغیس کا کہنا ہے کہ شراب کے استعمال کا اس بات سے گہرا تعلق ہوتا ہے کہ یہ کیسے، کب اور کہاں فروخت ہو گی۔ اگر اس فروخت کو نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا تو پھر اس کا استعمال بھی بڑھ جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈبلیو ایچ او شمالی یورپ شمالی یورپ میں شراب نوشی میں کمی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ڈبلیو ایچ او شمالی یورپ شمالی یورپ میں شراب نوشی میں کمی شراب کے استعمال شراب کی فروخت ڈبلیو ایچ او کے حوالے سے میں شراب کی شمالی یورپ ممالک میں فروخت کے

پڑھیں:

آزاد منڈی اور ٹیرف

میں نے اس سے پہلے بھی آزاد منڈی پہ لکھا ہے، آج دوبارہ اس موضوع پہ لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ 2 اپریل کو صدر ٹرمپ نے ٹیرف کے بارے میں تقریر کی ہے۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ عالمی سیاست کے منظرنامے پہ اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

دنیا کئی بار دیکھ چکی ہے کہ جب سرمایہ داری کا پہیہ تیزی سے گھوم رہا ہو، منڈی کی دیوی اپنی چمکدار روشنیوں سے دنیا کو خیرہ کر رہی ہو اور منافع کی بھٹی میں سونا پگھل رہا ہو تب ہمیں آزاد منڈی کے ترانے سنائے جاتے ہیں۔ ریاست کی مداخلت کو معیشت کے لیے زہر قرار دیا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ مقابلے کی فضا میں ہی ترقی پنپتی ہے اور مارکیٹ سب سے بہتر فیصلے کرتی ہے اور حکومت کا کام بس نگرانی کرنا ہے اسے کاروبار میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے، لیکن تاریخ کی اپنی بے رحم منطق ہوتی ہے۔ کچھ سال بھی نہیں گزرتے کہ وہی آزاد منڈی کے علمبردار اچانک ٹیرف کے نعرے لگانے لگتے ہیں۔ جو ہاتھ کبھی ریاست کی مداخلت سے کانپتے تھے وہی پھر تحفظ (protectionism) کے لیے اٹھنے لگتے ہیں۔ وہی لوگ جو عالمی تجارتی تنظیموں میں بیٹھ کر ترقی پذیر ممالک کو ڈانٹ رہے تھے کہ ٹیرف اور سبسڈی معیشت کی تباہی ہے، اب انھی اصولوں کو قومی مفاد کا نام دے کر اپنا رہے ہیں۔

دو اپریل کو صدر ٹرمپ نے روز گارڈن سے کھڑے ہوکر ایک نیا معاشی جہاد چھیڑ دیا۔ انھوں نے اس دن کو لبریشن ڈے قرار دیا مگر یہ آزادی کسی غلام قوم کے لیے نہیں تھی بلکہ عالمی تجارت کی زنجیروں کو مزید سخت کرنے کے لیے تھی۔

چین پر اضافی 34 فیصد ٹیکس یورپ پر 20 فیصد اور باقی دنیا پر 10 فیصد۔ آزاد منڈی کے ان مجاہدوں کو یکایک ریاستی تحفظ کی ضرورت کیوں پیش آگئی۔یہ تضاد صرف امریکا تک محدود نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی خاصیت ہے۔

یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب کسی طاقتور ملک نے اپنی صنعتوں کو بچانے کے لیے ٹیرف کا سہارا لیا ہو۔ 1930 کی دہائی میں جب امریکا شدید کساد بازاری (Great Depression) کا شکار تھا اس نے اسموٹ ہالی ٹیرف ایکٹ نافذ کیا جس کے تحت غیر ملکی مصنوعات پر بھاری ٹیکس لگا دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دوسرے ممالک نے جوابی اقدامات کیے اور عالمی تجارت مزید سکڑ گئی جس نے بحران کو اور گہرا کردیا۔

یہی کچھ 1980 کی دہائی میں جاپانی گاڑیوں کے ساتھ ہوا جب امریکی حکومت نے جاپان کی کار انڈسٹری پر قدغن لگانے کے لیے مختلف تجارتی پابندیاں عائد کیں۔ وہی امریکا جو آج چائنا پر ٹیرف لگا رہا ہے کل جاپان کے خلاف ایسا کر رہا تھا اور اس سے پہلے یورپ کے خلاف۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ منڈی کا کھیل تب تک جاری رہتا ہے جب تک طاقتور کو فائدہ ہو۔ جب طاقتور کو نقصان ہونے لگے تو اصول بدل دیے جاتے ہیں۔

 آزاد منڈی دراصل صرف ایک نعرہ ہے، ایک ایسا خواب جسے ترقی پذیر ممالک کے لیے پالیسی کے طور پر نافذ کیا جاتا ہے مگر خود ترقی یافتہ ممالک اس پر مکمل عمل نہیں کرتے۔

عالمی مالیاتی ادارے (IMF اور World Bank) تیسری دنیا کے ممالک کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی معیشت کو اصلاحات کے نام پر کھول دیں، ریاستی اداروں کی نجکاری کریں، زرعی سبسڈی ختم کریں اور مقامی صنعتوں کو بیرونی سرمایہ کے لیے آسان ہدف بنا دیں۔

مگر جب یہی اصول امریکا، یورپ یا جاپان پر لاگو ہوتے ہیں تو وہ اچانک قومی سلامتی یا معاشی تحفظ کی بات کرنے لگتے ہیں۔ جب پاکستانی یا بنگلہ دیشی حکومتیں اپنے ٹیکسٹائل مزدوروں کو سبسڈی دیتی ہیں تو انھیں مارکیٹ کی خلاف ورزی کہا جاتا ہے لیکن جب امریکا اپنے زرعی کسانوں کو اربوں ڈالر کی سبسڈی دیتا ہے تو وہ معاشی استحکام کہلاتا ہے۔

جب افریقہ یا لاطینی امریکا کی حکومتیں اپنی منڈیوں پر کنٹرول رکھنے کی کوشش کرتی ہیں تو انھیں رجعت پسند کہا جاتا ہے مگر جب یورپی یونین اپنی مصنوعات کو تحفظ دیتی ہے تو وہ معاشی دانشمندی بن جاتی ہے۔

ٹرمپ کے ان ٹیرف سے کیا واقعی امریکی مزدور کو فائدہ ہوگا؟ شاید کچھ صنعتوں کو عارضی طور پر سہارا ملے مگر عالمی تجارت کی سطح پر اس کے اثرات کچھ اور ہوں گے۔ چین اور یورپ جیسے بڑے تجارتی شراکت دار جوابی اقدامات کریں گے۔

امریکی مصنوعات کے لیے عالمی منڈیاں سکڑ جائیں گی۔ عالمی سطح پر مہنگائی بڑھے گی، اشیائے ضرورت کی قیمتیں اوپر جائیں گی اور نتیجتاً عام امریکی مزدور مزید مشکلات کا شکار ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ٹیرف سے مقامی صنعتوں کو وقتی سہارا ملے لیکن اگر درآمدی اشیاء مہنگی ہوئیں تو صنعتی پیداوار پر بھی اثر پڑے گا۔

وہ کمپنیاں جو دوسرے ممالک سے سستا خام مال لاتی تھیں وہ مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہوں گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ یا تو وہ نقصان برداشت کریں گی یا مزدوروں کی تنخواہوں میں کٹوتی کریں گی یا نوکریاں ختم کریں گی۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر سرمایہ دارانہ آزاد منڈی کا یہ حال ہے تو کیا اس کا کوئی متبادل ہے؟ سوشلسٹ ماڈل کو دنیا میں کئی بار آزمایا جا چکا ہے لیکن اس کے بھی اپنے مسائل رہے ہیں۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ موجودہ نظام بے عیب ہے۔

چین ویتنام اور کیوبا جیسے ممالک نے کچھ حد تک ریاستی کنٹرول اور آزاد منڈی کے امتزاج سے ترقی حاصل کی ہے۔ یورپ میں بھی اسکینڈے نیوین ماڈل ایسا ہے جہاں ریاست فلاحی اقدامات کرتی ہے، مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے اور ساتھ ہی سرمایہ داری کو بھی کنٹرول میں رکھتی ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں معاشی طاقتور ممالک ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جہاں وہ کمزور ممالک سے وسائل سستی لیبر اور منڈی تو حاصل کریں مگر جب ان ممالک کی صنعت ترقی کرنے لگے تو انھیں مختلف تجارتی پابندیوں میں جکڑ دیا جائے۔

 یہ فیصلہ وقت کرے گا کہ کون سا نظام انسانیت کے لیے نجات دہندہ ثابت ہوتا ہے مگر تاریخ کی ایک بنیادی حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ تضادات بالآخر خود ہی اپنا پردہ چاک کر دیتے ہیں۔

آزاد منڈی کا جادو ہمیشہ کے لیے قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ جب بھی یہ اپنے ہی اصولوں کے تحت چلتی ہے اس کا سامنا ایسے سوالات سے ہوتا ہے جن کا جواب اس کے پاس نہیں ہوتا۔ ٹرمپ کے ٹیرف وقتی سیاست کا حصہ ہیں جن کا مقصد امریکی عوام کو یہ تاثر دینا ہے کہ حکومت ان کے لیے کچھ کر رہی ہے۔ 

لیکن اصل فائدہ ہمیشہ کی طرح بڑے سرمایہ داروں کو ہوگا۔ مزدور چاہے وہ امریکا کا ہو، چین کا ہو یا کسی اور ملک کا ہمیشہ ان پالیسیوں کی قیمت ادا کرتا ہے۔ شاید وقت آ گیا ہے کہ دنیا ایک ایسے معاشی نظام پر بحث کرے جو نہ صرف منڈی کے اصولوں کو تسلیم کرے بلکہ مزدوروں اور عوام کے حقوق کو بھی مقدم رکھے۔ کیا ایسا کوئی نظام ممکن ہے؟ یہ سوال آج بھی دنیا کے ذہین ترین معیشت دانوں کے لیے کھلا چیلنج ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا کی اسرائیل کو 18 کروڑ ڈالرز کے انجن فروخت کرنے کی منظوری
  • ٹریکٹروں کی فروخت میں 9ماہ کے دوران 34فیصد کمی
  • سندھ: گٹکا ماوا فروخت کرنیوالوں کیخلاف ایف آئی آر درج کرانے کا حکم
  • ایس آئی ایف سی کی کاوشیں، یورپی ملکوں کو برآمدات میں 9.4 فیصد اضافہ
  • آزاد منڈی اور ٹیرف
  • پاکستان سمیت مختلف ممالک میں واٹس ایپ کے استعمال میں مشکلات
  • پاکستان سمیت مختلف ممالک میں صارفین کو واٹس ایپ کے استعمال میں مشکلات کا سامنا
  • پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں صارفین کو واٹس ایپ کے استعمال میں مشکلات کا سامنا
  • اوکاڑہ: مفت دی گئی درسی کُتب فروخت کرنیوالا دُکاندار گرفتار
  • مالی سال کے پہلے 9 ماہ کے دوران پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت میں46 فیصد اضافہ