مقتدر قوتوں کیلئے آئین اور قانون موم کی ناک ہے جس طرف موڑ دیں، مولانا فضل الرحمان - فوٹو: فائل

جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پیکا قانون یک طرفہ ہے، صحافیوں سے مشاورت کی جانی چاہیے تھی۔ ایسا دباؤ آیا ہے کہ صدر نے جلد ہی دستخط کردیے۔

مولانا فضل الرحمان پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن آفس کے دفتر پہنچے جہاں انہوں نے پیکا قانون پر پارلیمانی رپورٹرز سے مشاورت کی۔ 

اس دوران صحافیوں نے پیکا پر اپنے تحفظات مولانا فضل الرحمان کے سامنے رکھے اور موقف اختیار کیا کہ پیکا قانون آزادی اظہار کا گلا گھونٹنے کےلیے ہے۔

پیکا قانون، مشاورت کی گنجائش، اعتراضات سامنے لائیں، بات کریں گے، وزیر اطلاعات

اسلام آباد، کراچی وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے.

..

مولانا فضل الرحمان نے صحافتی برادری سے یکجہتی کا اظہار کیا، انہوں نے پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاست اور صحافت ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ قوانین معروضی حالات کو سامنے رکھ کر بناتے ہیں، حالات کے بدلنے سے قوانین بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں، مقتدر قوتوں کیلئے آئین اور قانون موم کی ناک ہے جس طرف موڑ دیں۔

 مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پیکا قانون یک طرفہ ہے، صحافیوں سے مشاورت کی جانی چاہیے تھی، صدر مملکت نے یقین دلایا کہ محسن نقوی سے مشاورت کریں گے۔

پیکا ایکٹ کا صحافیوں یا صحافت سے کوئی تعلق نہیں: طلال چوہدری

مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری کا کہنا ہے کہ پیکا ایکٹ کا صحافیوں یا صحافت سے کوئی تعلق نہیں، صحافی اور دیگر لوگ اس قانون کو خود سے نہ جوڑیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ لگتا ہے ایسا دباؤ آیا ہے کہ صدر نے جلد ہی دستخط کردیے۔ 

انکا کہنا تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم کا مسودہ ہمارے دباؤ پر دیا گیا، اگر 26ویں آئینی ترمیم پر حکومتی مسودہ تسلیم کرتے تو مارشل لا کی کیفیت ہوتی۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم میں ہمارے نکات تسلیم کیے گئے۔

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحمان نے سے مشاورت کی پیکا قانون کہا کہ

پڑھیں:

پیکا ایکٹ صحافیوں کا گلا گھونٹنے کا نیا ہتھیار

میڈیا تنظیموں، سول سوسائٹی اور ڈیجیٹل حقوق کے کارکنوں کی جانب سے شدید احتجاج کے باوجودپریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA)صدر مملکت کی دستخط کے بعد قانون کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

پاکستان کا کوئی صحافی یا سیاسی رہنما اس حقیقت سے انکار نہیں کرے گا کہ فیک نیوز اور صحافت کے نام پر کردار کشی اور صحافی نما کارکنوں کا قلع قمع ہونا چاہیے، ان کا راستہ روکنا چاہیے اور قانون کے مطابق انہیں قرار واقعی سزا بھی ملنی چاہیے، لیکن اس سب کی آڑ میں سیاسی اور صحافتی انتقام کی راہ پیدا کرنے کو انصاف نہیں کہہ سکتے۔

حکومت کے منظور کردہ پیکا ایکٹ پر اعتراضات بنیادی طور پر اس قانون میں شامل سخت پابندیوں، آزادئ اظہار پر قدغنوں، آن لائن اظہارِ رائے پر سخت سزاؤں اور خاص طورپر موجودہ حکومت کی نیت پر عدم اعتماد کی وجہ سے اس قانون کے ممکنہ غلط استعمال کے امکانات کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔

حکومت کایہ موقف بظاہر بہت سیدھا سادھااور سمجھ میں آنے والا ہے کہ یہ ترامیم جعلی خبروں اورآن لائن ہراسمنٹ کے خاتمے کے لیے ضروری ہیں، لیکن حکومت کی جانب سے اب تک کئے گئے مختلف اقدامات کی وجہ سے حکومت عوام کا اعتبار کھوچکی ہے، یہی وجہ ہے کہ اب ناقدین کو خدشہ ہے کہ یہ اقدامات ڈیجیٹل اسپیس پر آمرانہ کنٹرول کی راہ ہموار کریں گے۔ اس بحران کے حل کے لیے ایک متوازن اور جامع حکمت ِعملی درکار تھی اور ضرورت اس بات کی تھی کہ حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل بیٹھ کر کوئی قابل قبول اور قابل عمل راہ نکالتی لیکن حکومت نے اس کو منظورکرانے کیلئے جس جلد بازی کا مظاہرہ کیا اس کی وجہ سے حکومت کی نیت مزید مشکوک ہوگئی ، جتنی عجلت میں یہ معاملہ نمٹایا گیا وہ انتہائی حیران کُن تھا۔

سول سوسائٹی نے مشاورت کرنے کی درخواست کی، عجلت کے بجائے بغور نظرثانی کرنے کی بات کی لیکن حکومت نے ان کی ایک نہ سنی ،ان کی شنوائی نہیں ہوئی۔ اب اس سخت گیر قانون پر دستخط کی سیاہی خشک ہوچکی ہے اور اب یہ حتمی قانون لوگوں کو اظہار رائے کرنے سے خوفزدہ کررہا ہے۔

نئے قانون میں سیکشن 26 اے متعارف کروایا گیا ہے جس میں نام نہاد فیک نیوز (جس کی تعریف کی وضاحت نہیں کی گئی) پھیلانے والوں کو 3 سال سزا اور 20 لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں ہوسکتی ہیں۔ لیکن جعلی خبر کی تعریف کیا ہے؟ کون فیصلہ کرے گا کہ کون سی معلومات لوگوں میں ‘خوف، اضطراب یا بے امنی’ پھیلانے کا باعث بنیں گی؟

تاریخ گواہی دیتی ہے کہ جب قوانین کی درست وضاحت نہ کی جائے تو ان کا منصفانہ انداز میں اطلاق نہیں ہوتا۔ پاکستان پیپلز پارٹی جو خود کوآزادی صحافت کی علم بردار کہتے نہیں تھکتی، ایسی ترامیم کی حمایت کرکے اب وہ اس نظریے کے حامی بن چکی ہے جس کے تحت جمہوریت کو محفوظ بنانے کا بہترین راستے کا گلا گھونٹ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔حکومت کا یہ دعویٰ کہ ان ترامیم کا مقصد شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے، درست معلوم نہیں ہو۔ نئی نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی اور سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام نے حکومت کے اصل ارادے کو آشکار کیا ہے۔اس سے ظاہرہوتاہے کہ حکومت پاکستان کے ڈیجیٹل ماحول پر ایسا کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے ۔

اس حوالے سے سینئر صحافیوں کا یہ موقف بالکل درست معلوم ہوتاہے کہ یہ ایکٹ ہمارے ملک کی جمہوریت کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔یہ بات واضح ہے کہ حکومت کے پاس معنی خیر مذاکرات کا راستہ تھا منصفانہ اور شفاف طریقہ کار کے ذریعے میڈیا کے ضوابط کو مضبوط کرنے اور بنیادی حقوق کو پامال کیے بغیر غلط معلومات کا مقابلہ کرنے کی راہ موجود تھی۔ صحافیوں کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی کا موقف بھی یہی تھا مگر حکومت نے مذاکرات کے بجائے جبر کا راستہ چنا۔اس صورت حال میں بعض حلقوں کی جانب سے دیاجانے والا یہ مشورہ بالکل درست معلوم ہوتاہے کہ اب پاکستانی صحافیوں، ڈیجیٹل کارکنوں اور عام شہریوں کو ایسے مذموم قانون کے خلاف طویل جنگ لڑنے کی تیاری کرنی چاہیے جو انہیں خاموش کرانے کے لیے بنایا گیا ہے۔
اس ایکٹ یا قانون کی منظوری کے بعد ایک دفعہ پھر یہ ثابت ہوگیا ہے کہ مسلم لیگ ن کے رہنماملک میں ایسا نادرشاہی طرز حکومت چاہتے ہیں جہاں کسی کو حکومتی احکامات کے خلاف زبان کھولنے کی اجازت نہ ہو زبان کھولنے والے کی زبان کاٹ لی جائے،مسلم لیگی حکمراں دراصل اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا سے سب سے زیادہ خوف کھاتے ہیں ۔اسی لئے جب بھی ن لیگ کی حکومت آتی ہے، تو اْسے سب سے بڑا مسئلہ اخبارات، الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا یا صحافیوں سے ہوتا ہے۔جو صحافی یا صحافتی ادارے اس کے من پسند نہ ہوں، اور اس کی مرضی کی خبریں نہ چلا رہے ہوں، یہ اُن کو سبق سکھانے اور انھیں اپنا مطیع وفرمانبردار بنانے کیلئے ان کے اشتہارات بھی بند کرتے ہیں، اْنہیں دھمکاتے بھی ہیں، اُن کے لیے نئے قوانین بھی بناتے ہیں، اور بسا اوقات تو ناقد صحافیوں کو زبردستی ملازمت سے فارغ کرانے سے بھی باز نہیں آتے۔ ان کے ہتھے اْبھرتا ہوا سوشل میڈیا چڑھ گیا تو یہ 2016ء میں پیکا ایکٹ اسمبلیوں سے منظور کرایا، تب بھی یہی کہا گیا کہ ہم فیک نیوز کو ختم کرکے رہیں گے لیکن چند مہینوں کے اندر اندر ایف آئی اے کے ذریعہ پیکا ایکٹ کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا شروع کردیا۔ اْس وقت بھی اپوزیشن پی ٹی آئی ہی تھی۔ اور پھر آج کے دور حکومت کو دیکھ لیں ن لیگ کے دور میں کسی آمر کے دور کی یاد نہیں آتی کیونکہ ن لیگ کے رہنما خود کسی بھی بدترین آمر سے بھی زیادہ آگے بڑھ کر لوگوں کی آواز دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ ہر مرتبہ اپنے تکبر اور اختیارات کے غلط استعمال اور طاقت کو ایک جگہ اکٹھاکرنے کے چکر میں اپنی ہر دفعہ حکومت گنوا بیٹھتے ہیں لیکن کوہلو کے بیل کی طرح یہ ہر دفعہ وہیں سے آغاز کرتے ہیں جہاں سے چھوڑا تھا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ بل کا تعلق اخبار یا ٹی وی سے نہیں، یہ صرف سوشل میڈیا کے معاملات سے متعلق ہے۔تاہم بل کا مطالعہ بتاتا ہے کہ حکومتی موقف کے برعکس ہر خبر دینے والا قانونی شکنجے میں کسا جا سکے گا۔یہ بل سینیٹ سیکریٹریٹ کی جانب سے صدر پاکستان کو ارسال کیا گیا تھا جنھوں نے اچھے بچے کی طرح بلا چوں وچرا اس پر دستخط کردئے اس طرح اب صدر کی توثیق کے بعد یہ بل باضابطہ قانون بن گیا ہے۔پارلیمنٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین نے پیکا بل کے حق میں ووٹ دیا تھا۔وہ یہ ووٹ نہ دیتے تو بل منظور نہ ہو پاتا۔دوسری طرف پی پی پی رہنما پریس گیلری میں صحافیوں کے پاس جا کر ان سے اظہار یکجہتی بھی کرتے رہے۔یہ کوئی ابہام ہے یا واقعی پارٹی خود واضح نہیں کہ اسے جمہوری آزادیوں یا پابندیوں میں سے کس کے ساتھ کھڑا ہونا ہے؟صدر مملکت ایک الگ جماعت کے قائد ہیں۔ان کی جماعت اسمبلی کے باہر پیکا ایکٹ پر صحافی برادری کے موقف کی حمایت کرتی نظر آتی ہے۔پی پی پی حکومت کی اہم اتحادی ہے۔اس حیثیت سے انہیں اپنے آئینی منصب کے ساتھ ساتھ اپنی جماعت کے جمہوری موقف کا تحفظ بھی کرنے کی ضرورت ہو گی۔ یہ اہل ،مسلمہ امر ہے کہ پیکا ایکٹ اظہار رائے کی آزادی پر پابندیاں لگاتا ہے۔گزشتہ روزجب سینیٹ میں یہ بل پیش کیا گیا تو پی ٹی آئی سمیت حزب مخالف کی جماعتوں نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔اس موقع پر قائد حزب اختلاف شبلی فراز کا کہنا تھا کہ یہ بل ایک سیاسی جماعت کے لیے بنایا گیا ہے اس پر بحث اور مشاورت نہیں ہوئی جبکہ قانون بنانے کے لیے کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔ادھر حکمراں جماعت نے جمعیت علمائے اسلام ف کے سینیٹر کامران مرتضیٰ کی تجویز کردہ ترامیم کو مسترد کیا ہے۔ کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ‘حکومت پیکا ایکٹ کی شق 29 میں ترمیم کرے کیونکہ اس شق کے مطابق پیکا ایکٹ کے تحت ہونے والے اقدامات کو کسی عدالت یا ایجنسی کے سامنے چیلنج نہیں کیا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی نائب صدر شیری رحمان نے اپنی جماعت کاموقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ‘پیپلز پارٹی ہمیشہ میڈیا اور آزادی اظہار رائے کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ میڈیا کا گلہ گھونٹا جائے۔ انھوں نے کہا کہ ‘ہمیں یقین دلایا گیا تھا کہ ا سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے گی۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ ہمیں وہ ملاقاتیں خود کرنی ہوں گی۔’ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی متعلقہ قائمہ کمیٹیوں اور اس کے بعد پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے پاس کیے جانے کے بعد صدر مملکت کے دستخط سے قانون بن جانے والے اِس حکومتی بِل پر نہ صرف صحافتی تنظیمیں اور سیاسی جماعتوں کے اراکین بلکہ ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیموں کے نمائندے بھی اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔جب حکومت کی اتحادی و دیگر جماعتیں مشاورت نہ کرنے کا گلہ کر رہی ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قانون کی منظوری میں جلد بازی کیوں کی گئی؟ دی پریوینشن آف الیکٹرنک کرائمز (ترمیمی) بل 2025’ میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر کے ایک نئی تحقیقاتی ایجنسی تشکیل دیے جانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ایک نئی اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن یا رجسٹریشن کی منسوخی اور معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو بھی یقینی بنائے گی۔بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہو گی۔اس بِل کے ذریعے پیکا ایکٹ میں ایک نئی شق، سیکشن 26 (اے) کو شامل کیا گیا ہے جو آن لائن فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف سزا سے متعلق ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جو کوئی جان بوجھ کر (فیک نیوز) پھیلاتا ہے جو عوام اور معاشرے میں ڈر، گھبراہٹ یا خرابی کا باعث بنے اس شخص کو 3 سال تک قید یا 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔ سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں سے متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں ‘سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی’ کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔ پیکا ایکٹ اس لئے متنازع ہے کہ حکومت نے اس کی منظوری سے قبل اس کے بنیادی فریق صحافیوں سے مشاورت نہیں کی۔خود حکومتی اراکین یہ غلطی تسلیم کر رہے ہیں۔یہ بل جمہوریت کی روح کے خلاف ہے،جمہوریت حقوق دینے کا نظام ہے،پابندیاں عائد کرنے کا سسٹم نہیں۔تیسرا یہ کہ قانون منظوری کے لئے غلط طریقہ کار اختیار کیا گیا،اس صورت میں قانون کو درست کیسے مان لیا جائے؟چوتھی بات یہ کہ دنیا بھر میں شہریوں کو آزادیاں دی جا رہی ہیں۔امریکہ جیسی ریاست سنسر شپ ہتا رہی ہے۔لیکن ہمارے حکمرانوں کی سمجھ میں یہ معمولی حقیقت نہیں آرہی ہے کہ معاشرہ پابندیوں سے نہیں سماجی آزادیوں سے ترقی کرتا ہے،حکومت کو اس کا اندازہ انٹرنیت پر پابندی لگا کر ہو جانا چاہئے تھا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سوشل میڈیا کی آڑ میں میڈیا کے تمام حصوں کو قابو میں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔جہاں تک گندی مچھلیوں کی بات ہے تو کیا پارلیمنٹ میں ایسے لوگ نہیں آ جاتے،کیا عدالتوں میں جھوٹے حلف نامے جمع نہیں کرائے جاتے،خرابی کو ٹھیک کرنے کے لئے متعلقہ شعبے سے ہی رجوع کیاجاتا ہے،اس پر کوئی قانون مسلط کرنے سے تنازعات بڑھتے ہیں۔
دراصل تلخ حقیقت یہی ہے کہ کسی بھی حکمران کو صحافت اور اظہارِ رائے کی آزادی پسند نہیں آتی کیونکہ انہیں آئینے میں اپنا ہی چہرہ نظر آتا ہے اور وہ اپنے خلاف اٹھنے والی کسی بھی آواز کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں اپنی اس کوشش کے دوران وہ یہ بات بھلا دیتے ہیں کہ ان کے بنائے گئے یہی قوانین اس وقت ان کیلئے سوہان روح بن جائیں گے جب وہ اقتدار سے نکل کر اپوزیشن کی بینچوں پر بیٹھنے پر مجبور ہوں گے،اس وقت ان کے اپنے بنائے ہوئے یہ قوانین ان کے خلاف کارروائی کیلئے حکومت کے بہترین ہتھیار بن جائیں گے۔ یہ
حقیقت ہے کہ حکومت سول ہو یا فوجی، ہر دور حکومت میں آزادی صحافت و اظہارِ رائے کو دبانے کے لیئے سخت سے سخت قانون سازی کی جاتی رہی ہے اور صحافیوں کو قید و بند کے علاوہ کوڑوں کی سزائیں بھی بھگتنا پڑیں تاہم ایسا کوئی بھی ہتھکنڈہ آج تک آزادی صحافت کے لئے اٹھنے والی آوازیں دبانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ ایوب خاں کے دور میں پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی ننس کے تحت آزادی صحافت کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی جبکہ پرویزمشرف کے دور میں صحافیوں پر انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کا بھی اطلاق کر دیا گیا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی سول حکمرانیوں میں بھی آزادی صحافت پر قدغنیں لگائی جاتی رہیں جبکہ ریاستی اداروں اور ریاست و مملکت کے خلاف منفی یا توہین آمیز تبصروں پر آئین کی دفعہ 19 کے تحت پہلے ہی پابندی عائد ہے۔ اسی طرح توہین عدالت اور ہتک عزت کے قوانین بھی موجود ہیں جن کے تحت کسی غلط یا منفی پراپیگنڈہ پر متعلقین کی گرفت کی جا سکتی ہے۔ اگر اس کے باوجود کوئی حکومت مزید سخت سزاؤں کے قوانین لاتی ہے تو اس سے یہی مراد ہوتی ہے کہ اسے اظہارِ رائے کی آزادی قطعاً قبول نہیں۔ پیکا ترمیمی بل کا مقصد بھی بادی النظر میں یہی نظر آتا ہے جو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو کسی صورت قبول نہیں ہو سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • پیکا قانون یک طرفہ ، ہمیں ذمہ دار ریاست ہونے کا ثبوت دینا ہوگا،مولانا فضل الرحمان
  • مقتدر قوتوں کے لیے آئین و قانون موم کی ناک ہے جس طرف چاہیں موڑ دیں، مولانا فضل الرحمٰن
  • مقتدر قوتوں کے لیے آئین و قانون موم کی ناک ہے جس طرف چاہیں موڑ دیں، مولانا فضل الرحمٰن
  • پیکا قانون میں اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ترامیم لائی جائیں‘سعد رفیق
  • خواجہ سعد رفیق بھی پیکا قانون کے خلاف  بول پڑے، صحافتی تنظیموں سے مشاورت کا مطالبہ
  • پیکا ایکٹ صحافیوں کا گلا گھونٹنے کا نیا ہتھیار
  • سعد رفیق نے بھی پیکا قانون کیخلاف آواز اٹھادی
  • پیکا متنازع قانون ہے: لیاقت بلوچ
  • حکومت نے پیکا پر جلد بازی کی، متنازع شک پر بات کرنے کو تیار ہیں: حکومتی نمائندگان