ایف بی آئی کے ملازمین سے کیپٹل ہل حملہ کیس میں جواب طلبی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔03 فروری ۔2025 )ایف بی آئی کے ملازمین کو 6جنوری 2021کو امریکی کیپٹل ہل پر حملے سے متعلق مجرمانہ مقدمات پر کیے گئے کسی بھی کام کے بارے میں ایک سوالنامے کا جواب دینے کا حکم دیا گیا ، جس کے بعد اہلکاروں اور افسران نے کام بند کرکے اپنے ڈیسک خالی کرنا شروع کر دئیے ہیں.
(جاری ہے)
ایف بی آئی ہیڈکوارٹرز میں کرمنل انویسٹی گیشن ڈویژن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر چاڈ یاربرو نے ہفتے کے آخر میں ایک ای میل میں لکھا کہ میں جانتا ہوں کہ میں اور اس سوال نامے کو حاصل کرنے والے دیگر افراد کے پاس بہت سے سوالات اور خدشات ہیں جن کے جوابات حاصل کرنے کے لیے میں سخت محنت کر رہا ہوں ڈیموکریٹس اور دیگر ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی ٹیم ایف بی آئی اور محکمہ انصاف کے ان عہدیداروں کو ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے جنہوں نے ٹرمپ اور 6 جنوری کو فسادیوں کے خلاف فوجداری مقدمات میں کردار ادا کیا تھا. صدرٹرمپ نے 20 جنوری کو اقتدار سنبھالنے کے پہلے دن کیپیٹل ہل حملے کے سلسلے میں 14 افراد کی سزاﺅں میں کمی کی تھی اور باقی لوگوں کو معاف کر دیا تھا جن میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر پرتشدد حملے کرنے والے بھی شامل تھے قائم مقام ڈپٹی اٹارنی جنرل ایمل بوو نے مطالبہ کیا تھا کہ ایف بی آئی منگل کی دوپہر تک انہیں ہر اس ملازم کی فہرست پیش کرے جو 6 جنوری کے مقدمات میں کام کرتا رہا تھا اور ساتھ ہی ان افراد کی فہرست بھی پیش کرے جنہوں نے غزہ جنگ کے سلسلے میں حماس کے راہنماﺅں کے خلاف گزشتہ سال دائر فوجداری مقدمے پر کام کیا تھا. انہوں نے ایف بی آئی کے 8 سینئرعہدیداروں کے علاوہ میامی اور واشنگٹن ڈی سی کے فیلڈ دفاتر کے سربراہوں کو بھی برطرف کر دیا ہے قومی سلامتی کے ماہر وکیل مارک زید نے بوو کو لکھے گئے ایک خط میں کہا ہے کہ یہ اقدامات مناسب طریقہ کار کی خلاف ورزی ہیں اگر کسی فرد کی معلومات کو عام کیا جاتا ہے تو اس سے اس کی حفاظت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے خط میں کہا گیا ہے کہ اگر آپ برطرف ملازمین کی برطرفی یا عوامی سطح پر ان کی شناخت ظاہر کرنے کے عمل کو آگے بڑھاتے ہیں تو ہم تمام دستیاب قانونی ذرائع سے ان کے حقوق کی تصدیق کے لیے تیار ہیں.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ایف بی آئی
پڑھیں:
برطانیہ: 200 سے زیادہ کمپنیوں میں ورکنگ ویک چار دن کا ہو گیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 فروری 2025ء) جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق 200 کمپنیاں جن کا تعلق مارکیٹنگ، آئی ٹی اور چیریٹی یا فلاحی شعبے سے ہے، میں کام کرنے والوں کے لیے ورکننگ ویک یا ہفتے میں کام کے ایام کو پانچ کی بجائے چار دن کا کر دیا گیا ہے۔ اس نئے فیصلے سے مذکورہ شعبوں میں کام کرنے والے پانچ ہزار سے زائد ملازمین کو یہ سہولت میسر ہو گئی ہے۔
''فور ڈے ویک فاؤنڈیشن‘‘ مہم کے ڈائریکٹر جوئے رائل نے کہا، ''پانچ روزہ کام کا ہفتہ 100 سال پہلے ایجاد ہوا تھا اور اس دور کے لیے کہیں سے موزوں نہیں ہے۔‘‘
جرمن کارکنوں نے پچھلے برس 1.3 بلین گھنٹے اوور ٹائم کیا، زیادہ تر بلامعاوضہ
جوئے رائل کے بقول ان کی مہم پانچ دن کے ورکنگ ویک یا پانچ روزہ کام کے ہفتے میں کارکنوں یا ملازمین کو دی جانے والی تنخواہوں اور مراعات میں کسی کمی کے بغیر ملازمین کے ہفت روزہ پلان میں اس بڑی تبدیلی کے لیے کوشاں تھی۔
(جاری ہے)
اس تبدیلی کے نتیجے میں وہ اب محض چار دن کام کر کے پہلے جتنی تنخواہ اور مراعات حاصل کر سکیں گے۔ ان کا کہنا تھا،'' چار دن کا ورکنگ ہفتہ ملازمین کو سات روزہ ہفتے کے دوران پہلے کے مقابلے میں 50 فیصد فارغ وقت فراہم کرے گا اور اس طرح وہ کہیں زیادہ آزادی، خوش اور بھرپور زندگی گزار سکیں گے۔‘‘برطانیہ کی 200 کمپنیوں میں اس نئے ضوابط کا اطلاق ایک ایسے وقت میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جب بڑی بڑی کارپوریشنز میں کام کرنے والے ملازمین کو ورک فرام ہوم کے بجائے کُل وقتی طور پر دفتر جا کر کام کرنے پر زور دیا جا رہا ہے، جو بہت سے ملازمین کے لیے خوش آئند نہیں ہے۔
کووڈ وبا کے بعد کے پانچ سالوں کے دوران کام کے نمونے
کورونا کی عالمی وبا کے وقت سے ''ہوم آفس ‘‘ یا ''ہائبرڈورکنگ پیٹرن‘‘ کا جو رجحان پیدا ہوا تھا اُسے اکثریتی ملازمین نے اپنایا اور وہ اسی طرز پر اپنے کام کے اوقات کو برقرار رکھنا چاہتے تھے تاہم امریکی سرمایہ کاری بینک جے پی مورگن اور ٹیک کمپنی ایمیزون نے مطالبہ کیا ہے کہ ہائبرڈ کی اجازت کے باوجود عملہ روزانہ دفتر آکر کام کرے۔
سابق ایسڈا اور مارکس اینڈ اسپینسر کے چیف ایگزیکٹیو لارڈ اسٹورٹ روز نے جنوری کے اوائل میں دعویٰ کیا تھا کہ ریموٹ ورکنگ سے کام کی مناسب مقدار اثر انداز ہو رہی ہے۔جرمنی میں پارٹ ٹائم ورکرز کی تعداد میں اضافہ
اس کے برعکس چار روزہ ورکنگ ہفتہ فاؤنڈیشن کی مہم کا مقصد کام پر گزارے گئے گھنٹوں سے زیادہ لوگوں کی فلاح و بہبود کو فروغ دینا ہے۔
پالیسی کو اپنانے والے مارکیٹنگ اور پریس ریلیشنز ادارے 30 کمپنیوں پر مشتمل ہیں۔ جبکہ خیراتی ادارے، غیر سرکاری تنظیمیں اور سماجی نگہداشت کی ایسی قریب 29 کمپنیاں ہیں جنہوں نے چار دن کا ورکنگ ویک کر دیا ہے۔ ان کے بعد ٹیکنالوجی، آئی ٹی اور سافٹ ویئر کی 24، جبکہ 22 کاروباری، مشاورتی اور انتظامی شعبے سے منسلک کمپنیوں نے بھی اپنے کارکنوں کو چار دن کے ورکنگ ہفتوں کی پیشکش کی ہے۔کام کے طویل اوقات ہلاکت کا باعث ہو سکتے ہیں، عالمی ادارہ صحت
نیا سروے
اسپارک مارکیٹ ریسرچ کے ایک نئے سروے کے نتائج کے مطابق 18 تا 34 سال کے ملازمین کی 78 فیصد تعداد کا خیال ہے کہ چار دن کام کرنے والا ہفتہ پانچ سال کے اندر معمول بن جائے گا۔ جبکہ 65 فیصد نے کہا کہ وہ کُل وقتی کام کے ہفتے کی طرف لوٹنا نہیں چاہتے۔
اسپارک کے منیجنگ ڈائریکٹر لینسی کیرولن نے کہا کہ 18 سے 34 کی درمیانی عمر کے افراد آئندہ 50 سالوں کے دوران بنیادی افرادی قوت بن جائیں گے اور یہ اپنے ان کے احساسات کا اظہار کرتے ہوئے بتا رہے ہیں کہ وہ کام کے پرانے اوقات کی طرف واپس جانے کا ارادہ نہیں رکھتے اور ماضی کے کام کے اوقات کو ''پرانے یا دقانوسی زمانے کے کام کے پیٹرن یا طریقے قرار دے رہے ہیں۔‘‘ اس سوچ کے حامل افراد پر مشتمل گروپ یہ بھی کہتا ہے کہ ''ذہنی صحت اور ان کی مجموعی بہتری یا فلاح و بہبود ان کی اولین ترجیحات ہیں، اس لیے چار دن کا ہفتہ واقعی ایک فائدہ مند اور خوش آئند بات ہے جو ان کی زندگیوں کو بامعنی فائدہ پہنچانے اور ان کے مجموعی معیار زندگی کو بہتر بنانے میں کلیدی اور فعال کردار ادا کرے گا۔‘‘ک م/ ع ت(ڈی پی اے)