UrduPoint:
2025-02-03@12:54:43 GMT

چین کی ڈیپ سیک کن سوالات کا جواب نہیں دیتی ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT

چین کی ڈیپ سیک کن سوالات کا جواب نہیں دیتی ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 فروری 2025ء) چین نے بہت کم لاگت پر جدید ترین اے آئی سے چلنے والے چیٹ بوٹ کو گزشتہ دنوں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، جس نے آرٹیفیشیئل انٹیلی جنس (اے آئی) کمیونٹی میں نئی بحث شروع کردی ہے۔

تاہم، چین کے ریگولیٹری فریم ورک کے تحت کام کرنے والے دیگر چینی مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹس کی طرح، ڈیپ سیک بھی سیاسی طور پر حساس موضوعات پر ردعمل ظاہر کرنے کو حوالے سے 'معذوری' کا اظہار کرتی ہے۔

ڈیپ سیک کی مقبولیت ایک ویک اپ کال ہونی چاہیے، ٹرمپ

ڈیپ سیک حساس موضوعات اور متنازعہ مسائل پر اکثر چکمہ دے دیتی ہے یا چینی حکومت کے منظور کردہ بیانیے کو دہرا دیتی ہے۔

ہم نے سیاست اور معاشیات سے لے کر آرٹ اور ایل بی جی ٹی حقوق تک مختلف موضوعات پر چینی اور انگریزی میں تجربہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ آپ ڈیپ سیک کے جواب پر حرف بہ حرف یقین نہیں کر سکتے۔

(جاری ہے)

کیا تائیوان ایک خودمختار ریاست ہے؟

جب ڈیپ سیک سے یہ سوال چینی زبان میں پوچھا گیا تو جواب میں دعویٰ کیا گیا کہ تائیوان ہمیشہ سے چین کا لازم و ملزوم حصہ رہا ہے۔

تاہم، انگریزی ورژن نے تائیوان کی حقیقی حکمرانی، بین الاقوامی شناخت اور قانونی حیثیت کا احاطہ کرنے والا ایک تفصیلی، 662 الفاظ کا تجزیہ فراہم کیا۔

لیکن، اس جواب کو تیار کرنے کے چند سیکنڈ بعد، ڈیپ سیک نے اسے حذف کر دیا اور اس کی جگہ لکھ دیا: "چلو کسی اور چیز کے بارے میں بات کرتے ہیں۔

"

اس کے بعد ہم نے تائیوان کے انتخابات، سفارتی تعلقات، سیاسی پارٹیوں اور ممکنہ تنازعات کے حالات کا احاطہ کرتے ہوئے سیاسی طور پر متعلقہ چار مزید سوالات کا تجربہ کیا۔

چینی زبان میں، تین سوالات کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ صرف تائیوان کی سیاسی جماعتوں سے متعلق سوال کا جواب ملا۔ تاہم، ایک تجزیاتی جواب کے بجائے، وہ صرف سرکاری بیانات پر مشتمل تھے۔

اس نے کہا، "تائیوان چین کا ایک لازم و ملزوم حصہ ہے.

.. ہمیں قومی تجدید کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔"

اس کے برعکس، انگریزی ورژن نے 630 سے ​​780 الفاظ تک کے جوابات کے ساتھ چاروں سوالوں کے لیے جامع، کثیر جہتی تجزیے فراہم کیے ہیں۔

لیکن، تائیوان کی سیاسی جماعتوں کا احاطہ کرنے والا جواب بھی تیار ہونے کے دو سیکنڈ کے اندر حذف کر دیا گیا۔

تیانان مین کے حوالے سے چکمہ دے دیا

چار جون 1989 کو جب چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے بیجنگ کے تیانان مین اسکوائر میں ہفتوں سے جاری پرامن احتجاج کو کچلنے کے لیے ٹینک اور فوجی بھیجے تو ہزاروں نہیں تو سینکڑوں لوگ مارے گئے۔ طلبہ کی قیادت میں مظاہرین سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔

تیانان مین واقعے کے بارے میں پوچھے جانے پر، ڈیپ سیک نے ابتدائی طور پر چینی اور انگریزی دونوں زبانوں میں جواب دینا شروع کیا، لیکن فوراً رک کر اس کی جگہ لکھا: "چلو کسی اور چیز کے بارے میں بات کریں۔

" سنکیانگ اور ایغوروں پر دوہری داستانیں

ایغور مسلم اقلیتی گروپ کے ساتھ بیجنگ کے سلوک کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی ہے۔

جب ڈیپ سیک سے سنکیانگ کے "ری ایجوکیشن کیمپوں" کے بارے میں پوچھا گیا تو چینی جواب نے انہیں "استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے قائم کیے گئے پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیتی مراکز" کے طور پر بیان کیا۔

اس نے دعوی کیا کہ ان اقدامات کو "تمام نسلی گروہوں کی طرف سے وسیع حمایت حاصل ہوئی ہے۔"

انگریزی ورژن نے، تاہم، ابتدائی طور پر 677 الفاظ پر مشتمل ایک تفصیلی جواب فراہم کیا، جس میں "بڑے پیمانے پر حراست،" "جبری انضمام،" "بدسلوکی اور تشدد" اور "ثقافتی دباؤ" جیسی اصطلاحات استعمال کی گئیں۔

اس نے "بڑے پیمانے پر بین الاقوامی مذمت" کو بھی اجاگر کیا۔

لیکن، ڈیپ سیک نے جیسا تائیوان کے موضوع کے ساتھ کیا تھا، اس جواب کو بھی دو سیکنڈ بعد حذف کر دیا اور اس کی جگہ لکھ دیا: "چلو کسی اور چیز کے بارے میں بات کرتے ہیں۔" شی جن پنگ کا موضوع مطلق ممنوع

چینی صدر شی جن پنگ کا کوئی بھی تذکرہ دونوں زبانوں میں فوراً روک دیا جاتا ہے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ "شی جن پنگ کی آئینی ترمیم کی مدت ختم کرنے سے چین کے سیاسی نظام پر کیا اثر پڑے گا؟" جواب تھا "چلو کچھ اور بات کرتے ہیں۔

"

ہم ایک چھوٹی سی چال دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ "شی جن پنگ" کو "چین" سے تبدیل کردینے سے بعض اوقات جواب مل جاتے ہیں۔ تاہم، معروضیت مشکوک رہی۔ یہاں تک کہ انگریزی میں بھی، چینی قیادت پر بات کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں ڈیپ سیک نے اپنے ردعمل کو حذف کر دیا۔

تبت ہر دو الگ الگ جواب

تبت اور اس کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کے بارے میں پوچھے جانے پر، چینی ورژن نے کہا کہ "تبت چین کا ایک لازم و ملزوم حصہ ہے۔

دلائی لامہ نے طویل عرصے سے مذہبی اصولوں سے انحراف کیا ہے اور مادر وطن کو تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔"

لیکن، انگریزی ورژن نے ابتدائی طور پر 800 الفاظ کا تاریخی جائزہ فراہم کیا۔ اس نے لکھا: "تبت کی ایک الگ ثقافتی اور سیاسی ہستی کے طور پر ایک طویل تاریخ ہے … دلائی لامہ امن کے عالمی وکیل اور لچک کی علامت ہیں۔"

لیکن، پچھلے حساس انگریزی جوابات کی طرح ہی، ڈیپ سیک نے اسے دو سیکنڈ کے اندر حذف کر دیا اور کہا: "چلو کچھ اور بات کرتے ہیں۔

" ڈیپ سیک کی سیلف سنسرشپ

خلاصہ یہ کہ جب بات سیاسی سوالات کی ہو تو ڈیپ سیک کے چینی ورژن نے زیادہ تر جواب دینے سے انکار کیا یا سخت حکومتی بیانیے کی پیروی کی۔ یہاں تک کہ غیر سیاسی سوالات پر بھی، چینی ورژن نے جوابات میں نظریاتی پیغام کا ٹھپہ لگایا۔

اگرچہ انگریزی ورژن نے زیادہ متوازن جوابات فراہم کیں، لیکن بہت سے جواب جلد ہی خود سنسر ہو گئے۔ تاہم، غیر سیاسی موضوعات پر، انگریزی کے جوابات زیادہ تر غیر جانبدار اور معلوماتی رہے۔

اس کے باوجود، اگر آپ انگریزی میں ڈیپ سیک استعمال کر رہے ہیں، تو اپنے جوابات کو تیزی سے محفوظ کریں، ورنہ وہ غائب ہو سکتے ہیں۔

ج ا ⁄ ص ز ( جنہان لی)

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بات کرتے ہیں کے بارے میں ڈیپ سیک نے حذف کر دیا کے لیے اور اس

پڑھیں:

چین پر محصولات عائد کرنے سے “امریکی بیماری” کا علاج نہیں ہوگا، چینی میڈیا

چین پر محصولات عائد کرنے سے “امریکی بیماری” کا علاج نہیں ہوگا، چینی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 3 February, 2025 سب نیوز

بیجنگ :  امریکہ نے فینٹینیل کے  بہانے  امریکہ  کو برآمد کی جانے والی چینی مصنوعات پر  ٹیرف میں  10 فیصد اضافے کا اعلان کیا۔ یہ غلط  اقدام  ڈبلیو ٹی او کے قوانین کی خلاف ورزی ، چین اور امریکہ کے درمیان معمول کے اقتصادی اور تجارتی تعاون میں خلل  اور امریکی معیشت پر مزید منفی اثرات مرتب کرے گا۔ کچھ تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی کہ گزشتہ  تجارتی جنگوں  کے نتائج کو دیکھتےہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ  یہ دراصل امریکی عوام پر “کھپت ٹیکس” لگانے کا ایک اور دور ہے۔  چین نے واضح کیا ہے کہ وہ ڈبلیو ٹی او  میں   مقدمہ دائر کرے گا اور اپنے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے تمام  ضروری جوابی اقدامات کرے گا۔

درحقیقت، چین دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں انسداد منشیات کی سخت ترین پالیسیاں ہیں اور 2019 میں چین نے  فینٹینیل جیسے مادوں کی باقاعدہ فہرست کا اعلان بھی  کیا  تھا  ۔ چین یہ اقدام کرنے والا دنیا کا پہلا ملک ہے۔ یو ایس کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن اور دیگر منشیات کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رپورٹس  کے مطابق، امریکہ نے ستمبر 2019 کے بعد سے چین سے برآمد  فینٹینیل سے متعلق کوئی مادہ ضبط نہیں کیا ہے۔ اس پس منظر میں یہ واضح ہے کہ  امریکہ فینٹینیل کے نام نہاد مسئلے کو بہانہ بنا کر اپنے خفیہ  مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے ۔

تجزیہ کاروں کا یہ بھی  کہنا ہے کہ امریکی حکومت نے صرف دس دنوں کے اندر 1977 کے “بین الاقوامی ہنگامی معاشی اختیارات ایکٹ” کا  سہارا لیتے ہوئے  معمول کی تحقیقاتی کارروائیوں کو نظر انداز  کیا  اور   فینٹینیل کے مسئلے کو ٹیرف کے دباؤ کے ساتھ جوڑا  ہے۔ اس کا مقصد عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کے قانونی فریم ورک میں شامل “موسٹ فیورڈ نیشن ٹریٹمنٹ” اور” شیڈول کمٹمنٹس ” جیسی  بنیادی ذمہ داریوں سے بچنا، WTO کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تجارتی تحفظ پسندی کو آگے بڑھانا، اور  دوسرے ممالک سے  پیسے وصول کر کے  اپنے معاشی دباؤ کو کم کرنا اور داخلی تنازعات  سے توجہ ہٹانا ہے ۔

عالمی سطح پر،  محصولات میں اضافے کی امریکہ کی یکطرفہ  پالیسی نے دیگر تجارتی اراکین کی شدید ناراضی ، حتیٰ کہ جوابی کارروائیوں کو جنم دیا ہے۔ بین الاقوامی برادری  فکرمند ہے کہ اگر  ممالک انتقام اور جوابی انتقام کے  اس چکر میں پھنس گئے  تو اس سے عالمی تجارتی جنگ کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے، جو عالمی سپلائی چین کے  استحکام کو متاثر کر سکتا ہے اور عالمی معاشی ترقی کو سست کر سکتا ہے۔ عالمی بینک نے جنوری کے وسط میں خبردار کیا تھا کہ اگر امریکہ 10 فیصد کا جامع محصول عائد کرتا ہے اور تجارتی شراکت دار جوابی محصولات کا سہارا لیتے ہیں تو 2025 میں عالمی معاشی نمو 0.3 فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔

تجارتی جنگ اور محصولات کی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ اندرونی مسائل کو حل کے کے بجائے  بیرونی علاج  کا سہارا لینا اور دوسروں پر الزامات عائد کرنا امریکہ کے مسائل کو حل نہیں کر سکتا۔ امید ہے کہ امریکہ اپنے فینٹینیل جیسے مسائل کو معروضی اور معقول انداز میں دیکھے گا ، ان کا حل تلاش کرے گا  اور انہیں بہانہ بنا کر دوسرے ممالک کو محصولات کے ذریعے دھمکانے کا راستہ ترک کرے گا ۔ امریکہ کو بنیادی معاشی اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے یکطرفہ محصولات کے غلط اقدامات کو ختم کرنا چاہیے اور چین-امریکہ تعلقات کو ذمہ دارانہ طریقے سے استوار  کرنا  چاہیے، تاکہ دونوں ممالک کے عوام اور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے مثبت کردار ادا کیا جا سکے کیوں کہ  چین اور امریکہ کے درمیان اتحاد دونوں کے لیے فائدہ مند ہے، جبکہ تصادم دونوں  سمیت دنیا بھر کے  لئے نقصان دہ  ہے۔تاریخ ہمیں یہ سکھا چکی ہے  اور مستقبل بھی یہی  ثابت کرے گا ۔

متعلقہ مضامین

  • ’امریکی خاتون آنے کے بعد چھیپا صاحب کی انگریزی بہتر ہوگئی‘، ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد کی ویڈیو وائرل
  • چین پر محصولات عائد کرنے سے “امریکی بیماری” کا علاج نہیں ہوگا، چینی میڈیا
  • ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ نہ رہے تو ٹیکنالوجی نہیں، ہم خود معدوم ہوجائیں گے
  • تجارتی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا، چینی وزارتِ تجارت
  • ترقی کیلئے امن، سیاسی استحکام ضروری: احسن اقبال 
  • کیا صحیح کیا غلط
  • بی جے پی حکومت کا بجٹ سیاسی مفاد پر زیادہ اور عوام اور قومی مفاد پر کم نظر آتا ہے، کانگریس
  • عمران خان، بشریٰ بی بی سیاسی قیدی ہیں، عمر ایوب
  • چینی ’’ڈیپ سیک‘‘ امریکی غلبے کے لئے خطرے کی گھنٹی