عمران خان کا انٹرویو کرنیوالے معروف امریکی دانشور ڈرین بیٹائی کو محکمہ خارجہ میں اہم عہدہ مل گیا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
نیویارک (نیوزڈیسک)معروف امریکی دانشور ڈیرن بیٹائی محکمہ خارجہ میں اہم کردار ادا کریں گے۔سکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور میں تقریر کرنے والے ڈیرن بیٹی کو عوامی سفارتکاری کے لیے بطور قائم مقام انڈر سیکرٹری تعینیات کرنے کا امکان ہے .
معروف دانشور ڈیرن بیٹائی نے 2023 میں سابق پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے حق میں ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ
میں ان آخری دو بین الاقوامی صحافیوں میں سے ایک تھا جنہوں نے گرفتاری سے قبل وزیراعظم عمران خان کا انٹرویو کیا۔انٹرویو کے اس اہم حصے میں، ہم بائیڈن حکومت کے ان کی برطرفی میں کردار پر گفتگو کی .
I was one of the last two international journalists to interview Prime Minister Imran Khan before his arrest
In this critical section of the interview, we discuss the Biden regime's role in his ouster — specifically, the wicked color revolution professional Victoria Nuland pic.twitter.com/7Uz78tVWxR
— Darren J. Beattie ???? (@DarrenJBeattie) August 5, 2023
بیٹی امریکی خارجہ پالیسی کے وسیع پیمانے پر نقاد رہے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ سے دور ایک ڈرامائی قدم کی نمائندگی کرتے ہیں ریپبلکنزم روبیو طویل عرصے سے مجسم ہے: اس نے جس سائٹ کی بنیاد رکھی تھی اس پر ایک وسیع پیمانے پر زیر گردش مضمون میں، ریوالور، بیٹی نے “رنگ انقلابات” کا موازنہ کیا جو مغربی مشرقی یورپ میں 1990 اور 2000 کی دہائیوں میں جمہوریتوں کی حمایت صدر ٹرمپ کو ہٹانے کے لیے حکومتی بیوروکریٹس، این جی اوز اور میڈیا کی مربوط کوششیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ڈیرن بیٹائی کو مستقل بنیادوں پر اس کردار کو بھرنے کے لیے نامزد کیا جائے گا ڈرین بیٹی، جس نے ڈیوک یونیورسٹی سے سیاسی تھیوری میں پی ایچ ڈی کی ہے، جہاں اس نے پڑھایا بھی تھا، کو 2018 میں سفید فام قوم پرستوں کے ساتھ ایک کانفرنس میں شرکت کے بعد نکال دیا گیا تھا۔ انہیں 2020 میں ٹرمپ نے بیرون ملک امریکن ہیریٹیج کے تحفظ کے لیے کمیشن میں مقرر کیا تھا، یہ ایک ایسا اقدام ہے جسے اینٹی ڈیفیمیشن لیگ کے سی ای او جوناتھن گرین بلیٹ نے اس وقت “اشتعال انگیز” قرار دیا تھا۔کمیشن دوسری حکومتوں کے ساتھ مل کر دوسری جنگ عظیم اور ہولوکاسٹ سے متعلق مقامات کو محفوظ رکھنے کے لیے کام کرتا ہے۔
Beattie کی تقرری ایک اور سگنل بھیجے گی کہ نئی انتظامیہ نئے حق میں خود کو گہرائی سے جڑ رہی ہے۔ ڈرین امریکہ میں ایک حق گو ، ہوشیار، انتھک محنتی کے طور پر جانے جاتے ہیں اور وہ اینٹی اسٹبلیشمنٹ مشہور ہیں . میڈیا شخصیت ٹکر کارلسن نے ایک ٹیکسٹ میسج میں بیٹی کو “مہذب اور حقیقی طور پر ہوشیار” کہا۔
بیٹی ٹرمپ حکومت کی ایک معروف شخصیت ہیں ہ روبیو اپنے محکمہ کو کس طرح MAGA کے وفادار کو یقین دلانے کے لیے کام کر رہا ہے کہ وہ پروگرام کے ساتھ ہے۔ روبیو کے پالیسی پلاننگ کے ڈائریکٹر ایک اور MAGA دانشور مائیکل اینٹن ہیں، جن کے مضمون، ”The Flight 93 Election″ نے 2016 میں ٹرمپ کو کسی بھی قیمت پر منتخب کرنے کا مقدمہ بنایا تھا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
تجارتی جنگ کا بگل
اسلام ٹائمز: امریکی عوام درآمدی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کیساتھ ساتھ برآمدی منڈیوں کے نقصان کے نتیجے میں قیمتوں میں اضافے کو برداشت نہیں کرسکتے اور اپنی حکومت پر اس طرزِ فکر پر نظرثانی کیلئے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ خاص طور پر تجارتی جنگ کیوجہ سے پیدا ہونیوالی داخلی بے اطمینانی اگلے سال کے وسط مدتی انتخابات میں ریپبلکن کی شکست کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ صورتحال امریکہ کے اپنے اتحادیوں کیساتھ تجارتی جنگ کے شعلوں کو کم کرنے کے حوالے سے ٹرمپ پر دباؤ ڈال سکتی ہے۔ تحریر: امیر علی ابوالفتح
کینیڈا اور میکسیکو سے درآمدات پر 25% ٹیرف اور چین سے درآمدات پر 10% ٹیرف کے نفاذ کے ساتھ امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ تجارتی جنگ کا ایک نیا دور شروع کر دیاہ ہے۔ یہ مسئلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف یورپی یونین سے کچھ اشیا کی درآمد پر ٹیرف لگانے کی دھمکی دی ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ اگر برکس کے رکن ممالک نے ڈالر کی جگہ دوسری کرنسی شروع کی تو وہ اس تجارتی گروپ کے ارکان پر بھی 100 فیصد ٹیکس عائد کر دیں گے۔ امریکہ فرسٹ کے نعرے کے ساتھ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی اتحادیوں اور تجارتی شراکت داروں کے ساتھ گویا امریکی تجارتی تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہے۔ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ میں حکمران طبقے کا خیال ہے کہ ملکوں کے درمیان کھلے دروازے کی پالیسی اور تجارتی محصولات میں کمی بالآخر امریکہ کے لیے نقصان دہ ہوگی اور یہ کہ ملک کو گذشتہ چند دہائیوں کے راستے پرپلٹنا ہوگا۔
ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ "ہمارا ملک اس وقت امیر تھا، جب اس نے ٹیکس عائد کیے تھے۔" ٹرمپ دوسری جنگ عظیم سے پہلے کے اس دور کا ذکر کر رہے ہیں، جب امریکہ نے بیرون ملک سے درآمد شدہ اشیا پر بھاری ٹیکس عائد کیے تھے۔ اب تجارتی ٹیکس کے خاتمے یا نمایاں کمی کے ساتھ، امریکہ ایک بڑے برآمد کنندہ ملک سے ایک بڑے درآمد کنندہ ملک میں تبدیل ہوگیا ہے، جس کا غیر ملکی تجارتی خسارہ تقریباً 500 بلین ڈالر ہے۔ دوسرے لفظوں میں، امریکی اپنی برآمد سے ہر سال پانچ سو بلین زیادہ درآمد کرتے ہیں۔ یہ صورت حال، جو برسوں سے جاری ہے، امریکی حکومتی اہلکاروں کی نظر میں ناقابل برداشت ہے اور ان کی نگاہ میں اسے ہر ممکن طریقے سے تبدیل کیا جانا چاہیئے۔
ٹرمپ کے نزدیک اس کا حل درآمدات پر ٹیکس میں اضافہ کرنا ہے، اس امید پر کہ درآمدی اشیا مزید مہنگی کرنے سے ان کا حجم کم ہو جائے گا اور امریکی غیر ملکی تجارتی خسار ہ بھی کم ہو جائے گا۔ وہ امید کرتے ہیں کہ اس طرح وہ امریکی مینوفیکچرنگ اور امریکی کارکنوں کی حمایت کرسکیں گے۔ تاہم، کینیڈا، میکسیکو، چین یا یورپی یونین کے رکن ممالک سے درآمد کی جانے والی اشیاء پر بھاری ٹیکس عائد کرنے پر ان کی طرف سے بھی ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے درآمدات پر اسی طرح کے محصولات عائد کرنے کے لیے ردعمل سامنے آئے گا۔ اس سے امریکی برآمدات کو بھی نقصان پہنچے گا۔
دوسرے لفظوں میں ٹرمپ نے جو ٹیرف وار شروع کی ہے، وہ نہ صرف درآمدی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنے گی بلکہ امریکہ کی برآمدی منڈیوں کو بھی نقصان پہنچے گا اور دونوں طرف سے امریکی شہریوں پر دباؤ پڑے گا۔ اس حد تک کہ ٹرمپ خود امریکی عوام پر اس دباؤ کا اعتراف کرچکے ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی بھی چیز نے ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کو تجارتی جنگ میں داخل ہونے اور اسے بڑھانے سے روکا ہے۔ ان کے خیال میں امریکی معیشت اس قدر مضبوط اور بڑی ہے کہ اس تجارتی جنگ میں شکست نہیں دی جا سکتی، خاص طور پر کینیڈا، میکسیکو یا یورپی یونین کے رکن ممالک امریکہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور بالآخر وہ امریکہ کی شرائط کو تسلیم کر لیں گے۔
جہاں تک چین کا تعلق ہے، امریکہ بیجنگ پر سیاسی اور سکیورٹی دباؤ بڑھا کر اس ملک کو سمجھوتہ کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن غیر ملکیوں کے ساتھ تجارتی جنگ میں امریکہ کے اندر بھی ایک ردعمل آسکتا ہے۔ امریکی عوام درآمدی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ برآمدی منڈیوں کے نقصان کے نتیجے میں قیمتوں میں اضافے کو برداشت نہیں کرسکتے اور اپنی حکومت پر اس طرزِ فکر پر نظرثانی کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ خاص طور پر تجارتی جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی داخلی بے اطمینانی اگلے سال کے وسط مدتی انتخابات میں ریپبلکن کی شکست کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ صورتحال امریکہ کے اپنے اتحادیوں کے ساتھ تجارتی جنگ کے شعلوں کو کم کرنے کے حوالے سے ٹرمپ پر دباؤ ڈال سکتی ہے۔