داسو ہائیڈرو پاور؛ عالمی بینک سے ایک ارب ڈالر نئے قرض کی منظوری کا امکان
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
اسلام آباد:
پاکستان کے لیے عالمی بینک کی جانب سے داسو ہائیڈرو پاور منصوبے کیلیے ایک ارب ڈالر کے نئے قرض کی منظوری کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق داسو ہائیڈرو پاور منصوبے کی لاگت 190.1 فیصد اضافے کے ساتھ 1700 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے، جس کی وجہ زمین کے حصول میں تاخیر، سکیورٹی خدشات اور امریکی ڈالر کی قدر میں 178 فیصد اضافے کو قرار دیا گیا ہے۔
داسو ہائیڈرو پاور منصوبے کا پہلا مرحلہ 2,160 میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا، جس کے بعد دوسرے مرحلے کے بعد منصوبے کی کل پیداوار 4,320 میگاواٹ ہو جائے گی۔ واضح رہے کہ عالمی بینک پہلے ہی 588 ملین ڈالر قرض اور 460 ملین ڈالر کی گارنٹی فراہم کر چکا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ 800 ملین ڈالر بین الاقوامی ترقیاتی ایسوسی ایشن اور 200 ملین ڈالر بین الاقوامی بحالی و ترقیاتی بینک کے تحت ملے گا۔ بین الاقوامی ترقیاتی ایسوسی ایشن کے تحت 435 ملین ڈالر صفر سود پر جب کہ 365 ملین ڈالر 5.
اسی طرح بین الاقوامی بحالی و ترقیاتی بینک کے تحت 200 ملین ڈالر 6.13 فیصد شرح سود پر فراہم کیے جائیں گے۔ منصوبہ پہلے 2023-24 میں مکمل ہونا تھا،اب 2027-28 میں مکمل ہوگا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی ملین ڈالر
پڑھیں:
عالمی بینک کی دس سالہ سرمایہ کاری
پاکستان کی حکومت نے اس بات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ورلڈ بینک کی طرف سے 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے پاکستان بلندیوں کو چھوئے گا۔ اس سے چند یوم قبل ’’ اڑان پاکستان‘‘ منصوبے کا افتتاح کیا گیا تھا۔ بلندیوں کو چھونے کا مقصد اڑان بھرنا ہوتا ہے، اب یہ نہیں معلوم کہ دونوں مدوں کے تحت الگ الگ اڑان بھری جائیں گی۔ البتہ عالمی بینک کی سرمایہ کاری جوکہ 10 سال کے لیے ہوگی، اس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ عام آدمی کی معاشی حالت بدل سکتا ہے۔
10 برس کو ابھی سے شروع کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بات وہی پرانی ہے۔ البتہ بلندیوں پر لے جانے کا مقصد اگر 10 برس میں سے سابقہ عادت کے مطابق جیساکہ عالمی بینک ہر سال ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر تک فنڈز مختلف شرائط، اونچی شرح سود کے ساتھ فراہم کرتا ہے تو یہ رقم اس وقت حجم میں بلند دکھائی دے گی جب اس کو کل جمع کر کے بیان کریں گے یعنی تقریباً 20 ارب ڈالر کے قریب بنتی ہے۔
لہٰذا کسی شد و مد میں رہے بغیر کہ تقریباً اندازہ ہے کہ یا تخمینہ کو چھوڑکر اس مرتبہ آیندہ 10 برسوں کے لیے مجموعی رقم کو بالکل واضح صاف بیان کر دیا گیا ہے۔ یہ آئی ایم ایف ہی ہے کہ وہ لگی لپٹی رہنے دیتا ہے بعد میں جب قرض میں پھنسی ہوئی کوئی حکومت پھنس جاتی ہے تو وہ اپنی تشریح سامنے لا کر اس ملک کو مزید شکنجے میں پھنسا لیتا ہے، لیکن ورلڈ بینک نے بات صاف کر دی ہے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی سادہ لوحی ہے کہ وہ ان اداروں کو اپنا مخلص سمجھ بیٹھے ہیں۔
پاکستان بننے کے کچھ عرصے بعد عالمی بینک نے پاکستان کو امداد کے نام پر یا پروجیکٹ فنڈ کے نام پر قرض فراہم کرنا شروع کیا۔ البتہ یہ رقوم پہلے 3 سال کے تخمینے پر مبنی ہوا کرتی تھیں، لیکن اس مرتبہ 10 سال کے دورانیے کو سامنے رکھا گیا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے اس وقت انتہائی بہتر ثابت ہو سکتا ہے جب حکومتی ٹیم چاہے اس کا تعلق کسی بھی آنے جانے والی حکومت سے ہو انتہائی مخلص اور ماہرانہ طریقوں کو اپنا کر کام کرتی ہے۔
قرض کسی منصوبے کے لیے لیا جائے وہ بذات خود بدتر نہیں ہوتا بشرطیکہ منصوبے کے مقاصد کی تکمیل کے لیے ہو۔ منصوبے کی مدت تکمیل کو سامنے رکھ کر اس کی پلاننگ کی گئی ہو۔ البتہ موجودہ حکومت اس کے مثبت اور بہتر نتائج کے حصول کے لیے ایسے حکام، افسران اور ماہرین پر مشتمل ٹیم کو متعین کرے جن کی مدت ملازمت یا کنٹریکٹ میں کم از کم 11 سے 12 سال باقی رہتے ہوں تاکہ وہ لوگ دلجمعی سے اس فنڈ کے استعمال کے لیے کام کر سکیں۔
کیونکہ صرف قرض حاصل کرتے رہنا اور اس سے کام چلانا، اس سے نہ معیشت بہتر ہوتی ہے نہ ہی عوام کی معاشی حالت بہتر ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف سے بھی قرض لے رہے ہیں اس کے ساتھ دیگر اداروں سے بھی قرض حاصل کرتے رہیں گے تو معاشی حالت کو قرض میں وہ بھی جس میں شرح سود کا نقصان دہ پہلو بھی موجود ہو، ایسے قرض سے کس طرح عوام کی معاشی حالت میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ البتہ پہلے کی اور بات تھی جب پاکستان کو عالمی بینک نے کئی ترقیاتی، توانائی کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے فنڈز کے ساتھ مشینری، ٹیکنالوجی اور ماہرین فراہم کیے تھے جن کی بنیاد پر ہم نے بہت سے ترقیاتی پروجیکٹ مکمل کیے۔
سندھ طاس معاہدہ ہو یا منگلا و تربیلا اور دیگر ڈیمز کی تعمیر و ترقی ان تمام کے لیے عالمی بینک کا تعاون حاصل رہا ہے، لیکن اب خاص وجوہات کی بنا پر ایسے پروگرام لائے جا رہے ہیں جن سے برائے نام ہی معاشی اصلاحی مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ معیشت کی اصلاح جب ہوتی اور جب کہیں جا کر عوام کی حالت بدلتی جب پاکستان کو دیگر ممالک کی طرح بڑے بڑے صحرا، ریگستانی علاقے، پتھریلے علاقے، دور دراز پسماندہ علاقوں کی تعمیر و ترقی کے لیے فنڈز کا اجرا کیا جاتا جس سے غربت میں خاتمے کے عارضی اقدامات کے بجائے مستقل حل تلاش کیا جاتا۔ وقتی طور پر امداد دینا، عوام کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے کچھ پروجیکٹ تو مکمل کرنے میں تعاون کرنا یہ سب باتیں اچھی ہیں لیکن ان کا مکمل حل نکالنا اصل ہے۔
بعض علاقوں میں نہری نظام ہونے کے باوجود یہ شکایات عام ہیں کہ نہر کے آخری علاقوں میں پانی نہیں پہنچتا یا جس مقدار میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے وقت ضرورت اس قدر پانی میسر نہیں آتا۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے ساتھ اب گیس کی لوڈ شیڈنگ کے علاوہ پینے کا پانی، اس کی قلت، اس کے بحران کی طرف تیزی سے جا رہے ہیں۔ زرعی مقاصد کے لیے پانی کی فراہمی کے لیے پروجیکٹ بنانا، اس کے ذریعے غیر کاشت رقبے کو قابل کاشت بنانا، پن بجلی کی پیداوار میں کئی گنا اضافہ کرنا، تیل و گیس کے نئے ذخائر کی تلاش کے لیے منصوبہ بندی کرنا اس کے لیے فنڈز کی فراہمی اور اس کا اس طرح سے استعمال کہ جس سے عام آدمی کی حالت مستقل بنیادوں پر حل ہو کر رہے، جبھی بہتری آ سکتی ہے۔