افریقہ کی مصنوعی ذہانت کی صنعت کے پیشہ ور افراد کی تکنیکی مساوات کے فروغ میں ڈیپ سیک کی تعریف
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
افریقہ کی مصنوعی ذہانت کی صنعت کے پیشہ ور افراد کی تکنیکی مساوات کے فروغ میں ڈیپ سیک کی تعریف WhatsAppFacebookTwitter 0 3 February, 2025 سب نیوز
بیجنگ :چین کے اسٹارٹ اپ ڈیپ سیک کے مصنوعی ذہانت کے ماڈل نے عالمی سطح پر تیزی سے مقبولیت حاصل کی ہے، جو کم لاگت پر چیٹ جی پی ٹی جیسے مغربی ماڈلز کے برابر کارکردگی پیش کرتا ہے۔ افریقہ کے مصنوعی ذہانت کی صنعت کے ماہرین ڈیپ سیک کے ذریعے لائی گئی تبدیلیوں کو سراہ رہے ہیں۔
گھانا کی مصنوعی ذہانت اسٹریٹجی ماہر راشدہ موسا کا خیال ہے کہ چینی کمپنی ڈیپ سیک کا مقصد صرف منافع کمانا نہیں بلکہ اختراعات کو شیئر کرنا ہے، جو مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کی ترقی میں مددگار ہے، کیونکہ ٹیکنالوجی خود بھی گزشتہ کامیابیوں پر استوار ہوتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ڈیپ سیک کے اوپن سورس ماڈل نے افریقہ کے ان اسٹارٹ اپس اور ٹیکنالوجی کے ماہرین کو موقع فراہم کیا ہے جو زیادہ لاگت برداشت نہیں کر سکتے،
تاکہ وہ مصنوعی ذہانت کی ترقی میں حصہ لے سکیں اوراس ضمن میں مساوات کو حقیقت بنائیں۔ راشدہ موسا نے کہا کہ چینی کمپنیاں امریکہ کی ٹیکنالوجی پابندیوں اور دباؤ کے باوجود جدت طرازی میں کامیاب ہوئی ہیں، جو افریقہ کی مصنوعی ذہانت کی ترقی کے لیے ایک قابل تقلید مثال ہے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: مصنوعی ذہانت کی کی مصنوعی ذہانت ڈیپ سیک
پڑھیں:
چینی محققوں کی ٹیم نے ایک انقلابی مصنوعی ہاتھ تیار کر لیا
چینی محققوں کی ٹیم نے ایک انقلابی مصنوعی ہاتھ تیار کر لیا WhatsAppFacebookTwitter 0 3 February, 2025 سب نیوز
ہیفے (شِنہوا) یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی آف چائنہ (یو ایس ٹی سی) کی ایک تحقیقاتی ٹیم نے ایک انقلابی بایو میمیٹک مصنوعی ہاتھ متعارف کرایا ہے جو انتہائی مہارت کے ساتھ بال بنانے، اسمارٹ فونز چلانے اور حتیٰ کہ پیچیدہ اشاروں کی زبان کے اشاروں کو انجام دینے کی صلاحیت رکھتاہے۔
انسان کے ہاتھ کے افعال کی نقل کر نے والا یہ ہلکا پھلکا مصنوعی آلہ مصنوعی اور انسان نماروبوٹس بنانے میں ایک اہم پیشرفت کو ظاہر کرتا ہے اور دنیا بھر میں لاکھوں معذور افراد کے لیے امید کی کرن بن رہا ہے۔
یو ایس ٹی سی نے اپنی سرکاری ویب سائٹ پر کہا ہے کہ یہ تحقیق نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ہوئی تھی۔
ایک انسانی ہاتھ 23 آزادی کے درجے (ڈی او ایف ایس) کا حامل ہے یعنی کہ وہ کتنی آزادانہ حرکتیں کر سکتا ہے، قدرتی انجینئرنگ کا ایک شاندار نمونہ ہے جو جسم کی مجموعی حرکاتی فعالیت کا 54 فیصد فراہم کرتا ہےحالانکہ اس کا وزن جسم کے وزن کے صرف ایک سو پچاسویں حصے کے برابر ہوتا ہے۔
اکثر موٹرز سے چلنے والنے روایتی مصنوعی ہاتھ وزن اور افعال کے درمیان توازن قائم کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ زیادہ تر کا وزن 0.4 کلوگرام سے زیادہ ہوتا ہے جس سے آرام میں کمی آتی ہے اور وہ 10 سے کم ڈی ایف اوزپیش کرتے ہیں۔
یہ محدودیت ان کے پیچیدہ کاموں کو انجام دینے کی صلاحیت کو کم کرتی ہے جس کے نتیجے میں تقریباً آدھے صارفین اپنے مصنوعی ہاتھوں کو ترک کر دیتے ہیں۔