پاکستان میں آباد افریقی نسل کی مقامی آبادیاں
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 فروری 2025ء) اس موضوع پر لکھتے ہوئے تین عشرے قبل رجب کے مہینے میں منگھو پیر کی چوٹی پر واقع خواجہ حسن سخی سلطان منگھو پیر بابا کا مزار، میلہ، زرق برق لباس میں ملبوس مرد و زن اور بچے، گدھا گاڑی کی ریس، مگارمن (افریقی ڈھول) کی تال پر رقص، ساحلی گیت، مزار سے ملحقہ تالاب میں موجود درجنوں مگر مچھوں کے لیے گوشت کا نذرانہ، ملیر ماڈل کالونی سے متصل لاسی پاڑہ اور ملیر ندی سے وابستہ ان گنت واقعات دوبارہ ذہن میں تازہ ہو گئے۔
تب صرف یہی معلوم تھا کہ یہ لوگ شیدی قوم سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی بڑی تعداد کراچی کے علاقے لیاری، منگھو پیر، گولیمار اور ملیر میں آباد ہے جبکہ منگھو پیر میں ان کا ایک سالانہ میلہ ہوتا ہے، اور بس۔
(جاری ہے)
ماضی میں یہ لوگ اس خطے میں کہاں سے آئے؟ پاکستان کے کن کن علاقوں میں آباد ہوئے؟ کیا یہ بھی غلاموں کی طرح یہاں لائے گئے تھے، جیسے امریکہ میں؟ ان کا ممکنہ دور غلامی کب ختم ہوا اور ان کے دوسری نسلوں سے اختلافات کب اور کیسے شروع ہوئے؟
افریقی خدوخال والے یہ لوگ مکرانی اور شیدی کہلاتے ہیں۔
چونکہ کراچی میں صدیوں سے ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے یہ تمام قومیں ایک دوسرے میں رچ بس گئیں، تو لیاری کی اکثریت خود کو بلوچ ہی کہتی ہے اور اس کی زبان بھی بلوچی ہی ہے۔ تاہم لیاری کے کچھ علاقے مخصوص افریقی خدوخال رکھنے والوں کے گڑھ ہیں، جو شیدی کہلانے پر آج بھی خفگی کا اظہار نہیں کرتے۔ غالباً اس کی وجہ ان کی بظاہر کم سماجی حیثیت ہو۔ جنوبی سندھ کی افریقی نژاد برادری سندھی بولتی ہے اور اب یہ قمبرانی یا بلالی کہلائے جانے پر اصرار کرتے ہیں۔معاشرے میں سیاسی شعور اور خواندگی کے باعث دیگر اقلیتوں کی مانند اس برادری میں بھی اپنے سماجی رتبے کے حوالے سے آگہی نے جنم لیا۔ سندھ کے باشعور افریقی نژاد باشندوں نے شیدی لفظ کو اپنے لیے ہتک آمیز قرار دیا ہے۔
امریکہ میں عرصہ دراز سے مقیم لیاری کے ایک سپوت اور مشہور شاعر ن م دانش کے بقول، ''لفظ شیدی سے ہمیں شدید اختلاف ہے کیونکہ اس سے ہمیں ہتک کی بو آتی ہے اور ہم خود کو شیدی کہلوانا قطعی پسند نہیں کرتے۔
ثقافت کئی نسل کے افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔ لیکن اکثریتی اور طاقت ور گروہ اقلیت کو ایک مخصوص شناخت دے کر معاشرے میں تعصب کو فروغ دیتے ہیں۔‘‘اٹھارہویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں غلاموں کی تجارت زوروں پر تھی، جس میں عمان کا عرب سلطان زنج بار پیش پیش تھا۔ موجودہ کینیا اور تنزانیہ سے تعلق رکھنے والے غلاموں کو پہلے عمان میں مسقط کی بندرگاہ لے جایا جاتا تھا۔
پھر یہ غلام بحری جہازوں میں بھر کر کراچی پہنچائے جاتے تھے۔ اس وقت کراچی کی بندرگاہ اندرون ملک غلاموں کی خرید و فروخت کی ایک بڑی منڈی کی حیثیت رکھتی تھی۔ افریقی نژاد غلاموں کی آمد کے بارے میں ماہرین کی آراء مختلف ہیں۔اس موضوع پر ڈاکٹر فیروز احمد کی تحقیق بہت مربوط اور مستند سمجھی جاتی ہے۔ ان کے مطابق، ''سندھ میں افریقی غلاموں کی آمد ٹالپروں کے دور حکومت میں شروع ہوئی کیونکہ ٹالپروں نے بلوچ جنگجو سرداروں کو جاگیروں اور انعامات سے نوازا تھا، جن کے باعث وہ عیش و آرام کے طالب ہو گئے تھے۔
ٹالپر حکمران غلاموں کو زراعت یا کسی پیداواری کام کی غرض سے نہیں رکھتے تھے، بلکہ انہیں محافظ یا گھریلو ملازمین بنایا جاتا تھا۔ امریکہ کے برعکس سندھ میں افریقی نژاد غلاموں پر تشدد کے شواہد نہیں ملتے۔ ہاں البتہ ان کو معاوضہ دینے کے بجائے صرف ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا ہی مالک کا فرض تھا۔ تاہم چند غلام ایسے بھی تھے، جو اپنی بہادری، ذہانت اور وفاداری کے باعث مالکوں کے نور نظر بنے اور ''خانہ زاد‘‘ کہلائے۔1801 میں پیدا ہونے والے 'ہوش محمد‘ عرف ہوشو شیدی کا شمار ان بے باک اور نڈر غلام سپہ سالاروں میں ہوتا ہے جنہیں ٹالپروں نے ''قمبرانی‘‘ کا لقب دیا اور ان کی پرورش شاہی خاندان میں کی گئی تھی۔ ہوشو شیدی 1843 میں انگریزوں کے خلاف حیدرآباد میں لڑتے ہوئے مارے گئے تھے۔ انہوں نے آخری دم تک یہی نعرہ بلند کیا تھا: ''مرسوں مرسوں، سندھ نہ ڈیسوں‘‘ ( مر جاؤں تو مرجاؤں، سندھ نہیں دوں گا)۔
سندھی قوم پرست انہیں آج بھی اپنا رہنما مانتے ہیں۔گو کہ سندھ نسلی تعصبات والا کوئی فرسودہ معاشرہ نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود افریقی نژاد نسل کا باعزت مقام حاصل کرنا ایک دشوار عمل تھا، جس کی سماجی حیثیت اس کے مخصوص خدوخال، رنگ اور بالوں سے متعین کی جا چکی تھی۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنی برادریوں کو منظم کیا۔ مقامی برادریوں سے میل جول بڑھایا اور بعد ازاں قمبرانی قوم کی دوسری برادریوں اور قبیلوں میں شادیوں سے نسلی اختلاط کی بنیاد پڑی۔
ٹالپروں کی 1843 میں انگریزوں کے ہاتھوں شکست کے باعث سندھ کے قمبرانیوں یا بلالیوں کی غلامی نے آزادی کا روپ دھارا ۔ انگریز چونکہ کراچی پر چار سال قبل ہی قبضہ کر چکے تھے، اس لیے آزاد ہونے والے ان افریقی نژاد غلاموں کی بڑی تعداد کراچی کے علاقے لیاری میں آن بسی، جنہیں '' نو آزاد شیدی‘‘ کہا گیا۔
انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے شروع میں ایرانی ساحلی علاقوں میں قحط نے غلاموں میں بغاوت کی راہ ہموار کی۔
بغاوت کے نتیجے میں ہزاروں غلام آزاد ہوئے۔ ان میں سے کچھ مشرقی مکران میں ہی آباد ہو گئے جب کہ اکثریتی سیاہ فام باشندوں نے کراچی میں لیاری کے علاقے بغدادی میں سکونت اختیار کی، جہاں ٹالپروں سے آزاد ہونے والے ''نو آزاد شیدی تاجر‘‘ پہلے ہی سے آباد تھے۔مکران سے آنے والے مکرانی، لسبیلہ سے آنے والے لاسی اور کَچھ سے ہجرت کرنے والوں کو کچھی پکارا جانے لگا جب کہ لیاری میں افریقی نسل کے باشندوں کا نام ''مکرانی‘‘ پڑ گیا۔
لیاری میں سندھی اور بلوچی دونوں زبانیں بولی جاتی ہیں، لیکن زیادہ تر سیاہ فام باشندے بلوچی کو اپنی زبان قرار دیتے ہیں جب کہ مذہبی اعتبار سے یہ لوگ شیعہ سنی مسلم عقائد کا ایک منفرد امتزاج اپنائے ہوئے ہیں۔ لسبیلہ سے ہجرت کرنے والے سیاہ فام لوگ ملیر کے مضافات اور ماڈل کالونی کے لاسی پاڑے میں آ کر آباد ہوئے، اور محنت مزدوری یا کھیتوں میں کام کر کے گزر بسر کرنے لگے۔اندرون سندھ میں قمبرانیوں کی تعداد کے بارے میں کوئی مستند ریکارڈ تو موجود نہیں لیکن قیاس ہے کہ افریقی نسل سے تعلق رکھنے والی برادریوں کی آبادی ہزاروں میں ہو گی۔ اکثر افراد جنہیں قمبرانی سمجھا جاتا ہے، دراصل مخلوط نسل کے ہیں کیونکہ خالص افریقی نژاد اب صرف ٹالپر گھرانوں میں بطور گھریلو ملازمین کام کر رہے ہیں۔
کراچی میں ایک اندازے کے مطابق 20 سے 25 لاکھ بلوچ آباد ہیں، جن میں سے نصف آبادی افریقی نژاد باشندوں کی ہے۔
مکران کی ساحلی علاقوں میں بس جانے والے افریقی نسل کے افراد نے گوادر، پسنی اور جیوانی کو اپنا مسکن بنایا۔ ماہی گیری کا پیشہ اپنایا اور کئی بستیاں آباد کیں۔ یہاں کے بیس پچیس فیصد لوگوں کے خدوخال مکمل افریقی ہیں جبکہ اکثریت کم سیاہ رنگت کے حامل افریقی نژاد افراد کی ہے۔ مکران کے ساحلی علاقوں کے مخلوط افریقی نسل کے بلوچ سنی مسلمان ہیں یا ذکری فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔بلوچستان کے سیاہ فام لوگ سماجی اور معاشی طور پر دوسرے بلوچوں سے کم حیثیت تھے۔ ان کی اچھی خاصی تعداد 1970 کی دہائی میں عمان کی فوج میں بھرتی ہوئی۔ اسّی کی دہائی میں جب خلیجی ریاستوں میں تیل دریافت ہوا، تو بلوچ مزدوروں کے لیے روزگار کے دروازے کھلے اور اپنی محنت کے بل پر بلوچ اور افریقی نژاد خاندان جلد ہی مالی طور پر مستحکم ہو گئے۔
مسقط میں مخلوط نسل کے بلوچوں کی ایک بڑی آبادی موجود ہے۔ البتہ قلات میں اب بھی مخلوط نسل کے متعدد افراد معمولی اجرت پر جاگیرداروں کے خدمت گاروں کے طور پر کام کرتے ہیں۔ بلوچستان کے کچھ علاقوں میں سیاہ فام نسل کو ''نقیب‘‘ یا ''درزداگ‘‘ ( ذات سے باہر) کہا جاتا ہے جبکہ شیدی کے متبادل کے طور پر ''سیاہ کرداگ‘‘ (سیاہ فام) اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔افریقی نژاد باشندوں کی اکثریت سماجی اعتبار سے غریب اور پسماندہ ہے، لیکن اس نسل کے کئی افراد نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اہم عہدوں پر فائز ہوئے۔ ان میں ''محمد صدیق مسافر‘‘ بھی شامل ہیں، جنہوں نے خود کو معلم، ادیب، شاعر اور مدیر کی حیثیت سے منوایا۔
ایک غیر روایتی ساز بینجو بجانے کے ماہر بلاول بیلجیم (محمد بلال) نے اس ساز سے سندھی اور بلوچی موسیقی میں جدت پیدا کر کے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔
بلال کی والدہ ایک مغنیہ اور والد ''کوزانک‘‘ بجانے کے ماہر تھے۔ لیاری کے مشہور شاعر ن م دانش نے اپنی منفرد شاعری سے ایک الگ مقام بنایا۔1950 کی دہائی میں فٹبال کے مایہ ناز کھلاڑی ''محمد عمر‘‘ نے بین الاقوامی مقابلوں میں تیرہ مرتبہ پاکستان کی نمائندگی کر کے دنیا بھر میں اپنی پہچان بنائی۔ بلوچوں اور افریقی نژاد باشندوں کا سیاست میں ہمیشہ ایک جمہوری کردار رہا ہے۔
سیاست میں لیاری کے عوام سندھ اور بلوچستان کے درمیان ایک کڑی کی حیثیت رکھتے ہیں۔بعض سیاہ فام دانشوروں نے اپنی مالی بدحالی اور دشوار صورت حال کے پیش نظر دنیا بھر کے سیاہ فاموں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور سفاکیوں کی داستانیں سن یا جان کر ان سے اپنی وابستگی کا اظہار کیا۔ محمد صدیق مسافر نے اپنی کتاب ''غلامی اور آزادی کے آنکھیں کھول دینے والے حالات‘‘ میں جابجا سیاہ فام امریکیوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان کے افریقی نژاد باشندوں نے مقامی روحانی رسم و رواج کے ساتھ ساتھ قدیم افریقی تمدن کو بھی زندہ رکھا ہوا ہے، جس میں ایک قابل ذکر رواج ''گواتی‘‘ ہے، جس میں آسیب اتارا جاتا ہے۔ مگارمن کی تیز تھاپ پر شیدی رقص افریقی کلچر کی باقیات تصور کیا جاتا ہے، جو نہ صرف منگھوپیر کے میلے میں بلکہ کراچی اور مکران کی متعدد خانقاہوں اور شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی کیا جاتا ہے۔
پاکستان کے افریقی نژاد مقامی باشندے فٹبال اور باکسنگ میں تو اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے لیکن اس کے علاوہ ان کی حس مزاح، فنون لطیفہ میں کردار، رقص میں دلچسپی اور روایتی کُشتی ''مکھ‘‘ میں مہارت بھی قابل ذکر ہیں۔ لیکن افسوس کہ پاکستانی ریاست نے ان شعبوں میں ایسے باشندوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر انہیں پیشہ وارانہ سطح تک پہچانے کے کوئی مناسب مواقع فراہم نہیں کیے۔
پاکستان کی افریقی نژاد برادریاں، چاہے وہ جنوبی سندھ کی ہوں، لیاری کی یا بلوچستان کی ساحلی پٹی پر بسنے والی، وہ سیاسی اور مذہبی لحاظ سے جمہوری اور روشن خیال سوچ کی حامل ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے افریقی نسل علاقوں میں غلاموں کی لیاری کے کے باعث جاتا ہے نے اپنی اور ان صدی کے نسل کے ہو گئے
پڑھیں:
واشنگٹن حادثہ جاں بحق پاکستانی نژاد خاتون اسریٰ حسین کی حادثے سے قبل شوہر سے کیا بات چیت ہوئی؟
امریکی ایئر لائنز کی ذیلی کمپنی امریکن ایگل کی پرواز 5342 واشنگٹن کے رونلڈ ریگن نیشنل ایئرپورٹ کے قریب پہنچ چکی تھی اور توقع تھی کہ کچھ ہی دیر میں لینڈ کر جائے گی، طیارے میں 26 سالہ اسریٰ حسین بھی سوار تھی جبکہ ان کے شوہر حماد رضا پر ان کا انتظار کررہے تھے، اسریٰ حسین نے اپنے شوہر کو فون کیا کہ پرواز کے اترنے میں 20 منٹ ہی رہ گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی مسافر طیارے اور فوجی ہیلی کاپٹر میں تصادم، تمام 67 افراد ہلاک
حماد رضا اپنی اہلیہ اسریٰ حسین سے بات کرہی رہے تھے تھے کہ اچانک ایمرجنسی سروس کے لوگ ان کے پاس سے تیزی سے گزرے اور ساتھ ہی ان کا فون پر اپنی اہلیہ سے رابطہ بھی منقطع ہوگیا۔
معلوم ہوا کہ ان کی اہلیہ جس طیارے سے واشنگٹن آرہی ہے اس سے ایک فوجی ہیلی کاپٹر ٹکرا گیا ہے جس سے طیارہ تباہ ہوگیا ہے اور حادثے میں کسی کے زندہ بچنے کی کوئی امید نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’کوئی میری بیوی کو دریا سے نکال لے‘، امریکی طیارے کی مسافر خاتون کے شوہر کی ویڈیو وائرل
حماد رضا کے مطابق اسریٰ حسین نے انہیں فون پر پیغام بھی بھیجا کہ وہ 20 منٹ میں پہنچ جائیں گی، ان کے لیے گھر پر کھانا تیار تھا۔’ میں ہمیشہ اس کو واپسی پر ایئر پورٹ سے لیتا تھا اور اس کا سامان گاڑی میں رکھتا تھا۔‘
حماد رضا کے مطابق ان کی اسریٰ حسین سے ڈھائی سال قبل شادی ہوئی تھی اور دونوں کی ملاقات دوران تعلیم کالج میں ہوئی تھی۔ اسریٰ حسین اور حماد رضا بطور کنسلٹنٹ کام کرتے تھے، حماد رضا کا کہنا ہے کہ وہ اب تک یقین نہیں کر پائے کہ کیا ہوا ہے اور اپنی اہلیہ کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور یہ کہ ’وہ جہاز میں کیا سوچ رہی ہوگی۔‘
یہ بھی پڑھیں: فلائٹ نمبر 404: گلگت سے اسلام آباد روانہ ہونے والا جہاز جو 35 سال بعد بھی لاپتا ہے
یاد رہے کہ حادثے کا شکار ہونے والے بدقسمت طیارے میں اسریٰ حسین اور عملے کے افراد سمیت 64 افراد سوار تھے، جن میں سے 28 افراد کی لاشیں نکالی جاچکی ہیں۔
اسریٰ حسین واشنگٹن سے ڈومیسٹک پرواز کے ذریعے کینساس کے شہر ویچیٹا کسی کام سے گئی تھیں اور واپس لوٹ رہی تھیں کہ حادثے کا شکار ہوگئیں۔
یہ بھی پڑھیں: کینیڈا: بہت دیر کی مہرباں، ڈوبے جہاز کا ملبہ 200 برس بعد ساحل پر آلگا
شوہر حامد رضا نے بتایا کہ ان کی اہلیہ ہوائی جہاز کے سفر سے گھبراتی تھیں اور ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ ہوائی سفر نہ کریں۔
حماد رضا کے والد ڈاکٹر ہاشم رضا کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ میزوری کے بیپٹیسٹ میڈیکل سینٹر میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اسریٰ حسین امریکا ایئرلائن حادثہ پاکستان پاکستانی خاتون حماد رضا واشنگٹن