مظفرآباد میں پاکستان سے عہدِ وفا کی تجدید کے لیے کشمیر مارچ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
مظفرآباد:
مظفرآباد میں پاکستان سے عہدِ وفا کی تجدید کے لیے کشمیر مارچ کا انعقاد کیا گیا۔ یکجہتی کشمیر کے سلسلے میں کشمیر مارچ میں آزاد کشمیر کے شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
شرکا نے پاکستانی پرچم اٹھا کر کشمیر بنے گا پاکستان ،ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے کے نعرے لگائے۔ کشمیر مارچ میں آزاد کشمیر کی کی قیادت ،مقبوضہ کشمیر کی حریت قیادت اور وزیر اعظم آزاد کشمیر کے علاوہ جماعت اسلامی پاکستان کے سربراہ حافظ نعیم الرحمن نے خطاب کیا ۔
کشمیرمارچ میں خواتین اور مقبوضہ کشمیر کے مہاجرین کی بڑی تعداد نے پاکستانی پرچم اور سید علی گیلانی کی تصاویر اٹھا کر شرکت کی ۔
وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق نے اس موقع پر کہا کہ آزاد کشمیر کے عوام پاک فوج کے شانہ بشانہ وفاع پاکستان کے فرنٹ لائن سولجر ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ قائدِ اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا ہم اس نظریے کی حفاظت کریں گے۔ پاکستان کے عوام کشمیری عوام کے جدو جہد میں ان کے ساتھ ہیں،کشمیریوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے۔
ڈاکٹر مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کی منزل پاکستان ہے جس کے حصول تک کشمیری بھارت سے لڑتے رہیں گے۔کل جماعتی حریت کانفرنس کے کنوینر غلام محمد صفی نے کہا کہ بھارت لاکھوں فوجیوں کے ذریعے کشمیر کو محاصرے میں لے کر بھی جذبہ حریت کو کچل نہیں سکا ۔
آزاد کشمیر کے شہریوں کا مقبوضہ وادی میں باسیوں سے اظہار محبت
دوسری جانب آزاد کشمیر کے شہریوں کا کہنا ہے کہ یومِ یکجہتی کشمیر کے حوالے سے ہم اپنے کشمیری بھائیوں سے والہانہ محبت اور ان کے حقِ آزادی کے لیے اپنے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔
5 فروری کے سلسلے میں آزاد کشمیر کے عوام نے پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے عوام سے اپنی گہری وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 5 فروری اس عزم کا اعادہ کرنے کا دن ہے کہ ہم کشمیریوں کو ان کی جدوجہدِ آزادی میں کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے۔
آزاد کشمیر کے شہریوں کا کہنا تھا کہ یومِ یکجہتی کشمیر کے موقع پر ہم دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ کشمیر جنوبی ایشیا کا ایک ایسا سلگتا ہوا مسئلہ ہے، جسے حل کیے بغیر دنیا میں امن کا قیام ممکن نہیں۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی یومِ یکجہتی کشمیر پورے جوش و خروش کے ساتھ منایا جائے گا اور کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا پیغام پوری دنیا میں پہنچایا جائے گا۔
شہریوں نے کہا کہ کشمیر کی مکمل آزادی، تکمیلِ پاکستان کا نامکمل ایجنڈا ہے اور اس کے لیے ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ ہمارا یہ عزم ہے کہ کشمیر کی آزادی ہی پاکستان کی حقیقی تکمیل ہے اور ہم اس مقصد کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے رہیں گے۔
آزاد کشمیر کے باسیوں نے مزید کہا کہ پاک فوج اور کشمیری عوام نے کشمیر کی آزادی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، اور ہم ان قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ جب تک کشمیر آزاد نہیں ہوگا، ہماری یہ جدوجہد جاری رہے گی۔
کشمیری باشندوں کے یہ پیغامات اس عزم کی تجدید ہیں کہ پاکستانی عوام اور کشمیری بھائی یکجان ہیں اور آزادی کی اس جدوجہد میں کشمیریوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آزاد کشمیر کے یکجہتی کشمیر کے شہریوں کشمیر کی کہ کشمیر کے عوام کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
حق کے چراغ
حال ہی میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے پیکا ترمیمی بل2025 اورڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2025منظورکیے ہیں،جن پرمختلف حلقوں کی جانب سے تنقیداورتشویش کااظہارکیا جا رہا ہے۔ ان قوانین کے تحت حکومت پرالزام عائد کیا جارہا ہے کہ وہ آزادی اظہارکومحدود کرنے اوراپنے مخالفین کونشانہ بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ اگر ان قوانین کی تفصیلات،ان کے ممکنہ فوائد اور نقصانات ،اورآزادی اظہارپران کے اثرات کا جائزہ لیں تویوں محسوس ہوتاہے کہ اس بل میں بے مہار آزادی اظہارپر پابندی کے نام پر اس آزادی کا بھی گلہ گھونٹ دینے کی کوشش کی گئی ہے جوبہرحال کسی بھی ادارے کی من مانی پر قدغن لگانے کیلئے ضروری ہے۔
پیکا ترمیمی بل2025کے تحت’’سوشل میڈیاپروٹیکشن اینڈریگولیٹری اتھارٹی‘‘کے قیام کی تجویزدی گئی ہے۔یہ اتھارٹی سوشل میڈیا صارفین کے تحفظ اورحقوق کویقینی بنانے،سوشل میڈیاپلیٹ فارمزکی رجسٹریشن،معیارات کے تعین، اور غیر قانونی موادکوہٹانے جیسے اختیارات کی حامل ہوگی۔ بل کے مطابق،فیک نیوزپھیلانے پرتین سال قیدیا 20لاکھ روپے جرمانہ یادونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔غیرقانونی موادکی تعریف میں اسلام مخالف، ملکی سلامتی یادفاع کے خلاف مواد،جعلی یاجھوٹی رپورٹس،عدلیہ یامسلح افواج کے خلاف مواد، امن عامہ،غیرشائستگی،توہین عدالت، غیراخلاقی مواد، اور کسی جرم پراکساناشامل ہیں۔ اگرچہ دستیاب معلومات میں ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل2025کی مخصوص تفصیلات محدود ہیں،تاہم اس بل کا مقصدملک میں ڈیجیٹل انفراسٹرکچرکو مضبوط کرنا اور ڈیجیٹل معیشت کوفروغ دیناہوسکتا ہے۔اس میں ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ،آن لائن سروسزکی ریگولیشن، اور ڈیجیٹل خواندگی کوبڑھانے جیسے اقدامات شامل ہوسکتے ہیں۔
سوال یہ ہے پاکستان میں الیکٹرانک میڈیاکی نگرانی اورریگولیشن کیلئے پہلے ہی پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) موجود ہے، جو ٹیلی ویژن اورریڈیونشریات کو کنٹرول کرتی ہے۔ دراصل پیمراکادائرہ کارالیکٹرانک میڈیا تک محدود ہے اوریہ سوشل میڈیایاآن لائن پلیٹ فارمزپر موثرکنٹرول نہیں رکھتا۔انٹرنیٹ اورسوشل میڈیاکے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ،آن لائن پلیٹ فارمزپرجعلی خبروں،نفرت انگیزمواد،اورغیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام کیلئے مخصوص قوانین کی ضرورت محسوس کی گئی۔
پیکا ترمیمی بل2025کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کی تجویز دی گئی ہے،جوسوشل میڈیاپلیٹ فارمزکی نگرانی اورریگولیشن کیلئے مخصوص ہوگی۔اس کے علاوہ،قومی سائبرکرائم تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کی بھی تجویزہے، جوسوشل میڈیا پر غیرقانونی سرگرمیوں کی تحقیقات کرے گی۔ تاہم، پیکا ترمیمی بل 2025 اورڈیجیٹل نیشن پاکستان بل2025کی منظوری کے بعدسوال اٹھتاہے کہ ان نئے قوانین کی ضرورت کیوں پیش آئی؟کیاپیمراکے قیام کے وقت ان خطرات کاعلم نہیں تھاجن کاذکر کرکے نئے قوانین متعارف کرائے گئے ہیں جن پرساری صحافتی برادری احتجاج کررہی ہے۔
حکومت کامؤقف ہے کہ ان قوانین کے ذریعے غیرقانونی،غیراخلاقی،اورملک دشمن مواد کی نشریات کوکنٹرول کیاجاسکے گا،جو معاشرتی ہم آہنگی اورقومی سلامتی کیلئے فائدہ مندہوسکتا ہے۔ فیک نیوزاورغلط معلومات کے پھیلائوکوروکنے کیلئے سخت سزائیں مقررکی گئی ہیں،جومعاشرتی انتشار کو کم کرنے میں مددگارثابت ہوسکتی ہیں۔سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی رجسٹریشن اورمعیارات کے تعین سے آن لائن موادکی نگرانی اورصارفین کے حقوق کاتحفظ ممکن ہوگا۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان قوانین کی وسیع تعریفات اورسخت سزاؤں کی وجہ سے آزادی اظہارپرقدغن لگنے کاخدشہ ہے، جو جمہوری اقدارکے منافی ہوسکتا ہے۔ حکومت ان قوانین کااستعمال اپنے مخالفین کونشانہ بنانے اور تنقیدی آوازوں کودبانے کیلئے کر سکتی ہے، جوسیاسی آزادی کیلئے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ صحافی تنظیموں نے ان قوانین کی مذمت کی ہے اور انہیں آزادی صحافت کیلئے خطرہ قرار دیا ہے، جو آزاد میڈیا کی فعالیت کو محدودکرسکتاہے۔
پیکا ترمیمی بل2025اورڈیجیٹل نیشن پاکستان بل2025کے مقاصدمیں غیر قانونی مواد کی روک تھام اورسوشل میڈیاکی ریگولیشن شامل ہیں،جوبظاہرمثبت اقدامات ہیں۔ تاہم ،ان قوانین کی وسیع تعریفات،سخت سزائیں،اورحکومتی اختیارات کے ممکنہ غلط استعمال کی وجہ سے آزادی اظہار، آزادی صحافت،اورسیاسی آزادی پرمنفی اثرات مرتب ہونے کاخدشہ ہے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ ان قوانین پرنظرثانی کی جائے اورتمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرزبشمول میڈیا،سول سوسائٹی، اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مشاورت سے متوازن قانون سازی کی جائے،تاکہ آزادی اظہار اور قومی سلامتی کے درمیان مناسب توازن قائم کیاجاسکے۔
اگرچہ پیمراالیکٹرانک میڈیاکی نگرانی کیلئے موجودہے،لیکن آن لائن اورسوشل میڈیا پلیٹ فارمزپرموثرکنٹرول کیلئے نئے قوانین کی ضرورت محسوس کی گئی۔تاہم،پیکاترمیمی بل 2025 کی منظوری کے بعدصحافیوں اورآزادی اظہار کے حامیوں کی جانب سے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیاجارہاہے۔عالمی صحافتی ادارے ممکنہ طورپراس احتجاج میں شامل ہو سکتے ہیں اورپاکستانی صحافیوں کی حمایت میں آوازبلندکرسکتے ہیں۔
پیکاترمیمی بل2025کی منظوری کے بعد پاکستان کی صحافتی تنظیموں نے اس کے خلاف ملک گیراحتجاج کااعلان کیاہے۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس(پی ایف یوجے) کی کال پر لاہور، اسلام آباد،کراچی سمیت مختلف شہروں میں صحافیوں نے ریلیاں نکالیں اوراس قانون کو آزادی صحافت کیلئے خطرہ قراردیا۔ عالمی سطح پر، صحافیوں کے حقوق اور آزادی اظہارکے تحفظ کیلئے کام کرنے والے ادارے جیسے رپورٹرز ودآٹ بارڈرز اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس ممکنہ طور پر اس احتجاج میں شامل ہوسکتے ہیں۔یہ ادارے ماضی کمیٹی ٹوپروٹیکٹ،جرنلسٹس میں بھی پاکستان میں صحافیوں کے خلاف قوانین اور اقدامات پر آواز اٹھاتے رہے ہیں اورحکومت پر دبائوڈالنے کیلئے بیانات جاری کرتے رہے ہیں ۔ اگرپاکستان کی صحافتی تنظیمیں ان عالمی اداروں سے رابطہ کرتی ہیں توممکن ہے کہ یہ ادارے اس معاملے پر پاکستانی صحافیوں کی حمایت میں بیانات جاری کریں اوربین الاقوامی سطح پراس مسئلے کواجاگر کریں۔
یہ امرقابل غورہے کہ یہی قانون 2022ء میں سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے متعارف کرانے کی کوشش کی تھی، جس پر اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں نے شدید احتجاج کیاتھا۔ آخرمیں ایک واقعہ کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں: پاکستان کے ایک بہت بڑے صحافی اورشاعرآغا شورش کشمیری نے سید ابوالاعلی مودودی کوایک خط لکھاجس میں انہوں نے کہا مولاناتاریخ انسانی میں ہمیشہ باطل کی فتح ہوئی ہے۔ مولانانے اس خط کے جواب میں جولکھاوہ سننے کے لائق ہے۔
حق کے متعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ وہ بجائے خودحق،ہے،وہ ایسی مستقل اقدار کا نام ہے جوسراسرصحیح اورصادق ہے۔اگرتمام دنیا اس سے منحرف ہوجائے تب بھی وہ حق ہی ہے کیونکہ اس کاحق ہونااس شرط سے مشروط نہیں ہے کہ دنیااس کو مان لے،دنیاکاماننانہ مانناسرے سے حق وباطل کے فیصلے کامعیارہی نہیں ہے۔ دنیا حق کونہیں مانتی توحق ناکام نہیں ہے بلکہ ناکام وہ دنیا ہے جس نے اسے نہ مانااورباطل کوقبول کرلیا‘ ناکام وہ قوم ہوئی جس نے انہیں ردکردیااورباطل پرستوں کواپنارہنما بنایا۔اس میں شک نہیں کہ دنیا میں بات وہی چلتی ہے جسے لوگ بالعموم قبول کرلیں اوروہ بات نہیں چلتی جسے لوگ بالعموم رد کردیں، لیکن لوگوں کاردوقبول ہرگزحق وباطل کا معیار نہیں ہے۔لوگوں کی اکثریت اگر اندھیروں میں بھٹکنااورٹھوکریں کھاناچاہتی ہے تو خوشی سے بھٹکے اورٹھوکریں کھاتی رہے۔ہماراکام بہرحال اندھیروں میں چراغ جلاناہی ہے اورہم مرتے دم تک یہی کام کرتے رہیں گے۔ہم اس سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ ہم بھٹکنے یابھٹکانے والوں میں شامل ہوجائیں۔اللہ کایہ احسان ہے کہ اس نے ہمیںاندھیروں میں چراغ جلانے کی توفیق بخشی۔ اس احسان کاشکریہی ہے کہ ہم چراغ ہی جلاتے جلاتے مرجائیں۔