WE News:
2025-02-03@09:58:08 GMT

ججز کا خط اور عدلیہ کی آزادی

اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT

پاکستان میں اسوقت عدلیہ کی آزادی اور عدلیہ کے معاملات میں ایگزیکٹو کے عمل دخل پر بحث جاری ہے۔ یہ بحث عوام، میڈیا اور سوشل میڈیا سے ہوتی ہوئی اب ججز کے خطوط اور فیصلوں تک جا پہنچی ہے۔ سپریم کورٹ کے سینیئر پیونی جج (senior puisne) جسٹس منصور علی شاہ ہوں یا اسلام آباد ہائیکورٹ کے آدھے درجن کے قریب ججز سب کھل کر عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کے علاوہ آئین کی سربلندی کی یاددہانی کراتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان کو مختلف خطوط لکھ چکے اور چھبیسویں آئینی ترمیم اور ججز کی تعیناتی کے حوالے سے بھی اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہار کھلے عام کر چکے ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو اس بات پر اعتراض ہے کہ دوسرے ہائیکورٹس سے جج لاکر ان میں سے کسی ایک کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس تعینات نہ کیا جائے کیونکہ یہ آئین کیساتھ فراڈ ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی ایک ہائیکورٹ کے جج کو کسی دوسرے ہائیکورٹ میں چیف جسٹس تعینات کیا گیا ہو؟ یا براہ راست کسی کو جج بنا کر اسے سیدھا چیف جسٹس تعینات کیا گیا ہو؟ ہمارے ملک میں ایسا انہونا واقعہ بھی ہوا ہے کہ ایک وزیر خارجہ کو استعفیٰ دلوا کر براہ راست ہائیکورٹ کا چیف جسٹس لگایا گیا۔

سابق ملٹری ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے دور میں منظور قادر بطور وزیر خارجہ کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ جنرل ایوب خان نے وزارت خارجہ سے انکو استعفیٰ دلوا کر چیف جسٹس ویسٹ پاکستان ہائیکورٹ (لاہور ہائیکورٹ) تعینات کردیا۔ منظور قادر صاحب عدلیہ اور وکلا برادری میں انتہائی احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ اس لیے جب ان کو براہ راست چیف جسٹس تعینات کیا گیا تو ویسٹ پاکستان ہائیکورٹ کے کسی بھی جج نے ان پر اعتراض نہ کیا۔ ویسے بھی ہماری تاریخ ایسی ہے کہ عدلیہ نے ہمیشہ ڈکٹیٹرز کو نظریہ ضرورت کے تحت آئینی کور دیا۔

جیسا کہ عرض کیا ہے کہ ہماری عدلیہ میں بے شمار انہونے واقعات ہوئے ہیں۔ ہائیکورٹس میں براہ راست چیف جسٹس لگانا تو ایک طرف یہاں تو سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کو ایک ہائیکورٹ کا چیف جسٹس لگا دیا گیا اور وہ بیک وقت دو عہدوں پر فائز رہے۔ لیکن مملکت خداد میں ہمیشہ سہاگن وہی جو پیا من بھائے۔ خود سے آئین کو موم کی ناک کی طرح جس طرف چاہے موڑ دیا جائے لیکن پارلیمنٹ اگر کوئی قانون سازی کرے تو وہ قابل قبول نہیں۔

بہر حال پچھلے دنوں جسٹس ارشاد حسن خان کا میڈیا پر خوب تذکرہ رہا اور آجکل اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی طرف سے ججوں کے تبادلے اور کسی دوسرے ہائیکورٹ کے جج کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس لگائے جانے کے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے تو موقع کی مناسبت سے مجھے ایک واقعہ یاد آگیا اور اس کے ساتھ ساتھ الجہاد ٹرسٹ کیس کا فیصلہ بھی جس میں اس واقعے سے جڑے کچھ حقائق بھی۔

ہوا کچھ یوں کہ لاہور ہائیکورٹ میں چیف جسٹس کا عہدہ خالی ہوا تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس عہدے پر روٹین کیمطابق چیف جسٹس کی تعیناتی کی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ایک فل ٹائم چیف جسٹس کے بجائے نگران (ایکٹنگ) چیف جسٹس لگادیا گیا۔ اس سے بھی ستم ظریفی یہ کہ سپریم کورٹ کے ایک حاضر سروس جج کو نگران چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ تعینات کیا گیا۔ جسٹس ارشاد حسن خان جو اس وقت سپریم کورٹ میں بطور جج فرائض سرانجام دے رہے تھے ان کو 1995 میں لاہور ہائیکورٹ کے نگران چیف جسٹس کا اضافی چارج بھی دے دیا گیا اور 1996 میں اس عہدے پر ایک ریگولر چیف جسٹس تعینات کیا گیا۔

یہ تو بھلا ہو الجہاد ٹرسٹ کیس کا جس کے بعد کچھ رولز سیٹ کردیے گئے کہ اگر اعلیٰ عدلیہ میں جج کی آسامی خالی ہو تو 30 دن کے اندر پُر کیا جانا لازمی ہے اور اگر کسی جج کی دوران سروس وفات ہو جائے یا کوئی مستعفی ہو جائے تو پھر اس آسامی پر 90 دنوں پر تعیناتی کرنا لازمی ہے۔ اگر یہ فیصلہ نہ آتا تو نہ جانے کب تک نگران چیف جسٹسز کا سلسلہ برقرار رہتا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے جو متفقہ طور پر خط چیف جسٹس سپریم کورٹ، سندھ اور لاہور ہائیکورٹس اور صدر مملکت کو لکھا ہے قانونی طور پر جو شخص بھی سروس آف پاکستان میں ہے مشترکہ نمائندگی کر ہی نہیں سکتا۔ گورنمنٹ سروسز کنڈکٹ رولز آف 1964 کیمطابق کوئی بھی شخص جو سروس آف پاکستان میں ہے ایک سے زیادہ لوگوں کیساتھ مل کر کسی معاملے پر اپنے تحفظات، خدشات کا اظہار نہیں کرسکتا۔ البتہ اکیلے اکیلے ان کے اظہار پر کوئی پابندی نہیں۔

سوال یہ بھی ہے کیا ہماری عدلیہ خود کو سروس آف پاکستان کے ماتحت مانتی ہے کہ نہیں؟ ابھی تک اس سوال کے جواب کا بھی تعین نہیں ہوسکا۔ یہ ایک لمبی بحث ہے۔ بہرحال اب تو ججز کے ان خطوط کا جواب بھی دے دیا گیا اور صدر مملکت نے لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائیکورٹ سے ایک ایک جج کا تبادلہ کرکے ان کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں تعینات کردیا ہے اور ججز کا خط غیر مؤثر ہوچکا ہے۔ اب تو جو ہونا تھا ہوچکا ہے لیکن ہمیں بھی اپنی اداؤں پر کچھ غور کرنا چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عزیز درانی

اسلام آباد ہائیکورٹ ججز خط صدر زرداری عزیز درانی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائیکورٹ چیف جسٹس تعینات کیا گیا اسلام آباد ہائیکورٹ کے لاہور ہائیکورٹ ہائیکورٹ کے جج سپریم کورٹ آف پاکستان براہ راست کورٹ میں گیا اور دیا گیا

پڑھیں:

بلوچستان‘ سندھ اور لاہور ہائیکورٹ سے 3 ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ تبادلہ

اسلام آ باد ( مانیٹر نگ ڈ یسک ) بلوچستان، سندھ اور لاہور ہائیکورٹ سے تین ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ تبادلہ کر دیا گیا۔صدر مملکت آصف علی زرداری نے تینوں ججز کے
تبادلے کئے، اس سلسلہ میں وزارت قانون و انصاف نے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا۔نوٹیفکیشن کے مطابق جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کا لاہور ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلہ کیا گیا ہے۔سندھ ہائیکورٹ سے جسٹس خادم حسین سومرو اور بلوچستان ہائیکورٹ سے جسٹس محمد ا?صف کا اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلہ کیا گیا ہے۔یاد رہے کہ اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ دوسری ہائیکورٹ سے جج نہ لایا جائے اور نہ چیف جسٹس بنایا جائے، اسلام آباد ہائیکورٹ سے ہی تین سینئر ججز میں سے چیف جسٹس بنایا جائے۔صدر مملکت، چیف جسٹس آف پاکستان، سندھ، لاہور اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز نے خط لکھا تھا، خط لکھنے والوں میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان اور ثمن رفعت امتیاز شامل تھے۔ججز نے خط میں لکھا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ میں 60 ججز کی گنجائش ہے جبکہ صرف 35 ججز کام کر رہے ہیں، لاہور ہائیکورٹ میں 58.33 فیصد ججز موجود ہیں جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پہلے ہی 12 میں سے 10 ججز کام کر رہے ہیں جس کا تناسب 83.33 فیصد بنتا ہے۔خط میں ججز نے کہا تھا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ جج کے تبادلہ کی وجہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد ہے، حقیقت میں ججز کی زیادہ ضرورت اسلام آباد ہائیکورٹ کے بجائے لاہور ہائی کورٹ میں ہے۔ججز نے خط میں کہا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ سے جج اگر اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر کیا جاتا ہے تو وہ آئین کے مطابق چیف جسٹس نہیں بن سکتا کیونکہ جج کا حلف اْس ہائیکورٹ کیلئے ہوتا ہے جس میں وہ کام شروع کرے گا۔خط میں کہا گیا تھا کہ ٹرانسفر ہونے والے جج کو آئین کے آرٹیکل 194 کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ میں کام شروع کرنے سے پہلے نیا حلف اٹھانا پڑے گا، اسلام آباد ہائیکورٹ کیلئے ٹرانسفر ہونے والے جج کی سینیارٹی اْس نئے حلف کے مطابق طے کی جائے گی۔ججز نے خط میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ یہ طے کر چکی ہے کہ سینیارٹی کا تعین متعلقہ ہائیکورٹ میں حلف لینے کے دن سے کیا جائے گا۔خط میں کہا گیا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ سے جج لا کر اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا تو یہ آئین کے ساتھ فراڈ ہو گا، کیونکہ آئین کے مطابق ہائیکورٹ کا چیف جسٹس اْسی ہائیکورٹ کے تین سینئر ججز میں سے تعینات کیا جائے گا۔خط میں ججز نے کہا تھا کہ کسی اور ہائیکورٹ سے سینیارٹی میں نچلے درجے کے جج کو دوسری ہائیکورٹ میں ٹرانسفر کر کے چیف جسٹس کیلئے زیرغور لانا آئین کے مقصد کو شکست دینے کے مترادف ہے۔ججز نے خط میں کہا تھا کہ آئینِ پاکستان میں فیڈرل جوڈیشل سروس کا کوئی تصور موجود نہیں اور تمام ہائیکورٹس آزاد اور خودمختار ہیں، ہائیکورٹ میں جو ججز تعینات کیے جاتے ہیں وہ صرف اْس مخصوص صوبے کی ہائیکورٹ کیلئے حلف لیتے ہیں۔خط میں کہا گیا تھا کہ 2010 میں 18ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد پاکستان میں سیاسی جمہوری حکومتوں کے ادوار میں آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت ہائیکورٹ کے مستقل جج کی تعیناتی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

متعلقہ مضامین

  • کیا اعلی عدلیہ کے جج صاحبان نے آئین پاکستان کے تحفظ کا حلف نہیں اٹھایا؟ ،عرفان صدیقی کا اعتراض کرنے والوں سے سوال
  • اعلیٰ عدلیہ کے تمام جج صاحبان نے آئین پاکستان کی پاسداری اور تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہے، عرفان صدیقی
  • ججز کے تبادلوں کا مقصد عدلیہ کو تقسیم کرنا ہے، بھرپور مخالفت کریں گے، وکلا
  • بلوچستان‘ سندھ اور لاہور ہائیکورٹ سے 3 ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ تبادلہ
  • صوبوں سے ججز کو ٹرانسفر کرنے کا مقصد ایک جج کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ بنانا ہے
  • ہائیکورٹ ججزکاخط اعلیٰ عدلیہ میں نئے بحران کاعندیہ
  • لاہور ہائیکورٹ کے 3 جج اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنے
  • اسلام آبادہائیکورٹ کے ججز کا خط: اہم نکات کیا ہیں؟
  • عدلیہ میں ایک اور بحران جنم لینے لگا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا صدر مملکت اور چیف جسٹس کو خط