Express News:
2025-02-03@09:54:23 GMT

’’گوری رنگت‘‘ نے نیل نتن مکیش کو گرفتار کروا دیا

اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT

بالی ووڈ اداکار نیل نتن مکیش نے ایک دلچسپ واقعے سے پردہ اٹھایا ہے جب ان کی بہت زیادہ گوری رنگت نے انھیں مشکل سے دوچار کردیا تھا۔

مشہور گلوکار مکیش کے بیٹے بالی ووڈ اسٹار نیل نتن مکیش نے ایک حیران کن واقعہ شیئر کیا ہے جو ان کے ساتھ نیویارک ایئرپورٹ پر پیش آیا تھا۔

نیل نتن مکیش، جو اپنی دلکش شخصیت اور وجاہت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، انھیں صرف اس وجہ سے حراست میں لے لیا گیا تھا کہ وہ ’’بہت گورے‘‘ نظر آ رہے تھے اور امیگریشن حکام کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ وہ بھارتی ہیں۔

یہ واقعہ 2009 میں فلم ’’نیویارک‘‘ کی شوٹنگ کے دوران پیش آیا تھا۔ جب وہ نیویارک ایئرپورٹ پر پہنچے تو امیگریشن افسران نے انہیں روک لیا اور ان سے بھارتی ہونے کے ثبوت مانگے۔ نیل نتن مکیش کے پاس بھارتی پاسپورٹ تھا لیکن افسران کو اس پر یقین نہیں ہوا۔

نیل نے بتایا کہ انہیں کئی گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا اور ان سے سخت سوالات پوچھے گئے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہیں اپنی صفائی دینے کا موقع بھی نہیں ملا۔

جب آخرکار انہوں نے افسران سے کہا کہ وہ انہیں گوگل پر سرچ کرلیں تو افسران حیران رہ گئے۔ پھر انہوں نے نیل کے خاندان کے بارے میں سوالات کرنے شروع کیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نیل نتن مکیش

پڑھیں:

پی ٹی آئی کے بعد حکومت نے بھی مذاکراتی عمل ختم کردیا،عرفان صدیقی کی تصدیق

 اسلام آباد: پی ٹی آئی کے مذاکراتی عمل سے باہر نکلنے اور وزیراعظم کی جانب سے دوبارہ بات چیت کی پیشکش کو مسترد کیے جانے پر حکومت نے بھی مذاکراتی عمل ختم کر دیا۔ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے لیے حکومتی کمیٹی کے ترجمان اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے تصدیق کردی۔
ایک سعودی اخبار کو انٹرویو میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے، تحریک انصاف والے جس تیزی کے ساتھ مذاکرات کے لیے آئے تھے اسی تیزی سے واپس چلے گئے ان کا واحد اور حقیقی مطالبہ عمران خان اور دیگر رہنماؤں کی فوری رہائی تھی جس کا راستہ یہی ہے کہ وہ وزیراعظم سے کہیں کہ وہ صدر کو ان کی سزا معاف کرنے کی سفارش کریں۔
 انہوں نے کہا کہ ’مذاکرات میں اس وقت نہ تعطل ہے اور نہ ہی کوئی بریک ڈاؤن ہے، یہ ختم ہو چکے ہیں، وزیراعظم کی پیشکش کے باوجود ان کی طرف سے جو جوابات آئے ہیں وہ آپ کے سامنے ہیں آج 31 جنوری ہے، ان کی جانب سے جو ڈیڈ لائن دی گئی تھی وہ بھی آچکی ہے، انھوں نے اپنی کمیٹی بھی تحلیل کر دی ہے تو اب یہ ختم ہو چکے ہیں۔
 عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں بہت سے مطالبات ایسے تھے جن کی بنیاد پر اعتماد سازی ہو سکتی تھی، ان میں بہت سے پر ہم نے غور کر لیا تھا، جوڈیشل کمیشن بنانے کے مطالبے پر بھی ‘ریڈ کراس نہیں لگایا تھا، ہمارے وکلاء کا مشورہ تھا کہ جب معاملات عدالتوں میں ہوں تو اس پر جوڈیشل کمیشن نہیں بن سکتا۔
 انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود ہم نے دو ٹوک جواب دینے کے بجائے یہ سوچا تھا کہ ہم یہ جواب دیں گے کہ ہمارے وکلاء کی یہ رائے ہے آپ اپنے وکلاء کو بلا لیں جو اپنی رائے دیں۔ ہمیں قائل کریں اور ہم مل کر بیچ کا کوئی راستہ نکال لیں گے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ اعتماد سازی کے حوالے سے بھی ہم نے اور بھی بہت سی چیزوں پر کام کر لیا تھا۔
کیا اقدامات کیے گئے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’وہ ابھی تک خفیہ ہیں اور اگر وہ سامنے آنا تھے تو تحریک انصاف کے ذریعے ہی سب تک پہنچنا تھے، ہم نے جو دستاویز تیار کی تھیں وہ حرفِ آخر بھی نہیں بلکہ اس کو ورکنگ پیپر کا نام دیا گیا تھا جس کی تراش خراش ممکن تھی اور اگر وہ آتے اور بیٹھتے تو ان کے لیے اس میں کئی ایک اطمینان بخش چیزیں تھیں۔
انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر پی ٹی آئی کے ڈی این اے اور خمیر میں مذاکرات، بات چیت اور لین دین شامل ہی نہیں، وہ سڑکوں، چوراہوں، ڈنڈوں، غلیلوں، 9 مئی، 26 نومبر اور تشدّد کے لیے بنی ہے۔
انھوں نے جب جب بھی مذاکرات کیے وہاں سے ایسے ہی نکلے، 28 جنوری کی صبح تک تو ہم کام کر رہے تھے، پی ٹی آئی نے چھ دن پہلے کہا کہ عمران خان نے کہہ دیا ہے تو اب مذاکرات نہیں ہوں گے۔
 عرفان صدیقی نے بتایا کہ کمیٹی میں پی ٹی آئی نے عمران خان، شاہ محمود قریشی، عمر چیمہ، اعجاز چوہدری، یاسمین راشد اور محمود الرشید کا نام لے کر رہائی کا مطالبہ کیا، یہ نام لکھے نہیں لیکن بول کر کہا کہ آپ ان کی رہائی میں سہولت کاری کریں اس کے علاوہ انھوں نے دیگر قیدیوں کی رہائی کا بھی کہا یہ ان کا واحد مطالبہ تھا، جوڈیشل کمیشن اور دیگر باتیں بے معنی اور ثانوی تھیں۔
 انہوں نے کہا کہ واحد حل یہ ہے کہ تحریک انصاف آئے اور وزیراعظم سے کہے کہ وہ صدر کو سفارش کریں کہ ان کی سزائیں معاف کردی جائیں تو شہباز شریف صدر زرداری کو یہ کہہ سکتے ہیں، اس کے علاوہ ان لوگوں کی رہائی کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف پاکستان کی تاریخ کا ایک منفرد عجوبہ ہے۔ یہ ‘خان نہیں تو پاکستان نہیں  کے نعرے کی عملی تصویر ہے جو افسوس ناک ہے۔
پیکا ایکٹ کے حوالے سے سوال پر عرفان صدیقی نے کہا کہ اس میں پہلی بات تو یہ ہے پارٹی کا ایک فیصلہ ہوتا ہے جس کے ساتھ ہونا ہوتا ہے یا پھر انسان ساتھ چھوڑ دے اس کے باوجود میں نے وزیر قانون کی جانب سے بلائی گئی میٹنگ میں اپنی رائے دی۔ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں بھی صحافیوں کو بات کرنے کا موقع میری تجویز اور سفارش پر ملا۔
انہوں نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر سمجھتے ہیں کہ وسیع تر مشاورت ہونی چاہیے تھی، رائے لینی چاہیے تھی اور صحافیوں کے تحفّظات دور کرنے چاہییں میں ذاتی طور پر اس قانون کی روح سے متفق ہوں کیونکہ صحافت اور فیک نیوز پھیلانے والوں میں فرق کرنا چاہیے، حقیقی صحافت کرنے والے لوگ اس قانون کی زد میں نہیں آئیں گے بلکہ وہ لوگ آئیں گے جو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے لوگوں کی گندی ویڈیوز بناتے ہیں۔
  عرفان صدیقی نے کہا کہ میں نے وزیراعظم سے بات کی ہے کہ صحافیوں کی بات سن کر ان کے تحفظات ختم کرتے ہوئے قانون میں ترمیم کرنی چاہیے ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور میں ذاتی حیثیت میں اپنی ذمہ داری سے بڑھ کر اس پر کام کروں گا۔

متعلقہ مضامین

  • ویوو X200 Pro پاکستان میں 200MP ZEISS APO Telephoto Camera اور Dual Flagship Chip کے ساتھ متعارف کروا دیا گیا
  • امریکی خاتون کا مذاق نہ اڑائیں انہیں احترام کیساتھ ملک بدر کریں: نادیہ حسین کی حکومت سے اپیل
  • نیل نتن کے گورے رنگ نے انہیں گرفتار کروادیا
  • مکیش امبانی کے 27 منزلہ عمارت کا ہوش اُڑا دینے والا بجلی بل کتنا آتا ہے؟
  • بچوں کا اغوا روکنے کیلیے کراچی پولیس چیف نے افسران کی ٹیم بنادی
  • قرآن پاک کی بیحرمتی کرنیوالا ملعون قتل: 5 گرفتار افراد کی رہائی کا حکم
  • کیا فیس بک دوبارہ پرانی شکل میں آنے والا ہے؟
  • پی ٹی آئی کے بعد حکومت نے بھی مذاکراتی عمل ختم کردیا،عرفان صدیقی کی تصدیق
  • "1 بھی ملزم جائے وقوع سے گرفتار نہیں کیا گیا"