نیاامریکی عہد اورعالمی دراڑیں،ٹرمپ کی پالیسیاں اور اثرات
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
ٹرمپ کے ابتدائی حکمناموں میں سے ایک کے ذریعے خلیجِ میکسیکوکانام تبدیل کرکے خلیجِ امریکا کردیاگیاہے۔ایک حکم نامے کے ذریعے صدرنے تمام وفاقی اداروں اورایجنسیوں کوحکم دیاہے کہ وہ عام امریکی شہریوں کی’’کاسٹ آف لیونگ‘‘یعنی گزربسرکے لئے درکاراخراجات کوکم کرنے کی کوششیں کریں۔ان کے اقدامات سے ظاہرہوتاہے کہ ٹرمپ بطورصدر اپنے اختیارات کابھرپوراستعمال کرتے ہوئے امریکامیں اس بنیادی تبدیلی کولانے کی کوشش کریں گے جس کاانہوں نے وعدہ کیا لیکن وہ محض اپنے دستخط کے ذریعے یہ سب نہیں کرسکتے۔مثلاًانہوں نے ایک ایگزیکٹیو حکم نامے کے ذریعے امریکامیں پیدائش کے ساتھ ہی شہریت دئیے جانے کے150سال پرانے حق کوختم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس حکم کویقیناعدالت میں چیلنج کیاجائے گا۔اسی طرح ان کے کئی دوسرے احکامات پرعملدرآمد کے لئے قانون سازی کی ضرورت بھی پڑے گی ۔
ٹرمپ نے پہلے دن جوایگزیکٹیوآرڈرزجاری کئے ہیں،ان کے یہ اقدامات ان کی انتخابی مہم کے دوران کئے گئے وعدوں کی تکمیل کی طرف پہلاقدم ہیں۔ ان احکامات کادائرہ کارکئی اہم شعبوں تک پھیلاہواہے۔ انہوں نے ایگزیکٹیو حکم جاری کرتے ہوئے4سال قبل امریکی کیپیٹل ہل میں ہونے والے فسادات میں ملوث تقریباً 1600افرادکے لئے معافی اورسزامیں کمی کردی ہے اور فسادات میں ملوث مشتبہ افرادکے خلاف تمام زیرالتوامقدمات ختم کرنے کاحکم جاری کیاہے۔ جنوری2021ء میں ٹرمپ کے ہزاروں حامیوں نے 2020ء کے صدارتی انتخاب کے نتائج مستردکرتے ہوئے امریکی قانون سازاسمبلی پردھاوابول کرتوڑپھوڑ کی تھی۔ٹرمپ کی جانب سے جن افرادکومعافی دی گئی ہے ان میں اوتھ کیپرگروہ کے رہنما سٹیورٹ رہوڈزشامل ہیں جنہیں2023ء میں18سال قیدکی سزا سنائی گئی تھی۔پراڈبوائزکے سابق رہنما ہنری ٹیریو جنہیں بغاوت کی سازش کے الزام میں22سال قیدکی سزاسنائی گئی تھی۔ان کے وکیل کاکہناہے کہ ان کے مؤکل کی بھی رہائی کی امید ہے۔
ٹرمپ نے غیرقانونی امیگریشن کے خلاف سخت رویہ اختیارکرتے ہوئے نئے قوانین متعارف کروائے ہیں۔امریکی سرحدوں پر نگرانی کو مزیدسخت کرنا اور غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن شامل ہے۔پناہ گزینوں کی تعدادمحدودکرنے کے علاوہ ان ممالک کی فہرست کوبھی توسیع دی ہے جن پرسفری پابندیاں عائد ہیں۔2021ء کے اعدادوشمار کے مطابق، امریکا نے پناہ گزینوں کے داخلے میں85فیصدکمی کی تھی اورٹرمپ کی پالیسیوں کے دوبارہ نفاذسے یہ کمی مزیدبڑھ سکتی ہے۔
سابقہ حکومت کی ماحول دوست پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے،ٹرمپ نے ماحولیات سے متعلق کئی اہم فیصلے کئے ہیں۔انہوں نے پیرس ماحولیاتی معاہدے سے امریکاکوعلیحدہ کرنے کے اپنے پہلے دور کے فیصلے کوبحال کیااورماحولیاتی تحفظ کے کئی قوانین کونرم کرنے کاعندیہ دیاہے۔2020ء تک امریکاعالمی سطح پرکاربن ڈائی آکسائیڈکے اخراج میں 15 فیصد کے قریب حصہ دار تھا،اور نئی پالیسیوں سے یہ تناسب مزیدبڑھ سکتاہے۔ اس سے ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف عالمی کوششوں کو شدیددھچکالگنے کاامکان ہے۔
ٹرمپ نے سابقہ حکومت کی کووڈ -19ویکسینیشن اورصحت کی پالیسیوں کوتبدیل کرنے کے اشارے دئیے ہیں۔انہوں نے ماسک مینڈیٹ اوروفاقی سطح پرویکسین کے لئے دیے گئے قوانین کوختم کردیاہے۔ امریکا میں2021ء میں ویکسینیشن کی شرح70فیصدتک پہنچ چکی تھی لیکن نئی پالیسیوں سے صحت کے شعبے میں بے یقینی پیداہوسکتی ہے۔ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں،انہوں نے روس کے ساتھ بہترتعلقات قائم رکھنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم،یوکرین پرروسی جارحیت کے معاملے پران کی پوزیشن غیرواضح رہی۔دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد، ان کی پالیسی روس کی حمایت میں جھکاؤاوریوکرین کودی جانے والی امریکی امدادمیں ممکنہ کمی کااشارہ دیتی ہے۔انہوں نے یہ بھی کہاہے کہ اگرمیں اقتدارمیں ہوتا تویوکرین میں کبھی جنگ نہ ہوتی۔انہوں نے پیوٹن سے دوستی کاہاتھ بڑھانے کا عندیہ بھی دیاہے۔یہ اقدامات نیٹواوریورپی یونین کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی پیدا کر سکتے ہیں۔
ٹرمپ کی مشرقِ وسطیٰ کی پالیسی’’ابراہام معاہدے‘‘ کے گردگھومتی رہی ہے،جس کے تحت اسرائیل اورمتعددعرب ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آئے۔انہوں نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیارکی تھی اورپابندیوں کوسخت کیاتھا۔ان کی ممکنہ واپسی مشرقِ وسطیٰ میں ایران،سعودی تعلقات پرمنفی اثرڈال سکتی ہے اورخطے میں کشیدگی کوبڑھاسکتی ہے۔یادرہے کہ یمن میں جنگ ختم کرانے میں چین نے اہم کرداراداکیاہے جس سے امریکی اسلحہ سازکمپنیوں کے کاروبارمیں واضح کمی آئی ہے۔ فلسطین کے مسئلے پر ان کی یکطرفہ حمایت اسرائیل کے حق میں رہی،جوخطے میں امن عمل کے لئے مزیدرکاوٹ بن سکتی ہے۔
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں موجودہ جنگوں کوختم کرنے اورمزیدجنگوں سے گریزکاوعدہ کیاتھا۔ان کا مؤقف تھاکہ امریکاکو عالمی تنازعات سے دور رہنا چاہیے اوراپنے وسائل اندرونی ترقی پرخرچ کرنے چاہئیں۔ تاہم،ان کے جارحانہ بیانات اوراقدامات اس وعدے کی نفی کرتے نظرآتے ہیں۔مثال کے طورپرٹرمپ نے گرین لینڈکوخریدنے کی تجویز پیش کی تھی،جس سے انکارپرٹرمپ نے قبضہ کاعندیہ دیا ہے جوڈنمارک اوربین الاقوامی برادری میں تنازعے کاباعث بنی ہے۔یورپی یونین نے ڈنمارک کی مکمل حمائت کااعلان بھی کردیاہے۔انہوں نے پانامااورکینیڈاکے ساتھ تجارتی اورسفارتی معاملات پرسخت بیانات دیے،جوان ممالک کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کاسبب بن گئے ہیں۔کینیڈاکے وزیراعظم جسٹن ٹروڈونے ٹرمپ دھمکی کے بعدنہ صرف اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیاہے بلکہ عملی سیاست سے الگ ہونے کااعلان بھی کردیاہے۔ٹرمپ کی جانب سے میکسیکو کے خلاف دیوارتعمیر کرنے کے اعلانات اورغیرقانونی تارکین وطن کے خلاف سخت رویے نے امریکااورمیکسیکوکے تعلقات کومزیدپیچیدہ کردیاہے۔ ان بیانات اوراقدامات نے نہ صرف امریکی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات پرمنفی اثرڈالابلکہ یہ بھی ظاہرکیاکہ ٹرمپ کی’’جنگوں سے گریز‘‘کی پالیسی محدودمقاصد کے تحت تھی،جس میں اقتصادی اورسیاسی مفادات کوترجیح دی گئی۔یادرہے کہ ٹرمپ کے ان اقدامات کے اثرات دنیابھرمیں یقینامحسوس کیے جائیں گے۔
مثلاًامیگریشن پالیسیوں کی سختی سے امریکامیں سستی لیبرکی قلت ہوسکتی ہے،جومختلف صنعتوں کو متاثر کرے گی۔اس کے ساتھ ہی،چین کے ساتھ تجارتی کشیدگی میں اضافے سے عالمی سپلائی متاثرہوسکتی ہے۔ ترقی پذیرممالک جوامریکاکے ساتھ تجارتی تعلقات پر انحصارکرتے ہیں،انہیں شدیدنقصان کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ٹرمپ کے دورمیں عالمی سیاست میں قوم پرستی اورتحفظ پسندی کے رجحانات کوفروغ مل سکتاہے۔پیرس معاہدے سے علیحدگی جیسے اقدامات سے امریکاکی عالمی قائدانہ حیثیت پرسوالیہ نشان لگ سکتاہے،اوردیگرممالک کواپنی ماحولیاتی پالیسیاں ترتیب دینے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔روس اوریوکرین تنازعہ پران کے مقف سے یورپ میں امریکی اثرورسوخ کم ہوسکتاہے۔امیگریشن قوانین میں سختی اورمسلم اکثریتی ممالک پرسفری پابندیوں سے دنیابھرمیں مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑک سکتے ہیں۔اس کے علاوہ،تارکین وطن کی تعدادمیں کمی سے امریکامیں موجود مختلف کمیونٹیزکوسماجی اوراقتصادی مسائل کاسامناکرنا پڑسکتاہے۔
’’امریکاسب سے پہلے‘‘کے نعرے پر مبنی وہ چاہتے ہیں کہ امریکی معیشت اورصنعتیں عالمی مسابقت میں سب سے آگے ہوں۔ تاہم،یہ حکمت عملی دنیاکے دیگرممالک کے ساتھ تنازعات کوجنم دے سکتی ہے۔ان کی قوم پرستی پرمبنی پالیسیزترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک پربھی اثراندازہوں گی۔ٹرمپ کے اقدامات کے طویل المدتی اثرات کااندازہ لگاناابھی مشکل ہے، لیکن ان کے ابتدائی فیصلے ظاہرکرتے ہیں کہ وہ ایک جارحانہ اورغیرروایتی حکمت عملی اپنانے کاارادہ رکھتے ہیں۔اس بات میں اب کسی کوشک نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنی صدارت کی مدت کاایک بھی لمحہ ضائع نہیں کریں گے۔وہ اپنی پہچان ایک ایسے صدر کے طورپربناناچاہتے ہیں جوتبدیلی کی علامت سمجھاجائے اورانہوں نے اس جانب کام شروع کردیاہے۔ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں:
امریکاکی اندرونی سیاست میں مزید تقسیم پیداہوسکتی ہے۔چین کے ساتھ تجارتی جنگ شدت اختیارکرسکتی ہے۔عالمی سطح پرماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف اقدامات میں کمی آسکتی ہے۔مشرقِ وسطیٰ میں تنازعات کی شدت بڑھ سکتی ہے۔یورپی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی پیداہوسکتی ہے ٹرمپ کی صدارتی حکمت عملی ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے، جو عالمی نظام پر دیرپا اثر ڈالے گی۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے ساتھ تجارتی کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کرتے ہوئے کے ذریعے ممالک کے انہوں نے کرنے کے ٹرمپ کے سکتی ہے کے خلاف ٹرمپ کی ہیں ان کی تھی
پڑھیں:
چین کے خدشات کے باعث گرین لینڈ اور پاناما کینال میں ٹرمپ کی دلچسپی جائز ہے: روبیو
ویب ڈیسک —
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گرین لینڈ کو حاصل کرنے اور پاناما کینال کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کی خواہش آرکٹک اور لاطینی امریکہ میں چینی سر گرمیوں اور اثر ورسوخ کے بارے میں بڑھتے ہوئے خدشات کے باعث ،قومی سلامتی کے جائز مفادات پر مبنی ہے۔
روبیو نے وسطی امریکہ کے ایک دورے سےقبل جو اختتام ہفتہ پاناما سے شروع ہوگا ، جمعرات کو کہا کہ وہ اس بارےمیں کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتے کہ آیا ٹرمپ اپنے منصب پر رہتے ہوئے گرین لینڈ کو ڈنمارک سے خریدنے یا پاناما کینال پر امریکی اختیار بحال کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ ٹرمپ ان دونوں مقامات کو جو توجہ دیں گے اس کا ایک اثر ہوگا۔اور دونوں میں امریکی مفادات چار برسوں میں "زیادہ محفوظ” ہوں گے۔ انہوں نے یہ بات جمعرات کو امریکی براڈ کاسٹ ادارے SiriusXM کی میزبان میگن کلی کو ایک انٹرویو میں کہی۔
روبیو نے کہا کہ، ’’میرے خیال میں آپ جس بات کا یقین کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ اب سے چار سال بعد، آرکٹک میں ہمارا مفاد زیادہ محفوظ ہو جائے گا ؛پاناما کینال میں ہمارا مفاد زیادہ محفوظ ہو گا۔”
روبیو امریکہ کے اعلیٰ ترین سفارت کار کے طور پر اپنے پہلے سرکاری غیر ملکی دورے پر ہفتے کے روز پاناما پہنچیں گے، جس سے اس اہمیت کی عکاسی ہوتی ہے جوٹرمپ اور وہ، دونوں پاناما کینال کے حصول کو دیتے ہیں ۔
اگرچہ امیگریشن، پاناما اور ان کے دورے کے دوسرے مقامات پر بات چیت کا ایک بڑا موضوع ہو گا، روبیو نے کہا کہ نہر کا مسئلہ ایک ترجیح ہے۔
انہوں نے کہا کہ نہر کے بحرالکاہل اور کیریبین دونوں سروں پر بندرگاہوں اور دوسرے انفرا اسٹرکچر پر چینی سرمایہ کاری تشویش کی ایک بڑی وجہ ہے ، جس سے پاناما اور اہم جہاز رانی کے راستے کو چین سے خطرہ لاحق ہوجائے گا ۔
"وہ پورے پاناما میں ہیں،” روبیو نے چینی کمپنیوں کے بارے میں کہا ۔ ان کمپنیوں کے بارے میں بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ وہ بیجنگ میں حکومت کی تابع ہیں اور تائیوان کے ساتھ تنازع یا امریکہ کے ساتھ کسی اور وجہ سے تعلقات میں خرابی کی صورت میں نہر تک ٹریفک کو منقطع کرنے یا محدود کرنے کے احکامات پر عمل کریں گی ۔
انہوں نے کہا کہ’’ اگر چین میں حکومت کسی تنازع میں ان سے کہتی ہے کہ وہ پاناما کینال کو بند کر دیں تو انہیں کرنا پڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ،”مجھے بالکل شک نہیں ہے کہ انہوں نے ایسا کرنے کی ہنگامی منصوبہ بندی کی ہوئی ہے جو ایک براہ راست خطرہ ہے۔”
روبیو نے مزید کہا کہ "اگر چین نےپاناما کینال میں ٹریفک میں رکاوٹ ڈالنا چاہی تو وہ ایسا کر سکتا ہے ، ” اور یہ سابق صدر جمی کارٹر کے 1977 کے معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی جس کے تحت امریکہ نے 1999 میں امریکہ کی بنائی ہوئی نہر کا کنٹرول پاناما کو سونپ دیا تھا۔
انہوں نے ٹرمپ کی اس شکایت کو بھی دہرایا کہ امریکی بحری جہازوں سے نہر استعمال کرنے کے لیے زیادہ رقم وصول کی جا رہی ہے ، اور یہ بھی معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی۔
انہوں نے کہاکہ ، "ہمیں دوسرے ملکوں سے زیادہ ادائیگی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہونا چاہئے۔ درحقیقت، ہمیں رعایت ملنی چاہیے یا شاید مفت میں، کیونکہ ہم نے اس چیز کے لیے ادائیگی کی تھی ۔‘‘
اس سے قبل جمعرات کو، پاناما کے صدر ہوزےراؤل ملینو نے کہا تھا کہ پاناما کینال کی ملکیت پر امریکہ کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہوگی اور انہیں امید ہے کہ روبیو کا دورہ اس کے بجائے امیگریشن اور منشیات کی اسمگلنگ سے نمٹنے جیسے مشترکہ مفادات پر مرکوز ہو گا۔
” جب ملینو سے نہر کو امریکی کنٹرول میں واپس کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ،’’ یہ ناممکن ہے، میں ا س پر گفت وشنید نہیں کر سکتا ،نہر پاناما کی ملکیت ہے۔‘‘
لیکن روبیو نے کہا کہ اس پر بات کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس موضوع پر بات کریں گے ۔” انہوں نے مزید کہا ، "صدر بالکل واضح ہیں کہ وہ دوبارہ نہر کا انتظام کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے، پاناما کے لوگوں کو یہ خیال زیادہ پسند نہیں ہے ۔ یہ پیغام بالکل واضح طور پر سامنے لایا گیا ہے۔”
گرین لینڈ کے بارے میں، انہوں نے کہا کہ ڈنمارک، جس کا گرین لینڈ ایک حصہ ہے، چین سے گرین لینڈ کا دفاع کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے جب کہ وہ جہاز رانی کے راستوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے آرکٹک میں موجودگی حاصل کرنا چاہتا ہے۔
اور کیوں کہ گرین لینڈ پہلے ہی ڈنمارک کے ساتھ اپنے تعلقات کے باعث نیٹو کے باہمی دفاعی معاہدے کے تحت ہے ، اس لیے امریکہ کے لیے وہاں زیادہ موجودگی اور اختیار رکھنا سمجھ میں آتا ہے۔
” روبیو نے کہا کہ میں جانتا ہوں یہ ڈنمارک کے لیے ایک نازک موضوع ہے، لیکن یہ امریکہ کے لیے قومی مفاد کا ایک موضوع ہے۔”
(اس رپورٹ کی معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)