پاکستانی سیاست میں کئی نشیب و فراز آئے مگر جس طرح شخصیت پرستی کا زہر عوام میں گھولا گیا ، فلمی محاوروں اور جعلی انقلابی نعروں کے ذریعے لوگوں کو ایسا گمراہ کیا گیا اس کے اثرات آئندہ نسلوں تک بھی محسوس کئے جاتے رہیں گے۔ ایک ایسا شخص جو جھوٹ، مکاری، دغابازی اور نااہلی میں دنیا بھر سے سند یافتہ تھا اسے میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ایک مسیحا کے طور پر پیش کیا گیا۔ اربوں روپے تشہیر پر لگا کر مصنوعی ہیرو تخلیق کیا گیا اور اس کے پیچھے ایک ایسا بیانیہ ترتیب دیا گیا جو حقیقت سے کوسوں دور تھا۔اس مہم نے پورے معاشرے کو کھوکھلا کر دیا۔ انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا۔ نوجوانوں کو بدتمیز اور باغی بنا دیا گیا انہیں وطن پرست بنانے کی بجائے شخصیت پرست بنا دیا گیا، اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا گیا، اور بڑی چالاکی سے ایک پوری نسل کو ایک ایسے بیانیے کا قیدی بنا دیا گیا جو صرف ایک فرد کے اقتدار اور خواہشات کی تکمیل کے لیے گھڑا گیا تھا۔تحریک انصاف کی سیاست کا سب سے بڑا تضاد اس کا دوہرا معیار ہے۔
امریکی سرمایہ کار اور صدر ٹرمپ کے قریبی ساتھی جینٹری بیچ کے دورہ پاکستان کے دوران انکے بیانات نے اس نعرے کی حقیقت کھول کر رکھ دی ہے۔انہوں نے انکشاف کیا کہ پی ٹی آئی ہر ماہ 20 سے 30 لاکھ ڈالر امریکہ میں لابنگ پر خرچ کر رہی ہے ۔ امریکہ میں ایک نہیں کئی کئی لابنگ فرمز کو کروڑوں روپے ماہانہ ادا کئے جا رہے ہیں۔ تیس لاکھ امریکی ڈالر پاکستانی روپے میں پچاسی کروڑ روپے بنتے ہیں۔ یہی وہ جماعت ہے جو کل تک امریکہ کو پاکستان میں سازشوں کا ذمہ دار ٹھہرا رہی تھی اور آج انہی دروازوں پر ماتھا ٹیک رہی ہے۔یہ وہی عمران خان ہیں جو کل تک امریکی مداخلت کو پاکستان کی خودمختاری کے خلاف سازش قرار دیتے تھے مگر آج انہیں اپنے سیاسی مستقبل کے لیے واشنگٹن کی مدد درکار ہے۔ کیا یہی وہ خودداری اور آزادی کا نعرہ تھا جس پر لاکھوں نوجوانوں کو ورغلایا گیا؟عمران خان کے بیانیے نے نہ صرف سیاست بلکہ معاشرتی اقدار کو بھی بگاڑ کر رکھ دیا۔ ان کے جلسوں اور سوشل میڈیا مہمات کے ذریعے نوجوانوں کو ایک ایسا رویہ اپنانے کی ترغیب دی گئی جو اسلامی اخلاقیات کے سراسر منافی تھا۔ بڑوں کی عزت ختم کر دی گئی، سیاسی مخالفین کے لیے نازیبا زبان کو عام کر دیا گیا اور اختلافِ رائے کو غداری بنا دیا گیا۔یہی نہیں بلکہ مذہب کو بھی اپنی سیاست کے لیے استعمال کیا گیا۔ کبھی خود کو ریاستِ مدینہ کا داعی کہا، کبھی سیاست کے لیے قرآنی آیات کا سہارا لیا اور کبھی مذہبی جذبات بھڑکانے کے لیے جھوٹے خواب اور کہانیاں گھڑیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب جو اتحاد اور اخلاقیات کی بنیاد ہونا چاہیے تھا اسے سیاست کے لیے ایک ہتھیار بنا دیا گیا۔
پاکستانی عوام خاص طور پر وہ لوگ جو شوکت خانم ہسپتال اور تحریک انصاف کو چندہ دیتے ہیں، انہیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ان کے عطیات کہاں خرچ ہو رہے ہیں؟ اگر پی ٹی آئی ہر ماہ کروڑوں روپے امریکی لابنگ پر خرچ کر سکتی ہے تو یہ پیسہ کہاں سے آ رہا ہے؟ کیا یہ وہی چندہ ہے جو عوام نے ایک فلاحی مقصد کے لیے دیا تھا؟ کیا یہ وہی پیسہ ہے جو نیک نیتی سے کسی اچھے کام کے لیے دیا گیا تھا مگر اسے سیاسی مفادات، مہنگے وکیلوں، اور بیرون ملک پروپیگنڈے پر لٹا دیا گیا؟
جینٹری بیچ نے بتایا کہ رچرڈ گرنیل کو اس بات کی یقینا تصدیق ہو چکی ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے انہیں دی جانے والی بریفنگز اور ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا استعمال سراسر جھوٹ پر مبنی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ گرنیل نے اپنے پرانے ٹویٹس کو حذف کر دیا ہے۔ یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ پی ٹی آئی نے امریکی حکام کو گمراہ کرنے کے لیے جان بوجھ کر جھوٹی معلومات فراہم کیں جن کی حقیقت وقت کے ساتھ پوری دنیا کے سامنے آ گئی۔ کسی بھی ملک میں تبدیلی صرف نعروں سے نہیں آتی بلکہ شعور، حقائق اور سچائی کی بنیاد پر فیصلے کرنے سے آتی ہے۔ عمران خان کی سیاست نے یہ سبق دیا ہے کہ صرف جذباتی نعروں کے پیچھے چلنے سے قومیں ترقی نہیں کرتیں۔ فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے کہ کیا وہ دوبارہ کسی نئے نجات دہندہ” کے جھوٹے نعروں کا شکار ہوں گے یا حقیقی تبدیلی کے لیے درست سمت اختیار کریں گے؟
پی ٹی آئی کے سپوکس پرسن رئوف حسن بھی اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ ان کی جماعت کے لوگوں نے عمران خان کی رہائی کے لئے امریکی حکام سے ملاقاتیں کیں، جن میں صدر ٹرمپ سے ملاقات بھی شامل ہے۔ جینٹری بیچ اور روف حسن کی سچی باتوں نے عمران خان کی منافقانہ سیاست کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔یہی وہ پارٹی ہے جو کل تک امریکہ کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا ذمہ دار ٹھہرا رہی تھی اور “غلامی نامنظور” کے نعرے لگا رہی تھی۔یہ ایک حیران کن تضاد ہے ایک طرف عوام کے سامنے امریکہ مخالف بیانیہ اور دوسری طرف واشنگٹن کے ایوانوں میں حمایت کے لیے ترلے منتیں۔ تحریک انصاف آج اس مقام پر کھڑی ہے جہاں اس کا اپنا ہی بیانیہ اس کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔
عوام کی بڑی تعداد جو کبھی ان کے بیانیے پر یقین رکھتی تھی اب خود سوالات اٹھا رہی ہے۔ کیا یہی وہ جماعت تھی جو خود کو ایک انقلابی اور خودمختار پاکستان کی علمبردار کہتی تھی؟ اب تو کیا ہم غلام ہیں کے نعرے کو لے کر یہی کہنا بنتا ہے کہ ۔۔۔ ہاں تم غلام ہو ! بلکہ غلام ابن غلام !
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بنا دیا گیا پی ٹی آئی کیا گیا کیا یہ کے لیے
پڑھیں:
ملک میں نوجوان مایوس اور موروثی سیاست پروان چڑھ رہی ہے: حافظ نعیم الرحمان
گجرات : امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ ملک میں نوجوان مایوس اور موروثی سیاست پروان چڑھ رہی ہے۔
حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کلیم کرنیوالی سیاسی جماعتوں میں خود جمہوریت نہیں ہے۔یہ بات انہوں نےگجرات میں 72 ویں اسلامی جمعیت طلبہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
ان کا کہناتھا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں وراثت ہی پروان چڑھ رہی ہے، خاندان کے خاندان سیاست پر براجمان ہونے سے ملک میں جمہوریت مضبوط نہیں ہوئی، جمہوریت کا راگ الاپنے والےسیاستدان برسر اقتدار آکر آمریت قائم کررہے ہیں۔
امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ اسلامی جمعیت طلبا نے جمہوریت کو فروغ دے رکھا ہے، بدقسمتی سے طاقتور ملک میں طاقتور بن کر سب کچھ ہڑپ کرنے کو ترجیح دیتا ہے، 25 کروڑ لوگوں کا ملک آج مایوسی کا شکار ہو چکا ہے۔
حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ ٹرمپ کا حماس کے حمایتیوں کو باہر نکالنے سے ثابت ہو رہا ہے کہ ٹرمپ کہیں بھی پیدا ہوسکتے ہیں، پاکستان کے نوجوانوں کے مستقبل کو اندھیروں سے نکال کر روشن کرنےکی ضرورت ہے، پاکستان میں تہذیب،اقدار کا بحران ہے جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام کا نظام تعلیم، صحت،عدل انصاف،روزگار دے کر ظالموں کو پکڑ سکتا ہے، تعلیم پاکستان کے آئین کے مطابق ریاست کی ذمہ داری ہے، ریاست پاکستان میں دو کروڑ بچے آج بھی سکول نہیں جا رہے، ریاست کی غفلت کی وجہ سے یہ بچے مافیا، کریمنل کے ہتھے چڑھ سکتے ہیں۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ریاست نوجوانوں کے حوالے سے کہیں بھی اپنی ذمہ داری پوری کرتی دکھائی نہیں دے رہی، پاکستان کا نظام عدل لوگوں کو انصاف فراہم نہیں کر رہا، ملک میں اس وقت مایوسیاں ہی مایوسیاں ہیں۔
حافظ نعیم الرحمان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں نوجوانوں کو منظم طریقے سے مایوس کیا جا رہا ہے، امیر طبقے پر ٹیکس لگانا اورعام لوگوں کوریلیف دینا ہو گا۔