اسلام آباد کے نئے سیکٹرز میں پلاٹوں کی خریداری: اوورسیز پاکستانیوں کا ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی سے استثنیٰ کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
اوورسیز پاکستانیوں نے وفاقی دارالحکومت کے نئے سیکٹرز میں پلاٹوں کی پہلی خریداری پر ودہولڈنگ ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) کی چھوٹ اور پاکستانی روپے میں ادائیگی کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
ٹیکس ماہرین نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ خاص طور پر سی ڈی اے سیکٹر سی-14 کی قرعہ اندازی میں کامیاب ہونے والے اوورسیز پاکستانیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ جلد متوقع رئیل اسٹیٹ اور ہاؤسنگ سیکٹر کے ترقیاتی پیکیج میں اوورسیز پاکستانیوں کو ودہولڈنگ ٹیکس سے استثنیٰ دیا جائے اور انہیں امریکی ڈالر کے بجائے پاکستانی روپے میں ادائیگی کی سہولت فراہم کی جائے۔
سی ڈی اے ذرائع کے مطابق، الاٹیز کی جانب سے امریکی ڈالر میں ادائیگی نہیں کی جا رہی اور سی ڈی اے کو پاکستانی روپے میں ادائیگی کی درخواستیں موصول ہو رہی ہیں، جبکہ اس حوالے سے ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا گیا ہے۔
سی ڈی اے نے حالیہ دنوں میں اپنے سیکٹر سی-14 کی قرعہ اندازی کی تھی، جس میں اوورسیز پاکستانیوں کو ترجیح دی گئی۔ کامیاب اوورسیز پاکستانیوں کو جاری کیے گئے اطلاع نامے کے مطابق، ادائیگی صرف امریکی ڈالر میں اور بیرون ملک سے بینکنگ چینل کے ذریعے 15 جنوری 2025 کے اطلاع نامے کے 30 دن کے اندر کرنا لازمی ہے۔
دوسری جانب، ان دنوں وفاقی حکومت نے رئیل اسٹیٹ اور ہاؤسنگ سیکٹر کی ترقی کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جو اس حوالے سے سفارشات پیش کرے گی۔ وزیر اعظم 3 فروری کو ایک اجلاس کی صدارت کریں گے جس میں 40 سے زائد سفارشات کا جائزہ لیا جائے گا۔
ٹیکس ماہر شاہد جامی کے مطابق، پاکستان میں جائیداد خریدنے والے افراد کو صوبائی ٹیکسوں اور اسٹامپ ڈیوٹی کے علاوہ 4 فیصد ودہولڈنگ انکم ٹیکس بھی ادا کرنا پڑتا ہے، جس کے ساتھ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بھی لاگو ہوتی ہے۔ اگرچہ انکم ٹیکس ایڈجسٹ ہو سکتا ہے، لیکن چونکہ اوورسیز پاکستانیوں کی زیادہ تر آمدنی پاکستان میں قابل ٹیکس نہیں ہوتی، اس لیے ان سے لیا گیا ٹیکس قابل واپسی تو ہوتا ہے مگر ریفنڈ لینا ایک مشکل ترین عمل ہے، حتیٰ کہ مقامی شہریوں کے لیے بھی۔
شاہد جامی کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں پہلی بار جائیداد خریدنے والوں کو ٹیکس چھوٹ دی جاتی ہے، جبکہ پاکستان میں ایسا کوئی نظام موجود نہیں، حالانکہ عام طور پر خریدار پہلے پلاٹ خرید کر پھر اپنی آمدنی سے مکان تعمیر کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اوورسیز پاکستانی باقاعدگی سے ملک میں ترسیلات زر بھیجتے ہیں اور ان کے پاس بیرون ملک اتنے زیادہ لیکوئیڈ فنڈز دستیاب نہیں ہوتے کہ وہ امریکی ڈالر میں ادائیگی کر سکیں، خاص طور پر بینکنگ چینل کے ذریعے ادائیگی کرنے سے اضافی 2 فیصد تک بینکنگ چارجز بھی لاگو ہوتے ہیں۔
شاہد جامی نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اوورسیز پاکستانیوں کو عملی مراعات فراہم کریں، ورنہ محض ترجیح دینا بے معنی ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اوورسیز فاؤنڈیشن آف پاکستان اب تک اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے، اس لیے ڈی ایچ اے کی طرز پر ایک الگ اوورسیز ہاؤسنگ اتھارٹی قائم کی جانی چاہیے جو اوورسیز پاکستانی ورکنگ کلاس کے لیے زمین حاصل کرکے ہاؤسنگ اسکیمیں تیار کرے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اوورسیز پاکستانی میں ادائیگی امریکی ڈالر سی ڈی اے
پڑھیں:
نوکری پیشہ افراد پر ٹیکس کم کیا جائے، مفتاح اسماعیل کا مطالبہ
لاڑکانہ:عوام پاکستان پارٹی کے سیکرٹری جنرل مفتاح اسماعیل پریس کانفرنس کررہے ہیںاسلام آباد: سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ اس وقت نوکری پیشہ افراد کی مدد کرنا ضروری ہے کیونکہ پاکستان میں تنخواہ دار طبقے پر 40 فیصد ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے جبکہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو ٹیکس میں چھوٹ دی جا رہی ہے جو غیر منصفانہ اور بلاجواز ہے۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ حکومت کے ٹیکس سے متعلق فیصلوں پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو بھی اعتراض ہوگا، جن افراد کی ماہانہ آمدن 1 لاکھ روپے ہے، ان پر ٹیکس دگنا کر دیا گیا ہے، جو کہ غیر مناسب ہے۔
مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ٹیکس کا بوجھ دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے، اگر 2 لاکھ روپے ماہانہ کمانے والے سے 38 فیصد ٹیکس وصول کیا جائے تو وہ اپنا گھر کیسے بنا سکے گا؟
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ بڑے پراپرٹی ڈیلرز کو دی گئی ٹیکس چھوٹ ختم کی جائے اور نوکری پیشہ افراد پر ٹیکس کی شرح کم کی جائے، کنسٹرکشن انڈسٹری کو چلنے دینا چاہیے، اور یہ کوشش ہونی چاہیے کہ پلاٹس کی قیمت کم ہو، کیونکہ مہنگائی کی وجہ سے عام آدمی کے لیے اپنا گھر خریدنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔
مفتاح اسماعیل نے مزید کہا کہ ملک میں 10 کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، اس لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔
انہوں نے تجویز دی کہ نجکاری کے عمل کو تیز کیا جائے اور غیر ضروری وزارتوں کو بند کیا جائے، جیسا کہ پہلے بھی مشورہ دیا گیا تھا، مگر اس پر عمل نہیں کیا گیا۔