کراچی بندرگاہیں، اربوں کی اراضی پر قبضہ، KPT کے 1448 اور پورٹ قاسم کے 30 ایکڑ پر تجاوزات، سندھ حکومت سیاستدان و دیگر ملوث
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کی اربوں روپے مالیت کی تقریباً ایک تہائی اراضی یعنی 1448؍ ایکڑ پر تجاوزات ہیں جبکہ پورٹ قاسم اتھارٹی کی 30؍ ایکڑ زمین پر غیر قانونی قبضہ ہے۔
غیر قانونی قبضہ شدہ زمین پر حکمران سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے بعض سیاست دانوں کی مبینہ آشیرباد سے تجاوزات قائم ہیں، جبکہ وفاق کی تقریباً 350؍ ایکڑ اراضی پر سندھ حکومت قابض ہے۔
وزارت دفاع کے ذرائع کے مطابق ملک کے میری ٹائم سیکٹر کی اصلاح کے پروجیکٹ کے حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف کو جو معلومات فراہم کی گئی ہیں اس کے مطابق، ساحلی پٹی سے جڑی انتہائی مہنگی زمینیں تجاوزات اور تباہ حالی کا شکار ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہاں کوئی معاشی سرگرمی نہیں ہو رہی۔
وزیر اعظم کی طرف سے منظور شدہ از سر نو بحالی (ری ویمپنگ) پلان میں سندھ رینجرز اور کچھ دیگر حکام سے کہا گیا ہے کہ وہ وفاق کی ملکیت زمین کو بندرگاہوں کے کاروباری مقاصد کے استعمال میں لانے کیلئے واگزار کرائیں تاکہ ہائی رائز پورٹ آپریشنز (اسٹوریج / گودام بنانے / توسیعی مقاصد) کیلئے یا پھر ساحلی پٹی کو کاروباری یا تجارتی مرکز بنانے جیسے منصوبہ جات شروع کیے جا سکیں۔
زمین کی ملکیت کے حوالے سے کچھ ایسے تنازعات بھی ہیں جو تفصیہ طلب ہیں۔ انکروچمنٹ کی وجہ سے، کراچی پورٹ ٹرسٹ کی اراضی کسٹمز کی جانب سے ضبط کیے جانے والے کنٹینروں کی وجہ سے تنگ پڑ چکی ہے۔ ان ضبط شدہ کنٹینروں کو بھی ٹھکانے لگایا جانا ہے۔
وزارت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کے پی ٹی کی کل اراضی تقریباً 8644؍ ایکڑ ہے اور اس کے تقریباً 1098؍ ایکڑ پر تجاوزات ہیں۔ ان تجاوزات کی مختلف اقسام ہیں جن میں اول) عارضی چھپڑا ہوٹل اور دکانیں، کیبن، تھلے، عارضی مویشی فارمز، غیر قانونی پارکنگ، دوم) مستقل پرانے و نئے مکانات، دکانیں، مسجد، مدارس اور گودام شامل ہیں جبکہ سوم) جو زمین لیز یا پر دی گئی ہے یا الاٹ کی گئی ہے اس پر توسیع کرتے ہوئے غیر قانونی تعمیرات کی گئی ہیں۔ کلفٹن میں کے پی ٹی کی 350 ایکڑ اراضی پر سندھ حکومت کی جانب سے تجاوزات قائم ہیں۔ کے پی ٹی میں کچی آبادی (رہائشی علاقہ) تجاوزات کے لحاظ سے ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔
ذرائع کہتے ہیں کہ 1993ء میں اُس وقت کے وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق بابا جزیرے اور کاکا پیر کی زمین مخصوص رہائشی مقاصد کی خاطر الاٹ کی گئی تھی اور اس کے بعد سے سندھ حکومت نے غیر قانونی سندیں جاری کرکے مداخلت شروع کر دی ہے۔
جزیرہ اور کاکا پیر کی مخصوص زمین رہائشی مقاصد کے لیے الاٹ کی گئی تھی اور اس کے بعد سے حکومت سندھ نے مجاز اتھارٹی یعنی کراچی پورٹ ٹرسٹ سے پیشگی اجازت لیے بغیر قانونی سندیں (ڈپٹی کمشنرز کی جاری کردہ سرکاری دستاویزات) جاری کرکے مداخلت شروع کر رکھی ہے۔ تقریباً 1098؍ ایکڑ پر قبضہ شدہ اراضی پر کئی دوسری کچی آبادیاں قائم کی گئی ہیں مثلاً سلطان آباد، مچھر کالونی، صالح آباد، ہجرت کالونی، یونس آباد، این ٹی آر کالونی، ڈاک کالونی، مجید کالونی وغیرہ۔ زمین واگزار کرانے کیلئے کے پی ٹی نے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن (322/2011) دائر کر رکھی ہے۔ لیکن کہا یہ جاتا ہے یہ زمین پر قابض افراد اور تجاوزات کیخلاف سندھ پولیس تعاون نہیں کر رہی اور کچھ دیگر ایسے قانونی معاملات بھی ہیں جن کی وجہ سے پورٹس کی سرکاری اراضی واگزار کرانے کی کوششیں سوُد مند ثابت نہیں ہو رہیں۔
کہا جاتا ہے کہ کراچی پورٹ کیلئے پورٹ سیکیورٹی فورس آرڈیننس 2002ء میں منظور ہوا تھا جس میں مخصوص فرائض اور اختیارات کے حامل دو مجسٹریٹس کی تقرری کی دفعات تھیں۔
ذرائع کے مطابق، آرڈیننس کے سیکشن 14(2)(a) کے تحت ہاربر ایریاز کے احاطے میں ہونے والے جرائم کیلئے ایک مجسٹریٹ اور جبکہ اسی آرڈیننس کے سیکشن 14(2)(b) کے تحت دوسرا مجسٹریٹ بندرگاہ کے علاقہ جات بشمول تجاوزات وغیرہ کے معاملات دیکھنے کیلئے مقرر کیا جانا تھا لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ پورٹ حکام نے آج تک ایک بھی مجسٹریٹ مقرر نہیں کیا۔
پورٹ قاسم اتھارٹی کے معاملے میں دیکھیں تو جس اراضی پر تجاوزات قائم کیے گئے ہیں اس کا رقبہ 30؍ ایکڑ ہے۔ پورٹ قاسم اتھارٹی کا مجموعی رقبہ 13؍ ہزار 770؍ ایکڑ ہے۔ جن علاقوں پر تجاوزات قائم ہیں وہاں 7.
دریں اثناء اس حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ فوری طور پر سندھ حکومت اور کے پی ٹی کے درمیان زمین کے تنازع کے حوالے سے آگاہ نہیں ہیں، لہٰذا ان کیلئے فوری طور پر خصوصاً چھٹی کے دن کوئی وضاحتی بیان جاری کرنا ممکن نہیں۔
انصار عباسی
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: تجاوزات قائم کراچی پورٹ سندھ حکومت پر تجاوزات پورٹ قاسم کے مطابق حوالے سے کے پی ٹی ایکڑ پر کی گئی
پڑھیں:
حکومتی نا اہلی اور کرپشن کے فو ر منصوبہ 20 برس بعد بھی مکمل نہ ہوسکا!
کراچی (رپورٹ /واجد حسین انصاری)تین کروڑ کی آبادی پر مشتمل،ملک کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز کراچی کے لیے 20سال قبل سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ مرحوم کے دور میں بنایاگیا کے فورپانی کا منصوبہ حکومتی نااہلی اور کرپشن کے باعث آج تک مکمل نہ ہوسکا۔اس منصوبے پر سندھ حکومت
کے ساتھ وفاقی حکومت نے بھی صرف زبانی دعوں پر ہی اکتفا کیا جس کے باعث صورتِ حال مزید گھمبیر ہوچکی ہے جب کہ منصوبے کی قیمت میں اربوں روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔کے فور منصوبے کی عدم تکمیل کے باعث شہر قائد میں پانی کامزید بحران پید ا کرکے ہائیڈرنٹ اور پانی کے کاروبار سے منسلک مافیاز کو فائدہ پہنچایا جارہا ہے،جس کا بہت بڑا حصہ حکومتی اداروں اور انتظامیہ میں موجود کالی بھیڑوں کوباقاعدگی سے پہنچایا جاتا ہے۔ اگرقلتِ آب پر قابو نہ پایا گیا اور اس منصوبے کوجلد مکمل نہیں کیا گیا نہ صرف ا س سے امن و امان کی صورتِ حال خراب ہوسکتی ہے بلکہ پانی پر فسادات بھی ہوسکتے ہیں۔سندھ اسمبلی کے اپوزیشن ارکان کا کہنا ہے کہ منصوبے کی تکمیل کے حوالے سے حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آگمینٹیشن پلان کے لیے اس بجٹ میں کوئی رقم مختص نہیں کی گئی ہے۔ان ارکان نے سندھ حکومت کی جانب سے دسمبر 2025ء میں منصوبے کی تکمیل کے اعلان کو بھی ڈھونگ قرار دے دیا ہے۔تفصیلات کے مطابق تین کروڑ کی آبادی پر مشتمل،ملک کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز کراچی کی پانی کی ضروریات بڑھتی آبادی کے ساتھ ساتھ پوری کرنے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومت کا مشترکہ گریٹر کراچی واٹر سپلائی اسکیم کے فورپراجیکٹ دو عشرے قبل سابق ناظم کراچی نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ کے دور میں بنایا گیا تھا لیکن حکومتی لیت و لعل کے باعث یہ منصوبہ مسلسل تعطل کا شکار چلا آرہا ہے۔ذرائع کے مطابق اس منصوبے کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد کے لیے ڈیزائن کا کنٹریکٹ ‘عثمانی اینڈ’ کو نامی کمپنی کو دیا گیا تھا جس کی منظوری کے بعد 2016ء میں سندھ حکومت نے اہم نوعیت کا منصوبہ ہونے کی وجہ سے قواعد میں نرمی کی اور فوج کے انجینئرنگ کے شعبے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او)کو منصوبے کا ٹھیکہ دیا۔ایف ڈبلیو او نے منصوبے پر 2016ء میں کام بھی شروع کیا تھا اور امید کی گئی تھی کہ اب منصوبے کا پہلا مرحلہ نومبر 2019ء تک مکمل ہوگا البتہ نیشنل انجینئرنگ اینڈ سائنٹیفک کمیشن (نیسکام)نے اس منصوبے کے ڈیزائن میں خامیوں کی نشاندہی کی جس کے بعد اس میں متعدد تبدیلیاں ہوئیں اور پھر اس کے ساتھ لاگت میں اضافے کی وجہ سے منصوبہ نامکمل ہی رہا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ منصوبے میں سندھ حکومت کی جانب سے غیر معمولی تاخیر کی گئی۔منصوبے کے لیے مختص کی گئی زمین جہاں سے اس کا راستہ گزرنا تھا وہی زمینیں انرجی کوریڈور کے تحت ونڈ انرجی پراجیکٹس کے لیے بھی الاٹ کی گئیں جس کی وجہ سے تیزی سے کام میں رکاوٹ ااتی رہی اور اس پر یہ پروپیگنڈ کیا گیا کہ منصوبے کا ڈیزائن تبدیل کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ذرائع نے مزید بتایا کہ منصوبے کا ڈیزائن تبدیل کرنے سے اس کی قیمت بڑھی، منصوبہ میں مزید تاخیر ہوئی اور جن لوگوں کی زمینیں اس منصوبے کی زد میں آئیں، ان سے مال دار اور اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں نے اونے پونے داموں زمینیں خرید لی تاکہ حکومت کو مہنگے داموں فروخت کی جاسکیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی کو اس وقت ایک ارب 10 کروڑ گیلن یومیہ پانی کی ضرورت ہے مگر فی الوقت ضرورت کا محض 45 فیصد پانی شہر کو فراہم کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے شہری زیرِ زمین پانی کا استعمال کرنے پر مجبور ہیں جو کھارا اور نمکین ہے۔کے فور منصوبے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سندھ اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر محمد فاروق فرحان نے کہاکہ 20 سال گزر جانے کے باوجود کراچی کے پانی کا منصوبہ کے فور مکمل نہ ہونے کی ذمے دار وفاقی اور صوبائی حکومت ہے۔ کراچی کے ساتھ ہونے والے ظلم میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم شریک جرم ہیں۔انہوںنے کہا کہ حکومت سندھ کہتی ہے کہ دسمبر 2025ء میں کے فور منصوبہ مکمل ہو جائے گا لیکن ان کے پاس عوام کو ریلیف دینے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔کے فور کے آگمینٹیشن پلان کے لیے اس بجٹ میں کوئی رقم مختص نہیں کی گئی۔سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر شبیر قریشی نے کراچی کے پانی کے منصوبے K4 کے حوالے سے نمائندہ جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 20 سال پرانا یہ منصوبہ حکومت کی نااہلی اور کرپشن کے باعث تاحال مکمل نہ ہوسکا،آج بھی کراچی کے عوام پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔K4 کی تکمیل کے حوالے سے حکومت کی نیت ٹھیک نہیں، اس کی توجہ عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے لوٹ مار میں مصروف ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کراچی کے عوام کے ساتھ کھیل رہی ہے اس حکومت مین مال بنانے کی صلاحیت تو موجود ہے لیکن عوام کے مسائل حل کرنے کی اہلیت نہیں۔شبیر قریشی نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کا یہ دعویٰ کہ K4 منصوبہ رواں سال دسمبر2025ء تک مکمل ہوجائے گا یہ صرف دعویٰ ہی رہے گا۔ پیپلزپارٹی کے وعدوں اور دعووں پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہے یہ صرف عوام کوطفل تسلیاں ہی دیتے رہیں گے،اس حکومت نے ہرسطح پر مایوس کیا ہے۔دوسری جانب شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک کو 65فیصد ریونیو کما کر دینے والے شہر قائد کے باسیوں کو پانی جیسی بنیادی سہولت تک سے محروم کردیا گیا ہے جب کہ عوام اپنے ہی حصے کا پانی منہ مانگے داموں پر خریدنے پر مجبور ہیں۔ان حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے پانی جیسی بنیادی سہولت کی فراہمی کے لیے K-4جیسا اہم منصوبہ متعارف کرایاگیا تھا جس کو 2011ء میں تکمیل پزیر ہونا تھا لیکن حکومتوں کی ذاتی جپقلش اور مافیاز کی جانب سے ایسے اہم اور عظیم منصوبے کو سازش کے تحت تعطل کا شکا ر بنایا گیا ہے۔