Nai Baat:
2025-02-03@07:06:34 GMT

شفقت چیمہ …خدا تجھے اپنے حفظ وامان میں رکھے

اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT

شفقت چیمہ …خدا تجھے اپنے حفظ وامان میں رکھے

ایک دور تھا جب پاکستان فلم انڈسٹری کا طوطی بولتا تھا پہلے اردو فلموں کا دور آیا جب محمدعلی، وحیدمراد ،درپن ،سنتوش کمار، رنگیلا ، لہری، ندیم ، شاہد ، یوسف خان جبکہ اداکاراؤں میں صبیحہ خانم، شمیم آرائ، فردوس، یاسمین، بابرہ شریف، نیلی، مسرت نذیر اور بہت سے نام جو طویل عرصہ تک چھائے رہے اس کے بعد پنجابی فلموں کا دور آیا تو ہمارے سامنے سلطان راہی، مصطفی قریشی اردو فلموں کے وحید مراد، ندیم ، شان، ننھا، اعجاز درانی جیسے بڑے نام جبکہ اداکاراؤں میں انجمن ، گوری، آسیہ، نیناں، نادرہ، صائمہ، فردوس، رانی یہاں بھی بڑے نام پردہ سکرین پر بڑے عرصہ تک حکمرانی کرتے نظر آئے اردو اور پنجابی فلموں کے دونوں ادوار میں پاکستانی ولن کو جو شہرت ملی شاید ہی کسی اور اداکاروں کا مقدر بنی ہو اگر ذکر کروں مظہر شاہ، اسد بخاری ، ساون، الیاس کاشمیری، ظاہر شاہ، ادیب ، افضال احمد، ہمایوں قریشی ، طالش، اسلم پرویز، نیر اعجاز، علاؤ الدین ، اکمل، محبوب عالم کا یہ ایسے ولن تھے جن کے بغیر فلم بکی نہیں تھی جب فلمی ادوار کی بات چلی ہے تو بہت کچھ کیے اور لکھنے کو دل کرتا ہے۔

گزشتہ دوتین ماہ سے پاکستان کے ایک بہت بڑے اداکار ولن شفقت چیمہ کے بیمار ہونے کے بارے میں بہت سی خبریں گردش میں ہیں برین ہمیرج سے نمونیہ تک کا کہا جارہا ہے جبکہ ان کے خاندانی ذرائع بتارہے ہیں کہ وہ بیمار ضرور ہیں اور ان کیلئے دعا کی اپیل ہے شفقت چیمہ کا شمار پاکستان کے ان نامور اداکاراؤں میں ہوتا ہے جن کا ذکر میں نے کالم کے آغاز میں کیا اگر ان کی زندگی کے پرتوں کو دیکھوں تو وہاں مجھے دو پرت دکھائی دیتے ہیں ایک پرت میں وہ ایک بہت بڑے عالم دین کے فرزند ہونے کے ناتے انہوں نے سب سے پہلے حفظ قرآن کیا پھر وہ بطور قاری اپنے والد کے ساتھ محفلوں میں رونق بنتے رہے لاہوری ہونے کے ناتے جامعہ نعیمیہ سے انہوں نے اسلامی تعلیم مکمل کی اسلامک ویژن ان کا جذبہ ایمان تھا ، ان کا دوسرا پرت بہت حیران کن ہے کہ کہاں عالم دین کے گھرمیں جنم لینے والا ایک بچہ قرآن پاک میں حفظ کرتا ہے بہت اچھا قاری اور نعت خوان بن کر پھر پورآواز میں بڑے ردھم میں جب نعت گوئی کرتا ہے تو محفل نور کو چار چاند لگادیتا ہے اور وہی بچہ اچانک ایک ایسے درپہنچ جاتا ہے جہاں رنگینیاں ہی رنگینیاں، روشنیاں ہی روشنیاں ہیں جہاں فلمی ماحول کے شب وروز میں وہاں اس عالم دین کے حافظ قرآن بچے کا اچانک ذہن بدل جاتا ہے اور فیصلہ کر بیٹھتا ہے کہ وہ فلم انڈسٹری کا حصہ بنے گا پھر شفقت چیمہ سلطان راہی کا لڑپکڑ کر بارہ سال تک مختلف فلموں میں چھوٹے چھوٹے رول ادا کرتے اداکاری کا لیبل لگوا لیتا ہے ایک کہاوت ہے کہ ایک وقت میں روڑی کی بھی سنی جاتی ہے یہ وہ دور تھا جب مصطفی قریشی اور سلطان راہی فلم انڈسٹری میں یوں چھائے ہوتے تھے اور دونوں بھرپور راج کررہے تھے گوان دونوں سے قبل بہت سے بڑے ولن آئے جن کا میں نے اوپر ذکر کیا مگر جو شہرت ان دونوں کو ملی اس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا اس دوران ایک فلم کالکا بنتی ہے جس میں پہلی بار شفقت چیمہ کو سلطان راہی کے مقابلے میں ولن کا کردار ملتا ہے اور سامنے ہے اس دور کی خوبرو اور جٹی اداکارہ انجمن یہ بات ہے 1989ء کی جب کالکا پٹ ہوتی ہے تو شفقت چیمہ کی قسمت بھی جاگ جاتی ہے اور پھر وہ رکا نہیں اسی دوران ایک سانحہ ہو جاتا ہے وہ تھا سلطان راہی کا قتل اس قتل سے پہلے کالکا کا ولن اپنی جگہ بنا چکا تھا۔ جیسے ہی سلطان راہی کی جگہ بنتی ہے تو شفقت چیمہ کو کئی فلمیں مل جاتی ہیں ان میں گارڈ فادر، غنڈہ راج، منڈا بگڑاجائے، چوڑیاں، مجاجن، بول ،رانگ نمبر، مولا جٹ جو پاکستان کی سب سے بڑی فلم تھی اس میں راہی کے ساتھ شفقت چیمہ کو بھی بڑا رول ملا تھا سلطان راہی کی مصطفی قریشی کے ساتھ جوڑی ٹوٹ گئی اس کے ساتھ ہی مصطفی قریشی کا زوال شروع ہوگیا ادھر شفقت کے ساتھ شان اور معمر رانا کی جوڑی بنتی گئی اور پھر ایک وقت میں یہ بھی آیا جب فلم کے نقادوں نے شفقت چیمہ کو سلطان راہی کا متبادل قراردے دیا۔

بڑی تیزی کے ساتھ وہ اٹھا اور سب کو نگلتا پاکستان کی فلم انڈسٹری کا سپرسٹار بن چکا تھا اس کی ہیروینوں میں انجمن ، نادرہ اور سب سے زیادہ کام صائمہ نے کیا بطور ہیرو شان اور شفقت رانا کی جوڑی نے سلطان راہی اور مصطفی قریشی کے دور کی یادتازہ کردی اس دوران پاکستان کی فلم انڈسٹری زوال پذیر ہوتے ہوتے بندشوں کی طرف چلی گئی ۔ میں بات کررہا تھا شفقت چیمہ کے دوپرتوں کی جس میں اس کی شخصیت کے ایک نہیں کئی پہلو سامنے آئے ایک حافظ قرآن اور دوسرا اس کی فلم انڈسٹری میں بطور ولن اتنے بڑے کام کرجانا کہ بھارت کی فلم نگری والوں نے اس کو پاکستانی امریش پوری کا خطاب دے ڈالا وہ تین عشروں کاولن رہا اور اس نے اپنے قد کے مطابق فلم انڈسٹری کو جو قددیا اس کی مثال شاید ہی کسی اور اداکار کے نام کے حوالے سے دی جائے گی۔
اور آخری بات …
خداتعالیٰ دوپرتوںکے کھلاڑی شفقت چیمہ کی عمردراز کرے وہ کل بھی ہیرو تھاآج بھی ہیرو ہے اور کل بھی اس ہیرو کا ہے اس ہیرو کیلئے پوری قوم سے دعا کی اپیل ہے ۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: شفقت چیمہ کو فلم انڈسٹری مصطفی قریشی سلطان راہی کے ساتھ ہے اور کی فلم

پڑھیں:

کیا صحیح کیا غلط

سندھ میں چینی شہریوں کی حفاظتی تدابیر کارگر ہیں یا نہیں لیکن سندھ ہائی کورٹ میں ان کی جانب سے درخواست وہ بھی پولیس کے حوالے سے حیران کن ہے۔ غیر ملکیوں کے لیے قوانین و ضوابط ملکی باشندوں کے حوالے سے زیادہ حساس اور کچھ الجھے بھی ہوتے ہیں لیکن یوں براہ راست خود سے انصاف کے لیے اعلیٰ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا خبروں کو گرما گیا۔

 پاکستان میں سی پیک کے حوالے سے دنیا بھر میں خاص کر مخالفین ملک میں چین اور پاکستان کو بگاڑنے اور اس اہم منصوبے میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے جی جان سے کوشش کی جاتی رہی ہے۔

اب چاہے وہ چینی باشندوں کی ٹارگٹ کلنگ ہو یا پرتشدد کارروائی، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس منصوبے کو اعتماد بخشنے کے لیے مل کرکام کرنا چاہیے تھا کہ اس سے فائدہ ہمیں ہی حاصل ہونا ہے پر ایسا ہوا نہیں، یہاں تک کہ پچھلے سال بھی پرتشدد کارروائی ہوگئی۔ کون کیسے آیا، کب آیا اورکہاں جائے گا ساری معلومات سے دہشت گرد بخوبی واقف تھے اور وہ کرگزرے۔ 

یوں چین کی جانب سے اپنے شہریوں کی جانی اور مالی حفاظت کے لیے سوال ابھرے اور چین اپنے شہریوں کی سیکیورٹی کو بھرپور بنانے اور پریقین رکھنے کے لیے اڑ گیا۔ پاکستان کے لیے یہ صورت حال خاصی تشویشناک تھی ایسے ماحول میں جب کہ پاکستان کی اندرونی حالت سیاسی اور غیر سیاسی حوالے سے غیر مستحکم ہے ایسے میں غیر ملکیوں کی سیکیورٹی وہ بھی فول پروف کے ساتھ خاصا دشوار تھا۔

ایک طویل عرصے سے بلوچستان کی جانب سے چینی شہریوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں شک کی نظروں سے دیکھی جا رہی تھیں، سرکاری طور پر تو خاموشی رہتی ہی ہے لیکن غیر سرکاری طور پر اس کی ناپسندیدگی کا ٹھوس ثبوت ان پر ہونے والی چھوٹی موٹی جھڑپوں اورکارروائیوں سے ظاہر ہو ہی جاتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ تو اس کا جواب سب جانتے ہیں کہ اس طرح بلوچ قوم میں مایوسی اور ناکامی کی لہر دوڑ رہی ہے، ان کے خیال میں سی پیک منصوبہ روایتی بلوچ کو پیچھے کی جانب دھکیل دے گا۔ اس پورے منصوبے کے ساتھ ترقی کی سوچ کو پرکھنے والے دلوں کی فکر اور الجھن کو نہ سمجھ سکے۔

بی ایل اے جن مایوسیوں میں گھری ہے اسے اس کا حل جس صورت میں نظر آ رہا ہے وہی اسے بہتر لگ رہا ہے کیا وہ غلط سوچ رہے ہیں؟ دراصل یہ تو انسان کی فطرت ہے کہ وہ آگے بڑھنا چاہتا ہے کسی بھی منزل پر مستقل قیام اور ٹھہراؤ اس کی فطرت کے خلاف ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے زمین پر نہ اتارا جاتا، پر قدرت نے انسانی فطرت کو ہی اس طرح بنایا ہے کہ وہ کسی ایک جگہ نہیں رکتا۔

انسانی فطرت اپنے تقاضوں پر چلتی ہے اور اس کے مخالف یعنی اول دن کا دشمن اپنی روش پر چلتا ہے اور یوں دنیا عمل اور بے عمل کے کھیل سے رچی بسی اپنی مدت پوری کر رہی ہے نہ کوئی قدرت کے فیصلے کے خلاف ختم ہو سکتا ہے اور نہ ہی پنپ سکتا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ جو فیصلہ اوپر والا کر چکا ہے اس تک پہنچانے کے لیے بندوں کو خود اپنے ہی عمل اور سرگرمیوں سے آگے آنا ہی پڑتا ہے چاہے اس میں دل چاہے یا نہ چاہے، لڑے یا جھگڑے، ڈرے یا گھبرا کر سر جھکا لے یہ سارے اعمال انسان کے اپنے اختیار میں ہیں کہ اب وہ طے کردہ فیصلوں تک کس طرح پہنچتا ہے۔

 بات ہو رہی تھی چینی شہریوں کی، سندھ ہائی کورٹ میں دائرکردہ درخواست کے مطابق جو توجہ طلب ہے، یقینا اس میں قانونی پیچیدگیاں ہیں لیکن سوال اہم ہے کہ اس بات کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی۔ کیا سارے چینی باشندے اس درخواست کے زمرے میں آتے ہیں، تو اس کا جواب ہے کہ نہیں۔ کیونکہ بہت سے چینی باشندے ہمارے ملک میں برسوں سے رہ رہے ہیں، پر وہ مذکورہ باشندوں کی طرح متمول نہیں ہیں۔

عام پاکستانی باشندوں کی طرح روزی روٹی کی خاطر خوار ہونے والے، بسوں ویگنوں اور چنگ چی رکشاؤں میں سفر کرنے والے غریب چینی۔ جن کی پرواہ کسی کو نہیں۔ کیونکہ غریب کا سکہ اکثر کھوٹا ہی ہوتا ہے۔ چین سے پاکستان آئے کام کرنے والے چاہے اعلیٰ درجے کے افسران ہوں یا مزدور، کاریگر حضرات، انھوں نے شروع سے ہی اپنی سیکیورٹی اور خدشات کے حوالے سے اعلیٰ حکام کو آگاہ کیا ہوگا یا نہیں لیکن کرپشن کے چکر کا شاخسانہ امیر غریب کے مرتبے کو واضح کرتا ہے۔ اب ان کا عائد کردہ الزام درست ہے یا نہیں لیکن کرپشن کی صدا تو بلند ہوئی ہی ہے جو سندھ کی حکومت کے لیے سوالات پیدا کر رہی ہے۔

دوسری جانب چینی شہری جو پاکستان میں کاروباری مقاصد کے تحت آئے ہیں بخوبی تمام سفارتی کارروائیوں یعنی کسی دوسرے ملک میں غیر ملکیوں کے حوالے سے کاروبار، مالی مسائل اور شکایات و عدالتی کارروائیوں کے لیے اپنے سفارت خانے کو کس طرح منسلک کرتا ہے اور کس انداز سے کام کرتے ہیں بخوبی واقف ہی ہوں گے لیکن ان کا براہ راست سندھ ہائی کورٹ میں اپنی درخواست دائر کرنا عجیب ہے۔

کیا انھوں نے اس امر سے پہلے اپنے سفارت خانے سے کوئی بات کی تھی یا کیا ان کی جانب سے گرین سگنل دیا گیا تھا۔ ایسا عمل ایک پیچیدہ صورت حال کو ابھارتا ہے یہ درست ہے کہ ملک بھر میں اور خاص کر کراچی میں چینی باشندوں کی سیکیورٹی کے حوالے سے بہت سے تحفظات تو پیدا ہوتے ہی ہیں۔

 ہمیں سوچنا ہے کہ ہمارے ادارے اور عوام کے درمیان بڑھتے فاصلے، خدشات، نفرتیں اور عداوتیں کس طرح ختم ہو سکتی ہیں، ہم کس طرح ملکی اور غیر ملکی باشندوں کے لیے موافق حالات اور سازگار ماحول پیدا کریں کہ دل و دماغ کی الجھنیں، سوالات ہو جائیں اور ہم سب کھل کر مسکرا سکیں، ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر اپنے ملک و قوم کو آگے بڑھا سکیں۔

متعلقہ مضامین

  • جب جب خان پکارے گا ہم سب لبیک کہیں گے‘ مسرت جمشید چیمہ
  • کرم میں امن وامان کیلیے جرگہ:سوشل میڈیا کا غلط استعمال روکنے پر زور
  • عمران خان اور بشریٰ بی بی باعزت سر خرو ہوںگے‘مسرت چیمہ
  • تعلیم کا عالمی دن
  • کیا صحیح کیا غلط
  • سحر ہونے والی ہے
  • سرکاری دفاتر میں موبائل نیٹ ورک کا معاملہ،معاون خصوصی شفقت ایاز نے پی ٹی اے کو خط لکھ دیا
  • خیبرپختونخوا کے تمام محکموں کو ڈیجیٹائز کرنے کا عمل جاری رکھا جائے گا،شفقت ایاز
  • بد ترین سیاسی انتقام اورجیل کی صعوبتوں کے باجود عمران خان پر عزم : مسرت جمشید