Nai Baat:
2025-02-03@06:59:35 GMT

پاکستانی جیلوں میں اسیری کی زندگی

اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT

پاکستانی جیلوں میں اسیری کی زندگی

انسان ہو یا حیوان قید میں زندگی گزارنا اک عذاب سے کم نہیں اور اگر اسیری کے دن پاکستان کی جیلوں میں کاٹنا پڑ جائیں تو یہ اک ڈراؤنا خواب بن جاتی ہے۔ سزائیں معاشرے کی اصلاح کے لیے ضروری بھی ہیں کہ جس نے جرم کیا ہو اس کو اس کے جرم کے مطابق کڑی سزا دی جائے تاکہ وہ دوبارہ جرم کا ارتکاب کرنے سے پہلے سو بار اس کے نتائج بارے سوچے۔ ہر معاشرہ جرائم کی روک تھام کے لیے جہاں قوانین بناتا ہے وہیں ان پر عملدرآمد کے لیے ان لوازمات کا بھی بندوبست کرتا ہے جیسا کہ جیلیں اور عدالتیں۔ آج کل نظام عدل کی جو حالت ہو چکی ہے وہ تو سب پر عیاں ہے، انصاف تو جیسے معاشرے سے غائب ہی ہو گیا ہے۔ وہیں ہماری جیلوں کی حالت زار پر سر پٹخنے کو جی چاہتا ہے۔ حال ہی میں پریزن ڈیٹا رپورٹ 2024 منظر عام پر آئی ہے جس نے جیلوں کی بدترین صورتحال پر روشنی ڈالی ہے۔ اس رپورٹ میں چونکا دینے والے انکشافات کیے گئے ہیں کہ کس طرح جیلوں میں گنجائش سے ڈیڑھ سو گنا زیادہ مجرم قید و بند کی صعوبتیں کاٹ رہے ہیں۔ اس وقت ملک کی 116 جیلوں میں 65 ہزار 811 قیدیوں کی گنجائش کے مقابلے میں ایک لاکھ 2 ہزار 26 قیدی موجود ہیں، جو 152 فیصد اضافی گنجائش پر کام کر رہی ہیں۔ تاہم، کراچی کی سینٹرل جیل کی صورتحال ان سب سے بدتر ہے جہاں یہ تناسب 300 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ قیدیوں کی اکثریت پنجاب میں قید ہے۔ پنجاب کی جیلوں میں 37 ہزار افراد کو رکھنے کی گنجائش ہے مگر اس وقت ان جیلوں میں 61 ہزار 813 افراد قید کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جیلوں کے بڑے مسائل میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی تعداد، طویل مدت تک زیر سماعت مقدمات کے قیدی، خواتین اور نابالغوں جیسے کمزور طبقات کی منظم نظر اندازی شامل ہے جو عدم توجہ کا شکار ہیں۔ جیلوں پر ایک بڑھے بوجھ کی وجہ زیر التوا کیسز اور انصاف کے عمل میں تاخیر ہے۔ معمولی نوعیت کے جرم میں ملوث افراد، خاص طور پر بچے اور خواتین غیر ضروری اسیری کاٹنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کی جیلوں میں 73.

41 فیصد قیدیوں کے مقدمات زیر سماعت ہیں جو کہ غیر فعال عدالتی عمل اور انصاف میں تاخیر کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ضمانت کا غیر مؤثر نظام اور زیر سماعت مقدمات میں تاخیر سے سیکڑوں قیدی انصاف کے منتظر ہیں۔ جیلوں میں بچے اور خواتین بھی پُراسرار اسیری کے جال میں پھنس کے رہ گئے ہیں۔ ملک کی صرف چار جیلیں خواتین کیلئے مختص ہیں، جبکہ خواتین کو دیگر جیلوں میں مردوں سے الگ بیرک میں رکھا جاتا ہے۔ ایسی جیلوں میں خواتین کا جنسی استحصال بھی ہو رہا ہے۔ خواتین کا پاکستان کی جیلوں میں قید رہنا ڈراؤنے خواب کی مانند ہے۔ ان جیلوں کا انفراسٹرکچر ایسا نہیں جو خواتین کی بنیادی ضروریات کو مد نظر رکھ سکے۔ اپنی بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے انہیں جیل وارڈن پر انحصار کرنا پڑتا ہے جس کے لیے انہیں اس جرم کی بھی قیمت چکانا پڑتی ہے جس کا انہوں نے ارتکاب ہی نہیں کیا۔ پاکستان میں مینڈیلا رولز اور بینکاک رولز کے تحت جیل کے نظام میں اصلاحات کی صرف دہائی ہی دی جا سکتی ہے۔ بینکاک رولز میں جینڈر سپیسفک گائیڈ لائنز ہے کہ خواتین قیدیوں کے ساتھ کس طرح سے سلوک کیا جانا چاہیے۔ 2010 میں اقوامِ متحدہ کی اسمبلی نے ان گائیڈ لائنز یا قوانین کی منظوری دی تھی جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ مگر عملاً یہاں کچھ نہیں ہو رہا۔ خواتین قیدیوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ جیلوں میں کیا گورکھ دھندا چل رہا ہے۔ جیلوں میں بنیادی سہولیات کے فقدان کے باعث خواتین ضروریات زندگی کے حصول کے لیے جیل حکام کے ہاتھوں جنسی تشدد کا نشانہ بننے پر مجبور ہیں۔ جس ملک میں 85.1 فیصد نابالغ مقدمات کے فیصلوں کے منتظر ہوں وہاں بہتری کی امید لگانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ نظام عدل پر تو ملک میں پہلے ہی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ججز کی آپسی لڑائیاں اور اختیارات کی جنگ نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ چھبیسویں ترمیم کے بعد نظام میں بہتری کا دعویٰ کرنے والوں نے اس کی شکل ہی بگاڑ دی ہے۔ عدالتوں میں خط وکتابت اور بینچ بینچ کا کھیل جاری ہے۔ دنیا بھر میں ہمارے عدالتی نظام پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہے، ورلڈ جسٹس رول آف لا انڈیکس میں پاکستان قانون کی حکمرانی اور سکیورٹی میں 142 ممالک میں سے دنیا کا تیسرا بدترین ملک بن گیا ہے۔ حکومت وقت نے ملک میں پیکا جیسے کالے قوانین کو اپنی انا کی تسکین کے لیے نافذ کر کے انسانی حقوق اور آزادی رائے پر کاری ضرب لگائی ہے، ایسے میں انصاف کی توقع کس سے کی جائے، یہاں پر فیض احمد فیض کا شعر یاد آیا ہے
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
حالات ایسے تشویشناک ہیں کہ 23 فیصد سے زیادہ قیدی منشیات کے استعمال سے متعلق جرائم میں قید ہیں۔ ایسے قیدیوں کو سزائوں کے بجائے بحالی پروگرامز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کیلئے ملک میں بحالی مراکز قائم کرنے چاہئیں۔ معمولی جرائم والے افراد کیلئے متبادل سزاؤں جیسے پروبیشن اور کمیونٹی سروسز کو پروموٹ کرنے کے بارے میں عملاً کام کرنا چاہیے۔ بچے جیلوں میں سڑ رہے ہیں اور ہماری جیلوں کا جو ماحول ہے وہ باہر نکل کر معاشرے کے اچھے شہری کیونکر بنیں گے؟ خواتین اور نابالغوں جیسے حساس گروپ ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔ بدقسمتی سے ساری توجہ سیاسی انجینئرنگ پر مرکوز ہے۔ معاشرے کا توازن بگڑ رہا ہے جس پر اشرافیہ کان دھرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان میں تو بین الاقوامی معیار کے مطابق جیل کا نظام نہیں تو پھر اسکینڈے نیویا کے ممالک جیسی جیل اصلاحات اور نظامِ عدل کا خواب تو کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ یہاں کے قیدیوں کو اگر ناروے یا آسٹریا کی جیلوں میں جانے کا اتفاق ہو تو وہ برملا کہیں گے کہ ہمیں تو تاحیات یہاں قید ہی رہنے دیں۔ جو وی آئی پی سہولیات انہیں جیل میں میسر آئیں گی اس کا تصور تو وہ آزاد رہ کر بھی نہیں کر پائیں گے۔ فلاحی ریاستوں میں جیلوں کا تصور بہت مختلف ہے، وہ جیلیں کم اور بحالی کے مراکز زیادہ لگتے ہیں۔ ناروے کی ایک جیل Halden Prison جو سویڈن کے بارڈر کے ساتھ واقع ہے کو دنیا میں انسانی حقوق کے عین مطابق اور انتہائی پُر آسائش جیل کا درجہ حاصل ہے۔ اس جیل میں ملزمان کو الگ الگ کمروں میں رکھا جاتا ہے جس میں اٹیچ باتھ روم، ٹی وی اور کھڑکی کی بھی ہوتی ہے۔ اس کے علاہ جیل میں وڈیو روم، جم اور دیگر کئی کی سہولیات قیدیوں کو میسر ہیں۔ اسی طرح آسٹریا میں ایک پُرتعیش جیل بنائی گئی ہے جس کا نام The Justice Center Lroben ہے جو Leoben کے علاقے میں واقع جس میں 205 قیدیوں کی گنجائش ہے۔ اس جیل میں بھی قیدیوں کے اٹیچ باتھ روم کے ساتھ الگ الگ کمرے ہیں، اعلیٰ معیار کی خوراک اور میوزک سسٹم، جم، سپا، واک کے لیے گراؤنڈ اور گیمز کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ پاکستان میں ہم معمولی جرائم میں ملوث خواتین اور بچوں کے لیے ایسا قدم لے سکتے ہیں۔ ایک ایسی ماڈل جیل بنائی جائے جہاں اس جیسی نہ سہی کم از کم بنیادی ضروریات زندگی کی سہولیات موجود ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ اصلاح بھی کی جائے تا کہ جب وہ رہا ہو کر دوبارہ معاشرے کا حصہ بنیں تو ان کے دل میں اس نظام کے خلاف بغاوت جیسے جذبات نہ ابھریں اور وہ قانون کو ہاتھ میں لینے سے گریز کریں۔ فلاحی ریاست تو نہ جانے ہم کس صدی میں بن پائیں مگر دور حاضر میں اسیری کی زندگی کو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ ایسے افراد اسیری کی صعوبتیں کاٹتے کاٹتے ہی آدھ موئے ہو جائیں اور اصلاح کی رمق ہی ختم ہو جائے۔

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کی جیلوں میں قیدیوں کی قیدیوں کے کے ساتھ جیل میں رہے ہیں ملک میں کے لیے

پڑھیں:

عامر خان ایک بار پھر محبت میں مبتلا، زندگی کی نئی شروعات کرنے کو تیار

بالی ووڈ کے معروف اداکار عامر خان کے بارے میں خبریں گردش کر رہی ہیں کہ وہ ایک بار پھر محبت میں مبتلا ہو گئے ہیں۔

بھارتی میڈیا کی رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ عامر خان ایک خاتون کے ساتھ زندگی کی نئی شروعات کرنے والے ہیں اور ان کی قریبی ساتھی کا تعلق بنگلور سے ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق 59 سالہ اداکار نے اپنی اس نئی ساتھی کو اپنے خاندان سے بھی متعارف کروا دیا ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ایک نئے باب کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔

ایک قریبی ذرائع نے میڈیا کو بتایا کہ عامر کی ساتھی کا تعلق بنگلور سے ہے اور حال ہی میں وہ ان کے پورے خاندان سے ملاقات کر چکی ہیں۔ ملاقات خوشگوار رہی اور خاندان نے انہیں خوش آمدید کہا،  تاہم ذرائع نے ان کی نجی زندگی کا احترام کرنے اور مزید تفصیلات نہ بتانے کی درخواست کی ہے۔

عامر خان کی پہلی شادی رینا دتہ سے 1986 میں ہوئی تھی لیکن دونوں 2002 میں علیحدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں 2005 میں عامر خان نے فلم ساز کرن راؤ سے شادی کی لیکن 2021 میں طلاق ہو گئی اور اب عامر خان ایک بار پھر محبت میں مبتلا ہوگئے اور اپنی زندگی کے نئے باب کا آغاز کرنے والے ہیں۔

اگرچہ عامر خان یا ان کے خاندان کی طرف سے اس حوالے سے کوئی باضابطہ تصدیق نہیں کی گئی لیکن میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ تعلق کافی سنجیدہ نوعیت کا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بلوچستان میں خواتین کی فلم سازی اور ڈاکومنٹری میکنگ
  • اسلامی نظام زندگی ملک میں قائم کرنا ہمارا مقصد ہے،جاوید قصوری
  • ملائیشیا میں پاکستانی قیدیوں کی تفصیلِ جرم اور تعداد سامنے آگئی
  • لمحہ فکریہ
  • پاکستانی جیلوں سے 91 افغان قیدی رہا ہوکر وطن واپس پہنچ گئے
  • علم فلکیات ایک مسلمہ سائنس، مگر علم نجوم؟
  • پانی ہے زندگی!
  • عامر خان ایک بار پھر محبت میں مبتلا، زندگی کی نئی شروعات کرنے کو تیار
  • ملک ریاض اور پی ٹی آئی کا کھیل ختم نظام بے نقاب