Nai Baat:
2025-04-16@06:53:46 GMT

پاکستانی جیلوں میں اسیری کی زندگی

اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT

پاکستانی جیلوں میں اسیری کی زندگی

انسان ہو یا حیوان قید میں زندگی گزارنا اک عذاب سے کم نہیں اور اگر اسیری کے دن پاکستان کی جیلوں میں کاٹنا پڑ جائیں تو یہ اک ڈراؤنا خواب بن جاتی ہے۔ سزائیں معاشرے کی اصلاح کے لیے ضروری بھی ہیں کہ جس نے جرم کیا ہو اس کو اس کے جرم کے مطابق کڑی سزا دی جائے تاکہ وہ دوبارہ جرم کا ارتکاب کرنے سے پہلے سو بار اس کے نتائج بارے سوچے۔ ہر معاشرہ جرائم کی روک تھام کے لیے جہاں قوانین بناتا ہے وہیں ان پر عملدرآمد کے لیے ان لوازمات کا بھی بندوبست کرتا ہے جیسا کہ جیلیں اور عدالتیں۔ آج کل نظام عدل کی جو حالت ہو چکی ہے وہ تو سب پر عیاں ہے، انصاف تو جیسے معاشرے سے غائب ہی ہو گیا ہے۔ وہیں ہماری جیلوں کی حالت زار پر سر پٹخنے کو جی چاہتا ہے۔ حال ہی میں پریزن ڈیٹا رپورٹ 2024 منظر عام پر آئی ہے جس نے جیلوں کی بدترین صورتحال پر روشنی ڈالی ہے۔ اس رپورٹ میں چونکا دینے والے انکشافات کیے گئے ہیں کہ کس طرح جیلوں میں گنجائش سے ڈیڑھ سو گنا زیادہ مجرم قید و بند کی صعوبتیں کاٹ رہے ہیں۔ اس وقت ملک کی 116 جیلوں میں 65 ہزار 811 قیدیوں کی گنجائش کے مقابلے میں ایک لاکھ 2 ہزار 26 قیدی موجود ہیں، جو 152 فیصد اضافی گنجائش پر کام کر رہی ہیں۔ تاہم، کراچی کی سینٹرل جیل کی صورتحال ان سب سے بدتر ہے جہاں یہ تناسب 300 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ قیدیوں کی اکثریت پنجاب میں قید ہے۔ پنجاب کی جیلوں میں 37 ہزار افراد کو رکھنے کی گنجائش ہے مگر اس وقت ان جیلوں میں 61 ہزار 813 افراد قید کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جیلوں کے بڑے مسائل میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی تعداد، طویل مدت تک زیر سماعت مقدمات کے قیدی، خواتین اور نابالغوں جیسے کمزور طبقات کی منظم نظر اندازی شامل ہے جو عدم توجہ کا شکار ہیں۔ جیلوں پر ایک بڑھے بوجھ کی وجہ زیر التوا کیسز اور انصاف کے عمل میں تاخیر ہے۔ معمولی نوعیت کے جرم میں ملوث افراد، خاص طور پر بچے اور خواتین غیر ضروری اسیری کاٹنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کی جیلوں میں 73.

41 فیصد قیدیوں کے مقدمات زیر سماعت ہیں جو کہ غیر فعال عدالتی عمل اور انصاف میں تاخیر کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ضمانت کا غیر مؤثر نظام اور زیر سماعت مقدمات میں تاخیر سے سیکڑوں قیدی انصاف کے منتظر ہیں۔ جیلوں میں بچے اور خواتین بھی پُراسرار اسیری کے جال میں پھنس کے رہ گئے ہیں۔ ملک کی صرف چار جیلیں خواتین کیلئے مختص ہیں، جبکہ خواتین کو دیگر جیلوں میں مردوں سے الگ بیرک میں رکھا جاتا ہے۔ ایسی جیلوں میں خواتین کا جنسی استحصال بھی ہو رہا ہے۔ خواتین کا پاکستان کی جیلوں میں قید رہنا ڈراؤنے خواب کی مانند ہے۔ ان جیلوں کا انفراسٹرکچر ایسا نہیں جو خواتین کی بنیادی ضروریات کو مد نظر رکھ سکے۔ اپنی بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے انہیں جیل وارڈن پر انحصار کرنا پڑتا ہے جس کے لیے انہیں اس جرم کی بھی قیمت چکانا پڑتی ہے جس کا انہوں نے ارتکاب ہی نہیں کیا۔ پاکستان میں مینڈیلا رولز اور بینکاک رولز کے تحت جیل کے نظام میں اصلاحات کی صرف دہائی ہی دی جا سکتی ہے۔ بینکاک رولز میں جینڈر سپیسفک گائیڈ لائنز ہے کہ خواتین قیدیوں کے ساتھ کس طرح سے سلوک کیا جانا چاہیے۔ 2010 میں اقوامِ متحدہ کی اسمبلی نے ان گائیڈ لائنز یا قوانین کی منظوری دی تھی جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ مگر عملاً یہاں کچھ نہیں ہو رہا۔ خواتین قیدیوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ جیلوں میں کیا گورکھ دھندا چل رہا ہے۔ جیلوں میں بنیادی سہولیات کے فقدان کے باعث خواتین ضروریات زندگی کے حصول کے لیے جیل حکام کے ہاتھوں جنسی تشدد کا نشانہ بننے پر مجبور ہیں۔ جس ملک میں 85.1 فیصد نابالغ مقدمات کے فیصلوں کے منتظر ہوں وہاں بہتری کی امید لگانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ نظام عدل پر تو ملک میں پہلے ہی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ججز کی آپسی لڑائیاں اور اختیارات کی جنگ نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ چھبیسویں ترمیم کے بعد نظام میں بہتری کا دعویٰ کرنے والوں نے اس کی شکل ہی بگاڑ دی ہے۔ عدالتوں میں خط وکتابت اور بینچ بینچ کا کھیل جاری ہے۔ دنیا بھر میں ہمارے عدالتی نظام پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہے، ورلڈ جسٹس رول آف لا انڈیکس میں پاکستان قانون کی حکمرانی اور سکیورٹی میں 142 ممالک میں سے دنیا کا تیسرا بدترین ملک بن گیا ہے۔ حکومت وقت نے ملک میں پیکا جیسے کالے قوانین کو اپنی انا کی تسکین کے لیے نافذ کر کے انسانی حقوق اور آزادی رائے پر کاری ضرب لگائی ہے، ایسے میں انصاف کی توقع کس سے کی جائے، یہاں پر فیض احمد فیض کا شعر یاد آیا ہے
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
حالات ایسے تشویشناک ہیں کہ 23 فیصد سے زیادہ قیدی منشیات کے استعمال سے متعلق جرائم میں قید ہیں۔ ایسے قیدیوں کو سزائوں کے بجائے بحالی پروگرامز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کیلئے ملک میں بحالی مراکز قائم کرنے چاہئیں۔ معمولی جرائم والے افراد کیلئے متبادل سزاؤں جیسے پروبیشن اور کمیونٹی سروسز کو پروموٹ کرنے کے بارے میں عملاً کام کرنا چاہیے۔ بچے جیلوں میں سڑ رہے ہیں اور ہماری جیلوں کا جو ماحول ہے وہ باہر نکل کر معاشرے کے اچھے شہری کیونکر بنیں گے؟ خواتین اور نابالغوں جیسے حساس گروپ ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔ بدقسمتی سے ساری توجہ سیاسی انجینئرنگ پر مرکوز ہے۔ معاشرے کا توازن بگڑ رہا ہے جس پر اشرافیہ کان دھرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان میں تو بین الاقوامی معیار کے مطابق جیل کا نظام نہیں تو پھر اسکینڈے نیویا کے ممالک جیسی جیل اصلاحات اور نظامِ عدل کا خواب تو کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ یہاں کے قیدیوں کو اگر ناروے یا آسٹریا کی جیلوں میں جانے کا اتفاق ہو تو وہ برملا کہیں گے کہ ہمیں تو تاحیات یہاں قید ہی رہنے دیں۔ جو وی آئی پی سہولیات انہیں جیل میں میسر آئیں گی اس کا تصور تو وہ آزاد رہ کر بھی نہیں کر پائیں گے۔ فلاحی ریاستوں میں جیلوں کا تصور بہت مختلف ہے، وہ جیلیں کم اور بحالی کے مراکز زیادہ لگتے ہیں۔ ناروے کی ایک جیل Halden Prison جو سویڈن کے بارڈر کے ساتھ واقع ہے کو دنیا میں انسانی حقوق کے عین مطابق اور انتہائی پُر آسائش جیل کا درجہ حاصل ہے۔ اس جیل میں ملزمان کو الگ الگ کمروں میں رکھا جاتا ہے جس میں اٹیچ باتھ روم، ٹی وی اور کھڑکی کی بھی ہوتی ہے۔ اس کے علاہ جیل میں وڈیو روم، جم اور دیگر کئی کی سہولیات قیدیوں کو میسر ہیں۔ اسی طرح آسٹریا میں ایک پُرتعیش جیل بنائی گئی ہے جس کا نام The Justice Center Lroben ہے جو Leoben کے علاقے میں واقع جس میں 205 قیدیوں کی گنجائش ہے۔ اس جیل میں بھی قیدیوں کے اٹیچ باتھ روم کے ساتھ الگ الگ کمرے ہیں، اعلیٰ معیار کی خوراک اور میوزک سسٹم، جم، سپا، واک کے لیے گراؤنڈ اور گیمز کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ پاکستان میں ہم معمولی جرائم میں ملوث خواتین اور بچوں کے لیے ایسا قدم لے سکتے ہیں۔ ایک ایسی ماڈل جیل بنائی جائے جہاں اس جیسی نہ سہی کم از کم بنیادی ضروریات زندگی کی سہولیات موجود ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ اصلاح بھی کی جائے تا کہ جب وہ رہا ہو کر دوبارہ معاشرے کا حصہ بنیں تو ان کے دل میں اس نظام کے خلاف بغاوت جیسے جذبات نہ ابھریں اور وہ قانون کو ہاتھ میں لینے سے گریز کریں۔ فلاحی ریاست تو نہ جانے ہم کس صدی میں بن پائیں مگر دور حاضر میں اسیری کی زندگی کو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ ایسے افراد اسیری کی صعوبتیں کاٹتے کاٹتے ہی آدھ موئے ہو جائیں اور اصلاح کی رمق ہی ختم ہو جائے۔

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کی جیلوں میں قیدیوں کی قیدیوں کے کے ساتھ جیل میں رہے ہیں ملک میں کے لیے

پڑھیں:

صیہونی قیدیوں کی ایک مرحلے میں رہائی کیلئے حماس کی شرائط

الجزیرہ سے اپنی ایک گفتگو میں سامی ابو زھری کا کہنا تھا کہ نتین یاہو ناقابل عمل شرائط پیش کر رہا ہے تاکہ جنگبندی کے معاہدے کو سبوتاژ کر سکے۔ اسلام ٹائمز۔حماس کے فلسطین سے باہر پولیٹیکل سربراہ "سامی ابو زھری" نے کہا کہ ہماری تحریک ہر اُس تجویز کا خیر مقدم کرے گی جس سے ہماری عوام کی مشکلات میں کمی آئے۔ لیکن صیہونی وزیراعظم "نتین یاہو" ہم سے ہماری شکست کے ہروانے پر دستخط کروانا چاہتا ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار الجزیرہ سے گفتگو میں کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ نتین یاہو ناقابل عمل شرائط پیش کر رہا ہے تاکہ جنگ بندی کے معاہدے کو سبوتاژ کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ مقاومت کو غیر مسلح کرنے کی شرط پر بات نہیں ہو سکتی اور نہ ہی یہ شرط پوری کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہتھیاروں کا تعلق صیہونیوں کے قبضے سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ہتھیار ہمارے لوگوں اور اُن کے قومی مفاد کے تحفظ کے لئے ہیں۔ دوسری جانب المیادین نے خبر دی کہ اسرائیل نے اپنی تجاویز، جنگ بندی کے معاہدے میں موجود ثالثین کے حوالے کر دی ہے۔ ان تجاویز کے مطابق، جنگ بندی کے پہلے روز، مقاومتی فورسز، امریکی نژاد "الیگزینڈر ایڈن" کو رہا کریں گی۔ لیکن اس میں اہم بات یہ ہے کہ اس تجویز میں غزہ کی پٹی میں مقاومت کو غیر مسلح کرنے کا مطالبہ شامل ہے۔ جس پر فلسطین کے مقاومتی گروہوں نے کہا کہ ہم ایسے مطالبات کو بارہا مسترد کر چکے ہیں۔

واضح رہے کہ 45 روزہ عارضی جنگ بندی کے فریم ورک کے تحت عسکری کارروائیاں بند کی جائیں گی، انسانی امداد غزہ پہنچ سکے گی اور قیدیوں کا تبادلہ ہو گا۔ اسرائیل کی تجویز کے مطابق، جنگ بندی کے دوسرے روز حماس، مقاومت سے تعلق رکھنے والے عمر قید کے 66 اور غزہ کے 611 قیدیوں کی رہائی کے بدلے 5 زندہ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گی۔ تاہم صیہونیوں کا کہنا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کا یہ عمل کسی تقریب کی صورت میں نہ ہو۔ 5 صیہونیوں کی رہائی کے بعد غزہ کی پٹی میں بے گھر افراد کے لئے ضروریات زندگی سے تعلق رکھنے والے امدادی سامان کو داخلے کی اجازت ہو گی جب کہ اسرائیلی فوج، رفح اور شمالی غزہ کی پٹی میں اپنی دوبارہ تعیناتی شروع کر دے گی۔ جنگ بندی کی ان تجاویز پر ردعمل دیتے ہوئے سامی ابو زھری نے کہا کہ اسرائیل نے ان تجاویز میں کہیں بھی جنگ کے مکمل خاتمے کا ذکر نہیں کیا۔ اسرائیل صرف اپنے قیدیوں کی رہائی چاہتا ہے۔ بہرحال ہم بھی یک مرحلہ تبادلے کے لئے تیار ہیں۔جس کے بدلے میں جنگ کا خاتمہ ہو اور اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی سے باہر نکلے۔ حماس کے ان رہنماء نے کہا کہ اسرائیل کے ان تمام جرائم میں امریکہ برابر شریک ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت امریکی حکومت سے مستقیماََ کسی رابطے میں نہیں ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت: وینٹی لیٹر پر زندگی کی جنگ لڑتی خاتون کو بھی ہوس کے پجاریوں نے نہ بخشا
  • سچی محبت کی زندہ مثال،نوجوان نے اپنا جگر دیکر بیوی کی جان بچالی
  • کمپیوٹر کی تعلیم حاصل نہ کرنے والے ملازمین کو فارغ کیا جائے گا، چیف جج چیف کورٹ
  • محکمہ داخلہ خیبرپختونخوا نے افغان قیدیوں سے متعلق تفصیلات طلب کر لیں
  • صیہونی قیدیوں کی ایک مرحلے میں رہائی کیلئے حماس کی شرائط
  • غزہ: الاہلی ہسپتال پر اسرائیلی حملے سے شہر کا نظام طب بری طرح متاثر
  • ابوظہبی کی معروف شاہراہ پر کم از کم سپیڈ لمٹ کا نظام ختم
  • جناح ہاؤس حملہ کیس: طبی بنیاد پر ضمانت دی تو تمام قیدیوں کو رہا کرنا پڑے گا، چیف جسٹس
  • معاشرتی سچائیوں کو قلم کے نشتر سے طشت از بام کرنے والے ممتاز ادیب
  • ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی