پی پی کی وزیر اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی دھمکی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
٭بلاول بھٹو نے واضح کر دیا ہے دریائے سندھ سے کینال نکالنے پرراستے جداہونگے،نادر گبول
٭سندھ کا کوئی شخص دریائے سندھ سے کینال نکالنے کو قبول نہیں کرے گا،ترجمان حکومت سندھ
(جرأت نیوز )پاکستان پیپلز پارٹی نے دریائے سندھ سے کینال نکالنے پر وزیر اعظم شہباز شریف کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی دھمکی دے دی۔ترجمان سندھ حکومت نادر گبول نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی حکومت کو واضح کر دیا ہے کہ اگر دریائے سندھ سے کینال نکالے گئے تو وفاقی حکومت سے الگ ہو جائیں گے۔نادر گبول نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جائے گی پھر یہ حکومت نہیں رہے گی پی ٹی آئی حکومت کو بھی ہم نے گرایا تھا۔انہوں نے کہا کہ سندھ کا کوئی شخص دریائے سندھ سے کینال نکالنے کو قبول نہیں کرے گا، سندھ کے پانی پر ڈاکا ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔گفتگو میں ترجمان سندھ حکومت نے کہا کہ پیپلز بس سروس کے کرایوں میں اضافہ ناگزیر تھا تاہم اس میں صحافیوں اور طلبہ کیلیے مفت سفر کا فیصلہ کیا جائے گا۔انہوں نے کہاکہ ایم کیو ایم کی سیاست ختم ہوگئی ہے بوری بند لاشیں اور قتل و غارت ایم کیو ایم کا پیشہ رہا ہے، ایم کیو ایم والے خود کو میڈیا میں زندہ کرنے کیلیے ہم پر تنقید کر رہے۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
پانی ہے زندگی!
پانی زندگی ہے، جس کے بغیر کوئی بھی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا۔ ہمارا صوبہ سندھ بھی پانی کی قلت سے دوچار ہے، جس کی وجہ سے زراعت، صنعت وتجارت شدید متاثر جبکہ غربت، بھوک وافلاس اور بدامنی و لوٹ مار میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اب سندھ کے دارالحکومت کراچی اور حیدرآباد سمیت کئی شہروں میں لوگ پینے کے پانی کے لیے بھی پریشان ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی صورتحال نے بھی پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سندھ میں زیرزمین 90 فی صد پانی کھارا ہے، جب کہ 85 فی صد لوگ مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہیں، جس کی وجہ سے لوگ کئی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں، دوسری جانب وفاقی حکومت دریائے سندھ پر مزید 6 نہریں نکال کر عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کرنے جارہی ہے۔ یہاں کے عوام سمجھتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی سہولت کار ی سے دریا پر چھے نہریں بنانے کا منصوبہ سندھ اور سندھ کے عوام کو تباہ کرنے کی سازش ہے۔ اس حساس معاملے پر جماعت اسلامی سندھ نے 26 جنوری کو حیدرآباد کے مقامی ہوٹل میں پانی کی کانفرنس کا انعقاد کیا، کانفرنس کی صدارت صوبائی امیر کاشف سعید شیخ نے کی۔ کانفرنس میں شریک سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے رہنمائوں، وکلا، صحافیوں، دانشوروں، زرعی اور پانی کے ماہرین، اقلیتوں، آبادگاروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے وفاق کی جانب سے دریائے سندھ کے اوپر غیر قانونی اور ارسا ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مزید 06 نئی نہریں بنانے کے منصوبے کو مسترد اور اسے سندھ کو بنجر بنانے کی سازش اور قیمتی زمینوں کی نیلامی کے منصوبے پر پیپلزپارٹی کے دوہرے معیار اور کراچی تاکشمور سندھ کے عوام کی جانب سے بھرپور احتجاج کے باوجود وفاق کی جانب سے منظور کردہ نئی نہروں کی تعمیر کو قومی یکجہتی کو نقصان اور بنگلا دیش جیسی صورتحال پیدا کرنے کے مترادف اور واضح کیا کہ اگر پیپلزپارٹی نے سندھ دشمن منصوبوں کیخلاف سندھ اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ سے مذمتی قرارداد منظور نہ کرائی تو سندھ کی تمام سیاسی جماعتیں مشترکہ طور پر وزیراعلیٰ ہاؤس کا گھیراؤ کریں گی۔ جے یو پی و ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے صدر صاحبزادہ ابوالخیر زبیر، سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے صدر سید زین شاہ، سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر قادرمگسی، فنکشنل لیگ کے سردارعبدالرحیم، جیے سندھ قومی پارٹی کے چیئرمین نوازخان زئنور، سابق ایم این اے ملی یکجہتی کونسل سندھ کے صدر اسداللہ بھٹو، سابق امیر صوبہ محمد حسین محنتی، سندھ آبادگاربورڈ کے سید ندیم شاہ جاموٹ، علماء مشائخ کے صاحبزاہ احمد عمران نقشبندی، معروف صحافی وکالم نویس دستگیر بھٹی شریک تھے۔
صوبائی امیر کاشف سعید شیخ نے اپنے صدارتی خطاب میں بالکل درست کہا کہ ماضی کی طرح دریائے سندھ سے نئی نہروں پر بھی پیپلز پارٹی وفاق اور مقتدر اداروں کی سہولت کاری کا کردار ادا کر رہی ہے اس دوہرے معیار اور سندھ کے وسائل کی سودی بازی پر سندھ کے عوام اور تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ حکمران مسلسل سندھ کے مفادات اور وسائل کی لوٹ مارکررہے ہیں، کراچی تا کشمور سندھ کے عوام اور سیاسی جماعتیں مل کر جدوجہد کریں تو کینال تو کیا ان کے ہر منصوبے کو مٹی میں ملادیں گے۔ سندھ تیل، گیس، کوئلے اور زراعت سمیت بے شمار معدنی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود یہاں کے عوام بھوک، بدحالی اور مہنگائی کے ساتھ ساتھ بدامنی اور ڈاکوراج کے شکار ہیں، لیکن سندھ کے عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ پانی زندگی ہے، انسان، چرند، پرند سمیت دنیا کی کوئی مخلوق اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ پاکستان خاص طور پر صوبہ سندھ کی آبادی کی اکثریت کا گزر سفر زراعت کے پیشے سے ہے، سندھ کی خوشحالی، تجارت اور ترقی بھی زراعت اور پانی سے منسلک ہے۔ سندھ میں پہلے ہی پانی کی قلت، ارسا کی 91 کی تشکیل کے مطابق پورا پانی نہ ملنے سے سندھ کی زراعت تباہ اور زمینیں غیرآباد ہورہی ہیں۔ جماعت اسلامی نہروں کی تعمیر، سندھ کی قیمتی زمینوں کی نیلامی اور این ایف سی ایوارڈ سمیت وفاق کی ناانصافیوں کیخلاف سڑکوں پر احتجاج کے ساتھ آئینی اور قانونی جنگ بھی لڑے گی۔ تمام مقررین نے بدامنی وڈاکو راج کے خاتمے کے لیے سکھر میں کل جماعتی کانفرنس کے بعد حیدرآباد میں حساس مسئلے پر پانی کانفرنس انعقاد کرنے پر جماعت اسلامی کے اقدامات کو سرہا اور اپنی جانب سے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
آخر میں جاری ایک اعلامیے میں کہا گیا کہ کانفرنس میں شریک سیاسی جماعتیں، کاشت کار تنظیموں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے دریائے سندھ پر ارسا ایکٹ کے برعکس غیر قانونی طور اور سندھ کے عوام کے تحفظات و احتجاج کے باوجود دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے منصوبے کو صوبوں کے درمیان بداعتمادی کی فضا اور قومی یکجہتی کو پارپارہ کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے کینال منصوبہ کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ ہم کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر سندھ کی زمینوں کو بااثر کاروباری کمپنیوں اور طاقتور قوتوں کو دینے کی مذمت کرتے ہیں۔ 91 معاہدے کے مطابق سندھ کو اپنے جائز حصے کا پانی نہ ملنے کی کسی عالمی شہرت یافتہ ادارے کی جانب سے شفاف انداز میں آڈٹ کرایا جائے تاکہ معلوم ہو سکے کہ 91 سے لے کر 2025 تک سندھ کا کتنا پانی چوری کیا گیا ہے۔ سندھ ایک زرعی صوبہ ہے، دریائے سندھ سے چھے نئی نہریں نکالنے کا مطلب ہے یہاں کی زمینیں بنجر اور سندھ کو صحرا کرنا جس کے خلاف سندھ کا بچہ بچہ مزاحمت کرے گا۔ اس وقت جب پہلے سے ہی لوئر سندھ کے ٹھٹھہ، سجاول، بدین اور ٹنڈو محمد خان اضلاع میں پانی کی شدید قلت موجود ہے، سمندر میں پانی نہ جانے کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ زمینیں سمندر کھا گیا ہے تب سندھو دریا سے نئے کینال نکالنے کی ضد اور غیرآباد زمینوں کو کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر آباد کرنے کے لیے پانی کہاں سے آئے گا، اگر اس سلسلے میں پانی نکالا گیا تو پہلے سے موجود آباد زمینیں برباد اور سندھ کی زراعت تباہ ہو جائے گی جس کے خلاف مذہب، رنگ، نسل اور زبان کے فرق سے بالاتر ہو کر سندھ کے ہر شخص کو آگے آ کر ’دریائے بچاؤ‘ تحریک میں بھرپور حصہ لینا چاہیے۔ ارسا ایکٹ میں تبدیلی کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ پیپلز پارٹی حکومت کے پانی سے متعلق تمام اقدامات منافقانہ ہیں اگر پیپلزپارٹی کی حکومت اس معاملے پر مخلص ہے تو صوبائی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے مذمتی قرارداد منظور کرائے۔ عزم کرتے ہیں کہ پیپلزپارٹی نے دریائے سندھ سے نئی نہروں اور قیمتی زمینوں کی بندر بانٹ کے عوام دشمن منصوبے کو مسترد نہیں کیا اور منافقت کی سیاست ختم نہیں کی تو تمام جماعتیں مل کر وزیر اعلیٰ کے ہاؤس کا محاصرہ کریں گی۔ سندھ کے پانیوں کے اوپر ڈاکا، کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر سندھ کی لاکھوں ایکڑ قیمتی زمینوں کو ہڑپ کرنے کے خلاف پرامن طور پر سڑکوں پر تحریک کے ساتھ ساتھ وکلا، قانون دانوں کے ساتھ مل کر اپنے حقوق اور ناانصافی کے خلاف اعلیٰ عدلیہ سے بھی رجوع کریں گے۔ نہروں اور پانی کے حوالے سے سندھ کے عوام شدید احتجاج اور تحفظات رکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وفاق اورصوبوں کے درمیاں مزید بداعتمادی بڑھنے کا خدشہ ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت اس حساس مسئلے پر ارسا اور مشترکہ مفادات کی کونسل میں ٹھنڈے دماغ سے سوچے کیوںکہ سندھ کے عوام دریائے سندھ پر نہروں سمیت کسی ڈیم کی تعمیر کے حق میں نہیں ہیں۔