جامعات میں ایم اے پاس بیوروکریٹ وی سی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
سندھ حکومت کی جانب سے یونیورسٹیوں کے ترمیمی قانون کی منظوری پیپلزپارٹی کی تعلیم دشمنی کا تسلسل ہے یہ خاص طور پر شہر کراچی کی جامعات کے لیے تشویشناک ہی نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم کی موت ہے۔ یہ قدم نہ صرف تعلیمی معیار کو متاثر کرے گا بلکہ جامعات کی خود مختاری پر بھی کاری ضرب لگائے گا۔ اس قانون کے ذریعے سندھ کی جامعات میں بیوروکریٹس کو وائس چانسلر مقرر کرنے کی راہ ہموار کر دی گئی ہے، جو کہ ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ اس فیصلے کے خلاف نہ صرف اساتذہ اور طلبہ نے احتجاج کیا ہے بلکہ وفاقی ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد نے بھی سندھ کی نئی پالیسی کو ’’جامعات کے لیے تباہ کن‘‘ قرار دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ایچ ای سی کے موقف کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین نے مشاورت کے بغیر میڈیا کو مطلع کیا، جبکہ صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ ترمیمات انتظامی بدعنوانیوں اور مالی بے ضابطگیوں کو روکنے کے لیے ضروری ہیں۔ تاہم، سندھ حکومت کی جلد بازی اور قانون سازی کا طریقہ کار خود کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اپوزیشن کا موقف ہے کہ یہ قانون بنا کسی مشاورت اور مجلس ِ قائمہ میں بھیجے بغیر منظور کیا گیا، جو کہ جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔ سندھ بھر کی جامعات کے اساتذہ اس وقت سراپا احتجاج ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی صورت بیوروکریٹس کو وائس چانسلر مقرر نہیں ہونے دیا جائے گا۔ انجمن اساتذہ جامعہ کراچی اور فپواسا کے مطابق، یہ ترمیمی قانون جامعات کی خود مختاری پر براہ راست حملہ ہے اور اسے فوری طور پر واپس لیا جانا چاہیے۔ احتجاجی تحریک جاری رہنے کے ساتھ ساتھ، اساتذہ کی یونینز نے عدالتی چارہ جوئی کا عندیہ بھی دیا ہے۔ دوسری جانب، وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ وہ اس بحران کو ’’انتظامی طور پر‘‘ حل کر لیں گے۔ تاہم، صورتحال اس بات کی عکاس ہے کہ تعلیمی اداروں کی خودمختاری اور سیاسی مداخلت کا یہ تنازع جلد ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ سندھ حکومت کو چاہیے کہ اس متنازع قانون کو ختم کرے اور جامعات کی خود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے اساتذہ، ماہرین تعلیم اور طلبہ کی رائے کو اہمیت دے۔ بیوروکریسی کے ذریعے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو کنٹرول کرنا نہ صرف تعلیمی عمل کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ مستقبل کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوگا۔ اگر یہ فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو سندھ کی جامعات علمی زوال اور انتظامی بحران اور کرپشن کا مزید شکار ہو جائیں گی، جس کا خمیازہ نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم کو سیاست سے بالاتر رکھتے ہوئے ایسے فیصلے کرے جو واقعی تعلیمی بہتری اور اداروں کی ترقی کے ضامن ہوں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کی جامعات کے لیے کی خود
پڑھیں:
پاکستان میں ایک اور برطانوی تعلیمی بورڈ کا باقاعدہ آغاز ہوگیا
پاکستان میں ایک اور برطانوی بورڈ لرننگ ریسورس نیٹ ورک (ایل آر این) کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں افتتاحی تقریب برٹش ڈپٹی ہائی کمیشن میں منعقد ہوئی جس سے برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر مارٹن ڈائوسن، برطانوی ماہر تعلیم اور ایل این آر کی اسسمنٹ منیجر انجیلاکا ڈی پائیوا، ایل آر این کے سربراہ طارق ذوہیب، ضیاالدین یونیورسٹی کی پروچانسلر ڈاکٹر ندا عاصم، برطانوی اسکول کے سربراہ روسیل کولینز، ثمرہ پیران اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔
صدر پاکستان کے مشیر اور سابق چیئرمین سندھ ہائی ایجوکیشن ڈاکٹر عاصم حسین اور اینیمل یونیورسٹی سکرنڈ کے وائس ڈاکٹر فاروق حسن اور مختلف اسکولوں کے سربراہان نے بھی افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔
اس موقع پر نمایاں تعلیمی خدمات انجام دینے پر ڈاکٹر خدیجہ مشتاق کو تعلیمی خدمات پر لائیو اچیوومنٹ ایوارڈ دیا گیا جو ان کی صاحبزادی نیہا مشتاق نے وصول کیا۔
برطانوی ڈپٹی مشن مارٹن ڈاؤسن نے کہا کہ تعلیم سوسائٹی کی تبدیلی اور اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور اسی لیے برطانیہ تعلیم کو بہت اہمیت دیتا ہے، برطانوی نظام تعلیم دنیا کا بہترین تعلیمی نظام ہے جسے 150 ملکوں نے اپنایا ہے۔ فروغ تعلیم میں برطانیہ اپنا کردا ادا کرتا رہے گا۔
انجیلاکا ڈی پائیوا ایل نے کہا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں اور پاکستانی بچوں کا شمار ذہین ترین بچوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے ایل آر این کے قیام کا مقصد بتاتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان میں جی سی ایس ای، اے ایس اور اے لیول اور دیگر پروگرامز لے کر آرہے ہیں۔
طارق زوہیب نے کہا کہ لرننگ ریسورس نیٹ ورک ایک تسلیم شدہ ایوارڈ دینے والی تنظیم ہے جو امیدواروں، تعلیمی اداروں، تربیت فراہم کرنے والوں، اسکولوں اور آجروں کو قابلیت کی حد پیش کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دیگر برطانوی بورڈز کے مقابلے میں ہماری فیس نصف سے بھی کم ہے۔
اس موقع پر ایل آر این پر مباحثہ بھی ہوا جس میں ڈاکٹر ثروت نعمان، اطہر خان، عبدالقادر اور دیگر نے حصہ لیا اور حاضرین کے سوالات کے جوابات دیے۔ اس موقع پر برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر نے کیک بھی کاٹا۔