کراچی میں میگا آئی ٹی سمٹ، گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی شرکت و خطاب
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: سمٹ میں خطاب کرتے ہوئے کامران ٹیسوری نے کہا کہ گورنر ہاؤس کے دروازے عوام کے لیے کھول دیئے ہیں، ملک آپ کا ہے وسائل آپ کے ہیں، جو لوگ وسائل اور آپ کے درمیان کھڑے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ وڈیرہ شاہی چلتی رہے لیکن آپ جیسے نوجوان ظالموں سے وسائل لے کر عوام میں دے رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کراچی کے ہاکی اسٹیڈیم میں منعقد کیے گئے میگا آئی ٹی سمٹ میں شرکت کی۔ کامران ٹیسوری نے سمٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 20 ہزار سے زائد نوجوانوں کی شرکت یہ ثابت کرتی ہے کہ صوبہ آئی ٹی کا حب بننے جا رہا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ صوبے کے نوجوانوں کی آئی ٹی سیکٹر میں بھرپور شمولیت کامیابی کی نوید ہے، نوجوانوں کا آئی ٹی میں بڑھتا ہوا رجحان حوصلہ افزا اور روشن مستقبل کی علامت ہے۔ گورنر سندھ نے کہا کہ آج یہاں آپ سب آئی ٹی کا ٹیسٹ دینے آئے ہیں اور مستقبل میں ہزاوں ڈالرز کمائیں گے، مجھے ایک 12 سال کے بچے نے بتایا کہ آئی ٹی کورس کرنے کے بعد اب وہ 5 لاکھ روپے ماہانہ کماتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ آگے وہی بڑھے گا جو محنت کرے گا اور علم حاصل کرے گا، گورنر ہاؤس میں 50 ہزار طلبہ پڑھ رہے ہیں، مجھے ووٹ نہیں ملک کے لیے نوٹ چاہئیں۔ اُنہوں نے کہا کہ گورنر ہاؤس کے دروازے عوام کے لیے کھول دیئے ہیں، ملک آپ کا ہے وسائل آپ کے ہیں، جو لوگ وسائل اور آپ کے درمیان کھڑے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ وڈیرہ شاہی چلتی رہے لیکن آپ جیسے نوجوان ظالموں سے وسائل لے کر عوام میں دے رہے ہیں۔ کامران ٹیسوری نے کہا کہ ہاکی اسٹیڈیم سے 10 ہزار بچے چیمپئن بن کر نکلیں گے، یہ سارے بچے آئی ٹی کورس کے بعد لاکھوں ڈالرز کمائیں گے۔ قارئین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.
youtube.com/c/IslamtimesurOfficial
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کامران ٹیسوری نے نے کہا کہ آئی ٹی
پڑھیں:
فلسفہ بیگانگی اور مزدور کا استحصال
دنیا سے غربت اور مفلسی کے خاتمے کے لیے روئے زمین پر وسائل، ذرائع یا دولت وغیرہ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ قدرتی اور فطری طور پر زمین پر اتنی ہی مخلوقات کو پیدا کیا گیا ہے جتنی زمین پر ان کے ہمیشہ زندہ رہنے کی وافر مقدار میں خوراک موجود ہے۔ اگر آج امریکی ادارہ ناسا (NASA) دوسرےسیاروں پر زندگی کے آثارڈھونڈ رہا ہے تو اس کی بنیادی وجہ زمین پر ذرائع یا خوراک کی کمی نہیں ہے بلکہ اس کا اصل مقصد کائنات میں کسی جگہ انسانیت کے لیے ایسا محفوظ ٹھکانہ ڈھونڈنا ہےجہاں وہ لمبی عمر پاسکےیا ہمیشہ کے لیے زندہ رہ سکے۔ کارل مارکس نےغربت کے بارے اس بات سے شدید اختلاف کیاتھا کہ آبادی بڑھنے سے غربت قدرتی طور پر پیدا ہوتی ہے۔ سچ بھی یہی ہےکہ آبادی کےکم یازیادہ ہونے کا قدرتی وسائل سے کوئی ریاضیاتی موازنہ نہیں بنتا ہے۔ یہ بات سماجی محنت اور جدوجہد کے فلسفہ کے بھی خلاف ہے کہ قدرتی وسائل اتنے کم ہو سکتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری نہ کرسکیں۔ کارل مارکس کاکہنا ہےکہ بڑے پیمانے پرغربت سرمایہ داری نظام کےسماجی ساخت کالازمی نتیجہ ہے۔ سرمائے کی نہ ختم ہونے والی ہوس کی وجہ سے مزید سرمایہ پیدا کیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں اس کی بہترین مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ ایک گھر میں محنت کرنے والے دس افراد ہوں تو دوسرے گھر میں ایک محنت کرنے والا ہو تو ایک کے مقابلے میں دس محنت کرنے والوں کے پاس اصولی طور پر زیادہ وسائل اور دولت ہو گی۔
کارل مارکس کی نظر میں بھی غربت کی بنیادی وجہ بڑے پیمانے پردولت اور ذرائع کا استحصال ہے۔ مارکس کا اصرارتھاکہ دنیا میں موجود وسائل آبادی کے لئے کافی ہی نہیں بلکہ کافی سے زیادہ ہیں۔مارکس کے خیال میں المیہ یہ ہےکہ ایک مخصوص اقلیت ان وسائل کا استعمال اس طریقے سےکرتی ہے کہ دنیا کی آبادی کا غالب حصہ ان کے ثمرات سے محروم رہ جاتا ہے۔ آج 200 سال گزرنے کے بعد بھی مارکس کا یہ تجزیہ صحیح ثابت ہو رہا ہے کہ دنیا کے جن سینکڑوں یا ہزاروں افراد کے پاس پیسہ زیادہ ہےان کےپاس مزید پیسے کی تعداد اور وسائل کی مقدار بڑھ رہی یے۔ اس وقت بھی ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک قدرتی وسائل کا استعمال غریب ملکوں کےمقابلے میں بہت زیادہ مقدارمیں کررہے ہیں۔ یہ ممالک اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہی نہیں بلکہ دولت کوجمع کرنے اوراس کا ارتکاز کرنےکے لیے بھی غریب ملکوں کے وسائل لوٹ کر اپنےممالک میں لےجاتے ہیں۔ سرمایہ داری نظام کا ایک یہی المیہ نہیں بلکہ دنیا میں جنگ و جدل کو فروغ دے کر اور اسلحہ بیچ کر کمزور ملکوں کو غلام بنانا اور ان سے زیادہ سے زیادہ دولت بٹورنا بھی ایک نہ ختم ہونے والا انسانیت سوز کاروبار ہے، جو اس وقت بھی دنیا کا سب سے بڑا اور منافع بخش کاروبار ہے۔
کارل مارکس نےسرمایہ داری نظام کے اس غیرانسانی اور غیراخلاقی پہلوکو اجاگر کیا کہ یہ نظام پیداواری عمل کےدوران انسان کوبھی ایک شے یاجنس(commodity) کےطور پر استعمال کرتا ہے۔ مارکس نے مالتھس کے نظریے کی یہ کمزوری بھی واضح کی کہ وہ غربت میں اضافےکی وجوہات میں سرمائے کےچند ہاتھوں میں ارتکازکونظر اندازکردیتا ہے اور صرف آبادی میں اضافےکواس کا سبب بتاتا ہے۔ مارکس نے کہا کہ سرمایہ داری کے بدترین استحصال کے نتیجےمیں جدیداقتصادی نظام آبادی کےایک بڑے حصے کو بیگانگی کا شکارکردیتا ہے جس سےسرمایہ دار اشرافیہ کے مقابلےمیں کمتر مزدور طبقہ پیدا ہوتا ہےجس سےیہ نچلا طبقہ احساس کمتری کاشکارہوجاتاہےاور اپنے اردگرد کے ماحول سے ایک خطرناک حد تک بیگانہ ہو جاتا ہے۔
اس فلسفے کو کارل مارکس “فلسفہ بیگانگی یا لاتعلقی (alienation)کا نام دیتے ہیں۔ یہ نظریہ محض مارکس کےذہن کی اختراع نہیں ہے بلکہ یہ نفسیات کی ایک پرانی اصطلاح ہے۔ اس سےمراد وہ ذہنی کیفیت ہے جس کے باعث انسان اپنے معاشرے، اپنی تہذیب اورحتی کہ اپنی ذات سے بھی کٹ کررہ جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ایک مزدور ہزاروں لاکھوں کی بستی میں بھی اپنے آپ کو تنہا اور بے یار ومدد گار محسوس کرتا ہے۔ اس کو اپنے گرد و پیش کی ہرچیز اجنبی اور غیرنظر آتی ہے اور وہ معاشرے کی تمام قدروں اور ساری سرگرمیوں کو بے معنی سمجھنے لگتا ہے۔ اس سے معاشرے میں خواہ مخواہ نہ صرف طبقاتی تقسیم پیدا ہوتی ہے، بلکہ یہ گھٹیا سوچ مزدور اور ان پڑھ افراد کے علاوہ تعلیم یافتہ طبقے میں بھی نفرت، حقارت، حسد اور منافقت کو جنم دیتی ہے۔اس ذہنی بیماری کی دوسری علامت لاچاری اور بےبسی کا شدید احساس ہے۔ ایسی کسی صورتحال میں انسان کو یقین ہو جاتا ہے کہ مجھ کو اپنی زندگی پر کوئی اختیارحاصل نہیں ہے۔ وہ مزدور یہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے حالات کی اصلاح کر سکتا ہوں اور نہ ہی میرے عمل سے دنیا میں کوئی تبدیلی آ سکتی ہے۔ بےمقصدیت کایہ احساس اس کو سماجی قدروں سےدور لےجاتا ہےاور بےبسی کا احساس اسے اپنے کردار و عمل سے بھی بیگانہ بنا دیتا ہے۔ہمارے پاکستانی معاشرے میں عوام کی اپنے مسائل سے لاتعلقی زیادہ تر اسی سماجی تفاوت اور بیگانگی کانتیجہ ہےجس کے نتیجے میں ہمارےنوجوان سماجی برائیوں میں مبتلاہورہےہیں۔ یہاں تک کہ وہ جدوجہد کی بجائےجھوٹ اور فریب کو اپناتے ہیں اور زندگی میں دولت اکٹھی کرنے کے لئے شارٹ کٹس ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض صورتوں میں وہ “مافیا” اور “انڈر ورلڈ” کے ورغلانے سے خودکش حملے کو بھی اپنے اور معاشرے کے مسائل کا حل سمجھنے میں عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔
موجودہ دورمیں پاکستان تیسری دنیا کے ممالک میں سرمائے کے ارتکاز کی عملی “تجربہ گاہ” بنا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارےحکمران خود سرمایہ دار ہیں، وہ ملک سے پیسہ اکٹھا کرتے ہیں اور باہر کے ترقی یافتہ ممالک میں جائیدادیں بناتے ہیں۔ ہمارے حکمران اس بات پرفخر کرتے ہوئے نہیں تھکتےکہ ہمارے ملک میں سستی لیبر میسر ہے۔پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری لانےکا یہ ایک انتہائی گھٹیاہتھیار ہےکہ ہمارے ملک میں مزدور سستاہےحالانکہ کہ یہ ہمارےحکمران ہیں جن کی یہ سوچ ہے،کیونکہ وہ سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو پاکستان لا کر انہیں ہمارے محنت کشوں کا استحصال کرنے کی کھلی چھٹی دیتےہیں جس کا مقصد کک بیکس کھانا ہوتا ہے اور منافع کے لالچ میں حکمران ان بیرونی کمپنیوں کو ہر قسم کی ناجائز مراعات بھی دینے کے لیئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔